English   /   Kannada   /   Nawayathi

ہندوستان میں شرحِ خواندگی : چند حقائق.......... ’’این ایس او‘‘ کی رپورٹ منظرِ عام پر

share with us

 

 تحریر:محسن رضا ضیائی

 

کسی بھی ملک و قوم کی تعمیر و ترقی اس کی شرحِ خواندگی پر موقوف ہوتی ہے۔جو ملک و قوم نا خواندہ اور ان پڑھ ہو، عروج و ارتقا اس کا مقدر نہیں بن سکتا۔یہ ایک زمینی سچائی ہے کہ آج جن کی شرح خواندگی سب سے زیادہ اور اعلیٰ درجہ کی ہے، آج ان کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ ترقی اور تعلیم یافتہ ممالک میں ہوتا ہے، جن میں یوروپی اور مغربی ممالک سرِ فہرست ہے۔

یہ بھی ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ ہمارا ملکِ ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا جمہوری اور ایٹمی طاقت رکھنے والا ایک عظیم ملک ہے، لیکن یہ شرحِ خواندگی کے اعتبار سے بہت ہی پس ماندہ ہے۔اقوامِ متحدہ میں شرکت کرنے والے تمام ممالک میں ہندوستان شرحِ خواندگی کے لحاظ سے 158 ؍ویں مقام پر ہے، جو ایک بڑے اورجمہوری ملک کے لیے بہت ہی تشویش اور افسوس کی بات ہے۔

حال ہی میں عالمی یومِ خواندگی کے موقع پر نیشنل اسٹیسٹک آرگینازیشن نے اپنی ایک فہرست جاری کیا ہے، جس میں ہندوستان اور اس کی تمام ریاستوں کی شرحِ خواندگی کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کیا ہے۔رپورٹ میں سات سال یا اس سے زائد عمر کے افراد میں شرحِ خواندگی کو واضح کیا گیا ہے۔ نیشنل اسٹیسٹک آفس کے سروے کے مطابق ہندوستان کی شرحِ خواندگی گذشتہ کے مقابلے قدرے بہتر ہوئی ہے، پہلے 74.37 ؍فی صد تھی لیکن اب 3 ؍فی صد بڑھ کر 77.7 ؍فی صد ہوگئی ہے۔ گرچہ 3 ؍فی صد اضافہ ہوا ہے ، تاہم یہ ملک کے لیے بہت زیادہ اطمینان بخش قطعی نہیں ہے۔

سروے میں ملکی ریاستوں کی شرحِ خواندگی کے اعداد و شمار بھی جاری کیے گئے، جن میں ریاستِ کیرلا نے 96.2 ؍کے ساتھ اپنی اعلیٰ پوزیشن کو برقرار رکھا ہے، وہیں دہلی 88.7 ؍کے ساتھ دوسرے، اتراکھنڈ 87.6 ؍کے ساتھ تیسرے، ہماچل پردیش 86.6 ؍کے ساتھ چوتھے اور آسام 85.9 ؍کے ساتھ بالترتیب پانچویں نمبر براجمان ہیں۔اسی طرح اترپردیش جو کثیر آبادی اور بی جے پی حکومت والا صوبہ ہے وہ 73.0 ؍ فی صد تلنگانہ 72.8,؍ فی صدبہار 70.9؍ فی صد، راجستھان 69.7؍ فی صد اور آندھیرا پردیش 66.4 ؍ فی صدکے ساتھ بری طرح تنزلی و پس ماندگی کے شکار ہیں۔اسی طرح دیہی علاقوں میں خواندگی کی شرح 77.7؍ اور شہری علاقوں میں 87.7؍ ہے۔مردوں کی شرحِ خواندگی بھی 87.7؍ فی صدا ور خواتین کی 70.3؍ فی صد ہے۔

اترپردیش، بہار، راجستھان، تلنگانہ اور آندھیرا پردیش یہ ایسی ریاستیں ہیں، جہاں سروے کے مطابق سب سے کم شرحِ خواندگی پائی گئی ہے۔حالاں کہ اترپردیش میں بی جے پی، بہار میں بی جے پی اور جے ڈی یو ،راجستھان میں کانگریس،تلنگانہ میں ٹی آر ایس اور آندھیرا پردیش میں وائے ایس آر سی پی کی مضبوط و مستحکم حکومتیں ہیں، ان میں سے بعض وہ پارٹیاں ہیں،جوبرسہا برس سے ان صوبوں پر حکومتیں کرتے چلی آرہی ہیں، لیکن اب تک ان ریاستوں میں تعلیم پر توجہ نہیں دی گئی، یہی وجہ ہے کہ وہاں آج شرحِ ناخواندگی زیادہ ہے، جس سے ان صوبائی حکومتوں کی ناکامیاں ظاہر ہوتی ہیں۔

اسی طرح یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ اس ملک میں جہاں بجا بجا اسکول، کالجیزاوریونی ورسٹیز قائم ہیں، وہیں شرحِ ناخواندگی بھی عام ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جس قدر تعلیمی ادارے ہیں، اسی قدر شرحِ خواندگی بھی ہونا چاہیے ، لیکن ان سب کے باوجود ہندوستان کی شرحِ خواندگی بہت ہی تشویش کا باعث ہے۔ خاص طور سے اقلیتی اور غریب طبقات کے لیے توبہت زیادہ پریشان کن ہے۔ملک میں ایسے لاکھوں بچے ہیں جوغربت و افلاس کی وجہ سے اسکولوں کا رخ نہیں کرپاتے ہیں، ایسے لاکھوں بچے ہیں، جو گھریلو حالات بہتر نہ ہونے کے سبب دسویں یا بارہویں سے آگے نہیں بڑھ پاتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ ہائر ایجوکیشن حاصل کرنے سے یکسرمحروم رہ جاتے ہیں۔حالاں کہ دستورِ ہند چھ سے چودہ برس کے عمر کے تمام بچوں کولا زمی اور مفت تعلیم کی سہولت فراہم کرنے پر زور دیتا ہے۔’’رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ‘‘ کے تحت تقریباً ایک کروڑبچے مفت تعلیم حاصل کرسکتے ہیں، اور اپنے روشن مستقبل اور سنہری خوابوں کو شرمندۂ تعبیر لا سکتے ہیں۔ لیکن سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ آزادی کے ۷۰؍ سال ہوگئے ،کئی ساری حکومتیں آئیں اور چلی گئیں ، لیکن اس سلسلے میں کسی نے بھی کوئی بہتر اقدام اور پیش رفت نہیں کیا، جس کے نتیجے میں آج ملک و قوم میں خواندگی کی شرح کم اور نا خواندگی کی شرح زیادہ ہے۔

اسی طرح اکثر دیہی علاقوں کا یہ حال ہے کہ وہاں پرائمری اور ہائی اسکول تو قائم ہیں، تاہم وہاں کالجیز نہ ہونے کی بنا پر طلبا و طالبات کو دور دراز شہروں میں جانا پڑتا ہے، جہاں طالبات کے ساتھ چھیڑ خانی اور جنسی ہراسانی جیسے شرم ناک واقعات پیش آتے ہیں، جس کی وجہ سے اکثر و بیشتر لڑکیاں اپنی تعلیم موقوف کردیتی ہیں، جس کی وجہ سے کہ عورتوں اور بچیوں کی خواندگی کی شرح میں مردوں کی بہ نسبت کمی ہے۔

حیف صد حیف کہ اکیسویں صدی میں دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی، نت نئے آلات دریافت کرچکی، سائنس اور ٹیکنالوجی میں حیرت انگیز طور پر ترقی کرچکی ،تعلیمی، تہذیبی، ثقافتی، اقتصادی اور سماجی ہر شعبے میں اپنی کامیابی و ترقی کے جھنڈے گاڑچکی ہے، لیکن ہمارا ملک کامیابی و ترقی کی سمت گامزن ہونے کی بجائے روز بہ روز بڑی تیزی کے ساتھ انحطاط و پستی کی طرف بڑھتاجا رہا ہے۔ بلکہ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ملک میں جب سے زعفرانی پارٹی بر سرِ اقتدار آئی ہے وہ تمام شعبوں میں ملک کو آگے لے جانے کے بلند بانگ دعوے کرتے رہی ہے، لیکن حکومت کے سب وعدے اور دعوے اس وقت ھباء ً منثوراً ہوگئے، جب ہندوستانی جمہوریت زوال پذیر ہوگئی، جی ڈی پی بری طرح زمیں بوس ہوگئی اور اب شرحِ خواندگی میں خاطر خواہ تبدیلی اور ترقی نہیں آئی۔

اس حوالے جہاں مرکزی و صوبائی حکومتیں ذمہ دار ہیں وہیں عوام بھی برابر کی ذمہ دار ہے، جو تعلیمی لحاظ سے بیدار نہیں ہے، خاص طور سے اقلیتی عوام شرحِ ناخواندگی کی خود ذمہ دار ہے، اسے اپنے اور اپنی نسلوں کے مستقبل کی چنداں فکر نہیں ہے۔ وہ خود جہالت و پستی کے قعرعمیق میں زندگی بسر کرنے کی عادی ہوچکی ہے۔عوام میں جو باثروت لوگ ہیں، وہ فضول و لغو کاموں میں پانی کی طرح پیسہ بہاتے ہیں ، لیکن قوم کے غریب اسکولی بچوں پر خرچ نہیں کرتے ہیں۔ کچھ کے پاس وسائل و ذرائع ؎ہونے کے باوجود تعلیم سے حد درجہ غفلت و سستی کے شکار ہیں۔اس طرح کے کئی ایک مسائل و اسباب ہیں، جن کی عوام خود ذمہ دار ہے۔

اگر ملک و قوم کو اس شرحِ ناخواندگی اور جہالت و پستی سے نکالنا ہے اور ہر سو علم و ہنر کی شمع جلانا ہے تو اس کے لیے سماج و معاشرے کے ہر فرد کو آگے آکر اپنے تعلیمی حقوق کے لیے پُر زور آواز بلند کرنی ہوگی، آئین و دستور نے جو تعلیمی حقوق و مراعات فراہم کی ہے، اس کے حصول کے لیے جدّ و جُہد اور تگ و دو کرنی ہوگی۔سماج میں تعلیمی بیداری لانے کے لیے کمیٹیاں تشکیل دینی ہوں گی ، جو سماج کے افراد کو تعلیم سے جوڑ سکیں۔یاد رکھیں کہ تعلیم کامیابی کی کنجی ہے، یہ کسی بھی قوم کاایک بیش قیمتی سرمایہ ہوتی ہے، جس کے بغیر کامیابی و ترقی کا حصول ممکن نہیں۔  

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا