English   /   Kannada   /   Nawayathi

 مفتی محمدظہور ندوی  ؒ مسائل فقہ کے بحربیکراں اور تواضع وانکساری کا اعلی نمونہ تھے : ڈاکٹرمولاناسعیدالرحمن اعظمی ندوی

share with us

لکھنؤ26/ ستمبر 2020(فکروخبر/پریس ریلیز) گولڈن فیوچر ایجوکیشن اینڈ ویلفئرسوسائٹی کے زیر اہتمام مدرسہ ریاض الجنۃ(برولیا، ڈالی گنج) میں بعنوان سابق نائب ناظم ندوۃ العلماء ’’ مفتی محمدظہورندوی ؒ مایہ ناز شخصیت کے آئینے میں“ منعقد جلسہ کا آغازحافظ محمدانس کی تلاوت کلام پا ک سے ہوا۔   
     کیسے کیسے لوگ تھے جن سے رسم وفاکی بات چلی۔  (حافظ عتیق الرحمن طیبی)

 مفتی محمدظہورندویؒ  صبر وتحمل کا پہاڑ، وہر دالعزیز شخصیت تھے۔  (مولانافخرالحسن ندوی)

 مفتی محمدظہورندویؒ کی شخصیت مقناطیس کی طرح مرجع خلائق تھی۔(مولانانجیب الحسن صدیقی ندوی)

 مفتی صاحب ؒ  کا اصل امتیاز علمی رسوخ اور قلب وزبان کی طہارت ہے(مولانامحمدفرمان ندوی)  

مدتوں رویاکریں گے جام وپیمانہ تجھے(مولانامحمدشمیم ندوی)
    جناب مولانا ڈاکٹرسعیدالرحمن اعظمی ندوی مدظلہ (مہتمم دارالعلوم ندوۃ العلماء) نے اپنے پیغام میں کہا کہ”آٹھ دہائیوں پر مشتمل مفتی محمدظہور ندویؒ کی زندگی کا ہر ورق علم ودین کی خدمت سے عبارت ہے،آپ کا وجود ایک ایسا سایہ دار درخت تھا،جس کے نیچے نسلیں پروان چڑھیں،ایسا چشمہئ صافی تھاجس سے تشنگان علم وفقہ سیراب ہوئے،ایسا آفتاب تھا، جس سے ایک عالم منور ہوا، انھیں مفکر اسلام حضرت مولاناسید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ کی شفقتیں حاصل تھیں، وہ اکابر ین ندوہ کے جانشین،مسائل فقہ کے بحربیکراں،علماء سلف کانمونہ،اور تواضع وخاکساری میں اپنی مثال آپ تھے۔
     حافظ عتیق الرحمن طیبی (مسجل دارالعلوم ندوۃ العلماء) نے کہا کہ مفتی صاحب جس موقف کو حق اورشریعت کے مطابق سمجھتے، اس کو برملاکہتے، عام گفتگو میں     نا صحانہ پہلواختیار کرتے، تصنع وتکلف سے دور، ہمت کے دھنی،اعصاب کے مضبوط تھے،  دلوں کو فتح کرنے میں کامیابی حاصل کی،جس سے لوگوں میں محبوبیت ومقبولیت کے علاوہ حلقہ ئ  عقیدت بہت وسیع تھا،  انھیں چراغ سے چراغ جلانے کا ملکہ حاصل تھا، مفتی صاحب کی خوبیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا۔ کیسے کیسے لوگ تھے، جن سے رسم وفاکی بات چلی۔
     مفتی ؒصاحب کے داماد مولانافخرالحسن ندوی (ناظر شعبہئ تعمیر وترقی ندوۃ العلماء) نے کہاکہ مفتی صاحب ؒ  علوم قضاء کے ماہر اورفن فقہ کا ایسااہم ستون تھے،جس پر اصول شریعت،علم فقہ کی بلند وبالاعمارت قائم تھی،صبر وتحمل کے وہ ایسے پہاڑتھے کہ دوسروں کی تلخ سے تلخ باتوں کوپی جاتے، معاملہ فہمی، حاضر جوابی، اور علم ومعرفت کا ایک ایسا حسین سنگم تھے، جہاں سے شرعی احکام،فقہی بصیرت کے تیز دھارے ابل رہے تھے، ہر خاص وعام کے علاوہ دانشوروں و رہبروں کو متاثر کیا، جس سے وہ ہر دلعزیز شخصیت کے مالک تھے۔
     مولانانجیب الحسن صدیقی ندوی (ناظم مدرسۃ الحرم، رحمن خیرا) نے کہا علم وحلم کے پیکر مفتی محمد ظہور ندویؒ ایک نمونہ تھے،فقہی بصیرت اورذہانت کا،سادگی اور تواضع کا،بے نفسی اور بے نیازی کا، آپ کا ہر وصف انوکھا، ہرخوبی نرالی، صفتیں بے نظیر، اور شخصیت مقناطیس کی طرح مرجع خلائق تھی۔
     مولانامحمدفرمان ندوی (استاذ دارالعلوم ندوۃ العلماء)نے کہا مفتی صاحبؒ کا سب سے اہم امتیازان کا علمی رسوخ تھا،انھیں اپنے موضوع پر مکمل عبور اور استقامت، سادگی و تواضع نے ان کی شخصیت کوجامع الکمالات بنادیاتھا۔
    مولانامحمدشمیم ندوی نے مفتی صاحبؒ کے حسنات اور وفات ۵۲/ ستمبر ۶۱۰۲ء؁  کا ذکرکے اپنے قریبی تعلق کا اظہاراس شعر سے کیا۔مدتوں رویاکریں گے جام وپیمانہ تجھے، کہا کہ مفتی صاحبؒ کے ظاہر وباطن میں بڑی یکسانیت اور قول وفعل میں تضاد بالکل نہیں تھا، انکے یہاں علم بھی تھا،اورعمل بھی،اخلاص بھی تھا،اور قناعت بھی،حسن اخلاق بھی تھا، اور صلہ رحمی بھی،لیکن جہاں آپ کاجوہر خوب چمکا وہ فقہ کامیدان تھا۔  پھول تونے چنا گلشن کو ویراں کرگیا۔
    شرکاء سمیت مولانافخرالحسن ندوی نے مفتی صاحب کے بلندئی درجات، کروناوائرس کے خاتمہ،ملک میں امن وامان، دارالعلوم ندوۃ العلماء سمیت مدارس، مساجد،  اورعالم اسلام کے لئے دعاکی، خاص طور سے مولانانجیب الحسن صدیقی ندوی،مولانامحمدفرمان ندوی،حافظ اسلام ندوی، اطیع اللہ ندوی، ادیب الرحمن ندوی، احمدمیاں، محمدشریف ندوی،حافظ انس،حذیفہ،عکاشہ وغیرہ موجودتھے۔  

رپورٹ   حافظ محمدانس

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا