English   /   Kannada   /   Nawayathi

ملک سے غداری قانون کو اظہار رائے کو دبانے کے لئے کیا جا رہا ہے استعمال ، سابق جسٹس

share with us

:15ستمبر 2020(فکرو خبر/ذرائع)سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مدن بی  لوکر نے مودی سرکار کی پالیسیوں  پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ  ملک سے غداری  کے قانون کو لوگوں کی آزادانہ رائے کو دبانے کیلئے  آہنی ہاتھوں  کے ساتھ  استعمال کررہی ہے۔ انہوں  نے کہا ہے کہ عوام کی  اظہار رائے کے خلاف حکومت کا یہ  غیر ضروری  ردعمل  ہے۔ 
 ’آزادی ٔ اظہار رائے اور عدلیہ ‘  کے عنوان سے منعقدہ ایک ویبینار سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس لوکر نے کہا ہےکہ آزادی اظہار رائے کو دبانے کیلئے حکومت کی جانب سے جو دوسرا طریقہ  استعمال کیا جارہاہے وہ یہ ہے کہ تنقید کرنے والوں  پر فیک نیوز پھیلانے کا الزام عائد کردیا جاتاہے۔  یاد رہےکہ جسٹس لوکر ان ۴؍ ججوں میں سے ایک ہیں جنہوں  نے سپریم کورٹ میں جاری بے ضابطگیوں کے خلاف تاریخی پریس کانفرنس کی تھی اور کہاتھا کہ ملک کی جمہوریت خطرے میں ہے۔ 
 جسٹس لوکر نے ویبینار سے خطاب کرتے ہوئے  مثال پیش کی کہ کیسے  وہ صحافی  جو کورونا سے مطابق خبریں دے رہے تھے یا وینٹی لیٹر کی کمی  کے مسائل کو کوَر کررہے تھے،ان پر فیک نیوز پھیلانے کے الزامات عائد کرکے کارروائی کی گئی۔انہوں  نے بتایا کہ ’’حکومت  آزاد رائے کو دبانے کیلئےملک  سے غداری کے قانون کو آہنی پنجے کے طور پر استعمال کررہی ہے۔ ملک میں  اچانک غداری کے مقدمات میں اضافہ ہو ا ہے، ایک عام سا شہری اگر کچھ کہہ دیتا ہے تو اس پر ملک سے غداری کا مقدمہ عائد کردیا جاتا ہے۔ اس سال اب تک غداری کے ۷۰؍ مقدمات سامنے آچکے ہیں۔‘‘
 پرشانت بھوشن کے توہین عدالت کے مقدمے پر گفتگو کرتے ہوئے سابق جج نے کہا کہ ان کے ٹویٹس کو غلط سمجھا گیا۔ انہوں نے ڈاکٹر کفیل خان کی بھی مثال دی  اور کہاکہ  شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف ان کی تقریر کو بھی غلط انداز میں پیش کیاگیا تاکہ قومی سلامتی ایکٹ کے تحت کارروائی کی جاسکے۔
 معروف  اور معتبر صحافی نیز دی ہندو اخبار کے ایڈیٹر این رام  نے پرشانت بھوشن کیس میں  سزا کو ’’ناموافق‘‘ قرار دیتے ہوئےکہا ہے کہ سپریم کورٹ جس نتیجے پر پہنچا ہے اس پر پہنچنے کیلئے کوئی حقیقی مواد ہی موجود نہیں ہے۔  مہم برائے  عدالتی جوابدہی  و اصلاحات اور سوراج ابھیان کے  ذریعہ منعقدکئے گئے ویبینار سے خطاب کرتے ہوئے این رام نےکہا ہے کہ ’’عدالت کا میں بے انتہا احترام کرتا ہوں۔یہ عدلیہ ہے جس نے آئین ہند سے صحافت کی آزادی کو پڑھ کر نکالا۔‘‘ اس کے ساتھ ہی انہوں  نے متنبہ کیا کہ آنے والے دنوں  میں سپریم کورٹ کو مزید عوامی جائزے اور تنقیدوں   کا سامنا کرنا پڑے گا۔

 

 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا