English   /   Kannada   /   Nawayathi

امراض گردہ

share with us

گردوں کا خاص کام یہ ہے کہ وہ بدن کا گندہ پانی خون کے اندر سے کھینچ کر باہر نکال دیتے ہیں ۔اس گندے پانی کے اندر بدن کے کئی ٹھوس عضلات کھلے ہوئے ہوتے ہیں ۔جن میں دو خاص یوریا اور یورک ایسڈ ہیں ۔اگر یورک ایسڈ خارج نہ ہوا اور بدن میں جمع ہوجائے۔ تو کئی امراض لاحق ہو جاتے ہیں ۔جن میں جوڑوں کی مشہور بیماری گٹھیا بھی شامل ہے ۔
گردے جسم میں پانی اور نمکیات کے توازن کی بر قرار رکھتے ہیں ۔اور خون میں تیز ابیت کے توازن کو اپنی حدود میں رہنے میں مدد دیتے ہیں ۔ جہاں جسم میں 67فی صد سے زائد پانی ہوتا ہے۔ وہاں مختلف قسم کے نمکیات بھی انسانی بقالے لیے اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔جو افراد اپنے بدن کی جسامت کی ضرورت کے مطابق پانی اور دیگر مشروبات نہیں پیتے ۔انہیں یہ تکلیف ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے ۔چنانچہ بدن کی ضرورت کے مطابق یعنی گرمیوں میں 14سے 20گلاس مشروبات ۔سردیوں میں 8سے 12گلاس پانی و دیگر مشروبات کا استعمال لازماََ کریں ۔
انسانی جسم کا خون ۔گردوں کے اندر گردے کی خون کی نالیوں کے ذریعے جاتا ہے ۔جس کے اندر تقریباََ 20لاکھ خیلے ہوتے ہیں ۔جن کو نیفران کہتے ہیں ۔ان سے خون جذب ہوتا ہے۔ اور فاسد مادے مثلاََ یوریا وغیرہ پیشاب کے راستے خارج ہوتے ہیں ۔اگر ان میں کوئی رکاوٹ پیدا ہو جائے۔ تو گردے خراب ہو جاتے ہیں ۔
گردوں کی بناوٹ کے خیلے نہایت ہوشیاری سے اچھی اور بری چیز کو پہچان کر خون کے اندر سے صرف نقصان پہچانے والے بے کار مادوں کو باہر کھینچ لیتے ہیں۔ اور قیمتی پروٹینز کو عمداََ خون کے اندر ہی رہنے دیتے ہیں ۔گردے بلڈ پریشر کے کنٹرول میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔انسانی جسم میں سب سے زیادہ خون کی گردش گردوں ہی میں ہوتی ہے ۔اگر گردے خراب ہو جائیں تو خون کی گردش کا دورانیہ کم ہونا شروع ہو جاتا ہے ۔
مختلف سروے رپورٹوں کے مطابق دنیا میں گردے خراب ہو جانے کے امراض میں بہت زیادہ اضافہ ہو رہا ہے ۔ایک محتاط تخمینے کے مطابق ہر دس افراد میں سے ایک اس مرض میں ضرور مبتلا ہوتا ہے۔ اور مشاہدے میں یہ بھی آیا ہے کہ یہ مرض عورتوں کے مقابلے میں مردوں میں زیادہ ہوتا ہے ۔
گردے خراب ہو جانے کے متعدد اسباب ہیں ۔مثلاََ گردوں کی خرابی کی 45فی صد وجہ ذیا بطیں کا مرض ہے ۔طبی ماہرین کا مشاہدہ ہے کہ فکر ۔تشویش ۔ذریعہ معاش کے لیے بھاگ دوڑ غذا میں ان چیزوں کی قلت ۔جن میں وٹامن اے کی بہتات ہوتی ہے ۔مرغن غذا کے کثرت سے استعمال ۔ ورزش کے فقدان ۔بغیر چھنے یا بغیر فلٹر آلودہ ۔کثیف پانی کے استعمال ۔تیز مرچ مسالے ۔آلو ۔پیاز ۔پالک ۔ٹماٹر ۔گوبھی ۔ابلے چاول اور دال مسور کے کثرت سے استعمال کے باعث گردوں میں پتھری کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ۔تیل یا ایسی دوسری اشیاء کا زیادہ استعمال جن میں وٹامن ڈی کی غیر معمولی مقدار شامل کی گئی ہو یا وٹامن ڈی کو ڈاکٹرز کے مشورے کے بغیر جسم کی ضرورت سے زیادہ مقدار میں کھانے سے سے بھی پتھری بننے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ۔ انٹر نیٹ یا ٹیلی ویژن پر زیادہ دیر تک بیٹھنے سے پتھری بننے کا امکان بڑھتا ہے ۔ ان ہی سب عوامل ذیابطیں اور بلڈ پریشر میں اضافے کا بھی باعث ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ دن بہ دن گردوں کے امراض میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ۔
جن افراد کے جسم سے پسینہ نہ نکلے اور نہ وہ ایسی ورزش کریں ۔جس سے پسینہ بہے تو ایسے افراد کے جسم میں تیز ابیت کا بڑھ جانا بھی پتھری بننے کے عوام میں سے ایک بتایا جاتا ہے ۔پینے کے پانی میں کیمیائی یا نمکیاتی اجزاء کی زیادتی بھی پتھریاں بننے کے عمل میں گردوں سے لے کر اس کے اخراج کے آخر تک اگر راستے میں کہیں بھی انفیکشن ہو ۔تب بھی پتھریاں بننے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ۔جن لوگوں کو بغیر ضرورت ۔عادتاََ یا کام کی نوعیت یا کمی کی وجہ سے دیر تک پیشاب روکنا پڑے تو ان افراد کے گردوں کی فعالیت میں نقص واقع ہو جاتا ہے۔ اور نتیجتاََ پتھریاں بھی بنتی ہیں ۔نیز جو لوگ شراب نوشی ۔نشہ اور اشیاء یا مسکن اور یہ کے استعمال کے عادی ہو جاتے ہیں ۔وہ بھی گردے کی پتھریوں کے مرض میں زیادہ مبتلا پائے جاتے ہیں ۔
گردے کی پتھری کا مرض قدیم ترین بیماریوں میں سے ایک ہے ۔چند برس پہلے گردوں کے امراض نا قابل علاج سمجھے جاتے تھے ۔آج ان کا علاج ممکن ہے ۔الٹرا ساؤنڈ نے تشخیص اور آپریشن کے جدید طریقوں نے ایسے مریضوں کی زندگی بہت بہتر بنا دی ہے ۔لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ گردوں کی تکلیف میں مبتلا مریضوں کی ایک خاصی تعداد غربت کی وجہ سے ڈائیلسس کرواتے ہیں ۔ان کا حتمی علاج گردوں کی تبدیلی ہی ہے ۔
گردوں کی پتھری کا مرض گردوں کے جملہ امراض میں دوسرے نمبر پر آتا ہے ۔اس مرض کی کوئی ٹھوس وجہ اب تک سامنے نہیں آئی ہے ۔کہا جاتا ہے کہ انسانی جین (Gene)کا بھی پتھری بننے میں اہم کردار ہے۔تاہم دنیا بھر کے طبی حلقوں میں اس مرض پر تحقیق کی جا رہی ہے ۔تاہم قدرت نے ہمارے جسم کا دفاعی نظام ایسا بنایا ہے کہ گردے میں بننے والی ستر فی صد پتھریاں علاج معالجے کے بغیر خود بخود پیشاب کے ذریعے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کی صورت میں خارج ہوتی رہتی ہیں ۔باقی تیس فی صد پتھری کے مریضوں کو ڈاکٹر یا سرجن کی ضرورت پڑ سکتی ہے ۔جدید تحقیق کے مطابق اگر حفاظتی تدابیر اختیار کر لی جائیں تو گردوں میں پتھری بننے کے شرح کو کم کیا جا سکتا ہے ۔عام طور پر پورے نظام میں پتھری بننے کی بنیاد گردے ہی میں پڑتی ہے جو مثانے تک کسی بھی جگہ حجم میں بڑی ہو جاتی ہے ۔اس ضمن میں چنے کے دانے کے سائز سے لے کر ٹینس کی گیند کے برابر نوکیلی یا پورے گردے میں سمائی ہوئی پتھری تک اینڈ واسکوپ سرجری کے ذریعے نکالی گئی ہیں ۔چنا نچہ بڑی پتھریوں اور بڑی کانٹے دار پتھریوں کے لیے یہ ہی طریقہ استعمال کیا جا رہا ہے ۔
گردوں کی پتھریوں کے اخراج کے دیگر طریقے بھی ہیں ۔مثلاََ PCNL percutaneous nephrolitho therapy extracorporeal lithotherapy ESWL shock wave وغیرہ ۔لیکن اول الذکر ۔اینڈواسکوپک یا اوپن سرجری کے عمل میں چونکہ چیر پھاڑ نہیں ہوتی ۔اس لیے بہت بڑے پتھروں کو ایک سے زیادہ مرتبہ میں بھی نکالا جا سکتا ہے اور اگر مریض ایک پوزیشن میں لیٹے ہوئے تھک جائے تو پتھری نکالنے کے عمل کو اگلے دن پر بھی چھوڑ دیا جاتا ہے ۔پھر ایک سے تین مرتبہ میں یہ پتھری نکال دی جاتی ہے ۔
بچوں ۔خواتین ۔عمر رسیدہ افراد بلڈ پریشر اور ذیابطیں کے مریضوں یا افراد جن کا آپریشن ہو چکا ہو ۔ان کے لئے بھی یقیناََ اینڈواسکوپک سرجری ہی میں فائدہ ہے ۔کیونکہ اس سے مریض بہت جلد صحت یاب ہو جاتا ہے۔ اور زمرہ کے کام کاج بھی جلد شروع کر دیتا ہے ۔اب تو بازار میں ایسی ادویہ بھی آ گئی ہیں ۔جن کے استعمال سے گردے اور مثانے کی نالی میں پھنسے ہوئے پتھروں کو توڑ کر پیشاب کے راستے خارج کروایا جا سکتا ہے ۔گردے کی پتھری کے مریضوں کے لیے مفید مشورہ یہ ہے کہ سادہ خوراک اعتدال کی زندگی ۔ہلکی پھلکی ورزش اور مثبت طرز فکر کو اپنا شعار بنائیں ۔گائے کے گوشت ۔ابلے چاول ۔آلو ۔پالک ۔گوبھی ۔دال مسور ماش یا ثابت دال مسور ۔پیاز اور ٹماٹر کا استعمال نہ کریں ۔یا کم کھائے تو بہتر ہے ۔بغیر ضرورت زیادہ نمکیات والے وٹامن نہ کھائیں ۔موروثی طور پر پتھریاں بننے کا رجحان رکھنے والے افراد کو روزانہ گوشت نہیں کھانا چاہئے ۔اس کے بجائے یہ افراد اپنے جسم کی ضرورت پروٹین والی غذا سے پوری کریں ۔موسم اور جسم کی مناسبت سے پانی بہت زیادہ پیئے ۔اس کے علاوہ وٹامنز یا خوراک جن میں میگنیشیم کی مقدار زیادہ ہو ۔رس وار پھل اور پروٹین زیادہ کھائیں ۔بلڈ پریشر اور ذیابطیں کے مریض بھی ضروری احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور اپنا بلڈ پریشر اور شوگر لیول بڑھنے نہ دیں۔
پوٹاشیم کی کمی سے دل گردوں کے افعال متاثر 
خوبانی ’امرود‘ ’سلاد‘ آلو اور گوشت بہترین ذرائع 
پوٹاشیم جسم کے ہر خیلے میں پانی کی مقدار کو متوازن رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔اس کی وجہ سے ہر خلیہ اپنے آس پاس سے پانی جذب کر کے نہیں پھٹتا۔ اور نہ ہی اپنا پانی خواہ مخواہ خارج کر کے سکڑتا ہے ۔یعنی اپنی اہمیت برقرار رکھتا ہے ۔اس کی توازن میں موجودگی دل کی دھڑکن صحت مند اور با قاعدہ رکھنے میں معاون ہوتی ہے ۔اعصابی نظام مستعد اور فعال رہتا ہے ۔خلیوں کو متوازن غذائیت کی فراہمی ممکن بناتا ہے ۔پوٹاشیم کے بغیر خلیوں کے بندھنوں میں تال میل قائم نہیں رہ سکتا ۔یہ ہر خیلے کے ستر فی صد آئن میں موجود ہوتا ہے ۔ان آئنز میں سے باقی تیس فی صد سوڈیم اور ہائیڈروجن آئن پر مشتمل ہوتے ہیں ۔بدن میں پوٹاشیم کی مقدار 3000ملی مول فی لیٹر ہوتی ہے ۔اس سے متعلق بیماریوں سے بچنے کے لیے روزانہ 60سے100ملی مول فی لیٹر پوٹاشیم لینا ضروری ہے ۔
پوٹاشیم کی کمی کی علامات
فشارخون بلند ہو جاتا ہے ۔مزید براں ۔دل کا عارضہ (Caradiac arrythemla)ہو سکتا ہے ۔اس کیفیت کا مظہر دل کی رفتار کاست ہو نا ہے ۔نیز کمزوری ۔تھکاوٹ ۔یا سیت موڈ میں دفعتا تبدیلی اور اعضائے رئیسہ میں کمزوری محسوس ہونا بھی کمی کی علامات میں شامل ہیں ۔گردں کا فعل متاثر ہو سکتا ہے ۔ یہ متوازن ہو سکتے ہیں ۔اس مرض کو ہارٹر سنڈروم کہا جاتا ہے ۔عضلات ( گوشت ۔بافتوں اور ان کے بندھنوں ) کمزوری واقع ہو سکتی ہے ۔جس کی وجہ سے چال میں لڑکھڑاہت اور بعد ازاں فالج ہو سکتا ہے ۔خون کے پلازمہ میں پوٹاشیم 60ملی مول فی لیٹر ہوتا ہے ۔اور خلیہ سے باہر پوٹاشیم کی کمی کو Hypokaiaemiaہائی پوکلا ایمیا کا نام دیا جاتا ہے ۔بعض اوقات بدن کا رٹی سال (Cortisol)زیادہ بنانا شروع کر دیتا ہے ۔جس کی وجہ سے چہرہ گول گپا سا اور بدن گول موٹا یا بے ڈھب ساہو جاتا ہے ۔جلد خشک رہتی ہے ۔ذراسی ضرب یا مشقت کے کام سے بڈیا ٹوٹنے لگتی ہیں ۔اکثر مریض اپنے بدن کے بگڑے افعال سے متعلق علامات اپنے ہی انداز میں بیان کرتے ہیں ۔جو کہ عام علامات سے مختلف نظر آتی ہیں ۔لیکن ایک معالج اپنی بایو کیمسٹری پیتھالوجی اور دیگر علوم و تجربے کی بنیاد پر جانچ لیتا ہے کہ یہ پوٹاشیم کی کمی کا نتیجہ ہے ۔علاج کی طرف سے لا پروائی کے نتیجے میں خلیوں کے باہر ترشہ بڑھ جاتا ہے ۔یعنی PHکم ہو جاتا ہے ۔گردوں میں ہائیڈروجن کی مقدار کم ہو جاتی ہے ۔پوٹاشیم کی مقدار خلیوں میں 15mmo/Lسے کم اور خلیوں سے باہر 4mmo/Lسے کم ہو جاتی ہے ۔جب کہ پوٹاشیم کی بدن میں 3.5meg/lسے کم مقدار بیماری کی عکاسی کرتا ہے ۔ان پیچید گیوں کا علم صرف لیباریٹری ٹیسٹ ہی ہو سکتا ہے ۔
پوٹاشیم کی کمی سے کیسے بچا جائے ؟ 
عموماََ مزمن اسہال اور زیادہ قے آنے سے نہ کمی واقع ہوتی ہے ۔اس لیے حفظان صحت کے اصولوں پر سختی سے عمل کرنا چاہئے۔تاکہ یہ امراض لاحق ہی نہ ہوں ۔اسٹرائیڈز کے بے وریغ استعمال سے بھی پوٹاشیم کم ہو جاتا ہے ۔اس لیے خود تشخیصی پر انہیں کبھی بھی استعمال نہ کریں ۔قبض کشا ادویہ بھی مستقل استعمال نہیں کرنی چاہئے ۔اس کے بجائے روزانہ ایک ماہ تک عصر کے بعد ( سورج غروب ہونے سے قبل ) زیتون کے تیل کے ایک سے پانچ چمچے استعمال کیے جا سکتے ہیں ۔پیشاب کی زیادتی اور ذیابطیں کا علاج باقاعدگی سے کرنا چاہئے ۔ورنہ اس کی ایک اور بیماری میں مبتلا ہونے کے لیے تیار رہیں ۔پروٹین اور سبزیوں کا استعمال نہ کرنا بھی اس مرض کو دعوت دیتا ہے ۔کھانے میں کیلے خوبانی ۔امرود ۔ناشپاتی شکرقندی ۔سلاد ۔ٹماٹر ۔بند گوبھی۔ کھیرے ۔آلو پھلیوں سرخ اور سفید گوشت بغیر پالش شدہ براؤن چاول اور راب کاا ستعمال ضرور رکھیں ۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا