English   /   Kannada   /   Nawayathi

وزیر اعظم -- دل سے جو بات نکلتی ہے......!!

share with us

 

  عبدالکریم ندوی گنگولی


          ہمارے وزیر اعظم اکثر اپنے بیانات میں ہندوستان کی جمہوریت کو نہ صرف بالائے طاق رکھتے ہیں بلکہ بے خوف و خطر اس کی دھجیاں اڑاتے ہوئے جوشِ جنوں میں بادۂ گلرنگ کا مزہ لیتے ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حضرت کے چہرے سے خوشیوں کے شادیانے اور مسرتوں کے ریلے ٹپک رہے ہوں، ان کی ہر بات نہاں خانۂ دل سے نکل کر سلیم الفطرت سامع کے جسم و جاں پر اتنا اثر کرتی ہے کہ وہ چند لمحوں کے لیے سکتے میں آجاتا ہے اور یہ سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ ان کے ہوتے ہوئے میری قسمت کا ستارہ جگمگانا تو درکنار ڈوب تو ضرور جائے گا، جی ہاں! اب تک ہندوستان کا ہر ناگرک یہی دیکھتا، سنتا، جانتا اور سہتا آرہا ہے، وزیراعظم کا کمالِ خطاب بھی دیکھئے کہ سماج جن پریشانیوں میں گھرا ہوا ہے اور ملک جن دشمنوں کا سامنا کر رہا ہے، ان کا تذکرہ کئے بغیر پتلی گلی سے نکل جاتے ہیں، مزید دورانِ خطاب چہرہ پر معصومیت، زبان میں مٹھاس اور مزدوروں، غریبوں پر درد و غم کا اظہار ایسا لگتا ہے کہ ان سے بڑا درد کا درماں اور قوم کا نگہباں کوئی ہے ہی نہیں، لیکن حقیقت اس سے مختلف ہے، در اصل حضرت والا کے الفاظ کی ہیرا پھیری میں عیاری و مکاری اور فریب کاری کے زہر آلود تیر چھپے ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ جن کی دھوکہ دہی، بیان بازی اور لفاظی کی وجہ سے ہنستے مسکراتے کتنے ہی گھر اجڑ گئے، لہلہاتے سر سبز و شاداب کھیت خشک ہوگیے، کھیلتے کودتے معصوم بچے یتیم ہوگیے، آباد و خوش حال نشیمن خانماں خراب ہوگیے، کتنے والدین خاکِ وطن پر شہید ہونے والے اپنے جوان بیٹوں کے تابناک مستقبل سے محروم ہوگئے، کتنی بیویاں اپنی راج سہاگ کی پرکیف فصل بہار کا نظارہ بھی نہ کرسکیں، کتنے بچوں کے سروں سے مشفقانہ پدر و محبانہ مادر کا سایہ روپوش ہوگیا، مزدوروں اور غریبوں کی زندگیاں تاریکیوں اور گمنامیوں کی نذر ہوگئیں، کتنے ہی کسان اور کاشت کار خانماں برباد، ان کا خون پسینہ اور شبانہ روز محنتیں ضائع و بیکار ہوگئیں، گویا وزیر اعظم اور ان کے اندھ بھگت نیتاؤں اور متبعین نے بلا تفریقِ مذہب ہر ایک شخص کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے، ان کا خون چوس چوس کر اپنا خون اور ان کا گوشت نوچ نوچ کر اپنا جسم بڑھارہے ہیں، معصوموں کے رستے زخم اور بہتے درد انہیں دکھائی دیتے ہیں اور نہ ہی ان کے مردہ قلوب کو زخمائے دل اور زخمائے جسم نظر آتے ہیں اور نہ ہی ان میں جذبۂ انسانیت جاگتا ہے، اب ان کے رہتے ہوئے سونے کی چڑیا کہلانے والا ہندوستان طوفانی ہواؤں کے منہ زور موجوں کی زد میں مجبور و مقہور اپنی بے بسی و بے کسی کا ماتم کر رہا ہے، اس پر زوال کی بدلیاں چھائی جارہی ہیں، اس کا روشن آئین، تابناک تاریخ اور اجلے نقوش مدھم دکھائی دے رہے ہیں، اہل بصیرت کی حق گو زبانیں اور معجزنما قلم 2104ء سے اس ملک کی بربادئ پیہم کی دردناک داستان لکھتے لکھتے بولتے بولتے سوکھ چکے ہیں، وزیراعظم کی مفاد پرستی اور اپنی پارٹی کے مقاصد و چاہت پر مشتمل فیصلوں اور ناپاک عزائم و ارادوں کے شکنجے میں بالعموم ہر ہندوستانی جکڑا ہوا اور بالخصوص ہر مسلمان مشقِ ستم بنا ہوا ہے، سرزمینِ ہند اپنے وجود ہی پر گریہ و ماتم کناں ہے، آخر کریں تو کیا کریں، عقل و خرد نے کام کرنا اور دل و دماغ نے ساتھ نھبانا چھوڑ دیا ہے، یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ مودی نہیں بلکہ پوری قوم کے لئے ایسا موذی، مضر و مہلک ناسور ہے جو آئندہ تاریخ کا سیاہ باب بنے گا اور آنے والی نسلیں زبان لعن طعن دراز کریں گی.
                ان دنوں ہمارا ملک در حقیقت نا اہلوں کی ناعاقبت اندیشی، نیپال کی سینہ زوری، پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں بڑھوتری اور چین کی دراندازی کی لپیٹ اور آوارہ ہواؤں کے خزاں زدہ تیوروں اور بدلتے فلک کی بے تاب بجلیوں کی زد میں ہے، کورونا کے پھیلنے کے بعد وزیر اعظم کے چھٹے خطاب کو سننے کے لئے پوری قوم  ہمہ تن گوش تھی اور یہ امیدیں و قیاس آرائیاں زوروں پر تھیں کہ وزیر اعظم بھارت اور چین کے درمیان جاری عسکری کشیدگی کے حوالے سے کوئی راحت افزا بات یا روز افزوں بڑھتی قیمتوں کے تعلق سے اہم اعلان کریں گے، لیکن کیا کیجئے گا! ان کی حکمرانی پر سر پھوڑئیے گا یا اپنی بدنصیبی پر ماتا پیٹیے گا! اگر آپ بھی سنیں گے تو پیٹ پکڑ کر رہ جائیں گے، انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاون کے دوران ملک کے اسی/٨٠ کروڑ سے زیادہ لوگوں کو پچھلے تین ماہ سے مفت راشن کی مسلسل فراہمی نے دنیا کو حیرت زدہ کر دیا ہے، پچھلے تین ماہ کے دوران غریب خاندان کے ہر فرد کو ماہانہ پانچ کلو چاول یا آٹا اور ہر خاندان کو ایک کلو دال مفت فراہم کی گئی، دنیا بھارت کے اس اقدام سے حیرت زدہ ہے، "بھارت نے امریکا کی مجموعی آبادی سے ڈھائی گنا زیادہ لوگوں کو، برطانیہ کی آبادی سے بارہ گنا زیادہ لوگوں کو اور یورپی یونین کی آبادی سے دو گنا زیادہ لوگوں کو مفت اناج دیا"، انہوں نے اعلان کیا کہ مفت اناج دینے کا یہ سلسلہ نومبر تک جاری رہے گا، "اس پر نوے ہزار کروڑ روپے سے زیادہ خرچ ہوں گے اور اگر پچھلے تین ماہ کا خرچ بھی شامل کر لیا جائے تو یہ تقریباً ڈیڑھ لاکھ کروڑ روپے بنتے ہیں"__ مزید انہوں نے آنے والے سارے تہواروں کا نام بھی لیا، لیکن مسلم قوم کی عید الاضحی کا نام نہیں لیا، در اصل ان کا ہر بیان دل میں چھپی مذہب پرستی اور قوم پرستی پر مبنی ہوتا ہے اور یہ بھی ذہن میں رہے کہ انہوں نے غریبوں کی زبوں بختی پر رحم و کرم کا ڈھول پیٹتے ہوئے ہمدرد و ہمنوا اور غمگسار و چارہ ساز ہونے کا جو اظہار کیا ہے، در حقیقت یہ ان کی انسانیت کشی اور اپنی زبوں کاری کا صاف اعلان ہے.
              کتنی عجیب بات ہے کہ وزیراعظم بھارت واسیوں کو کئی گنا زیادہ مفت اناج دینے کے بارے میں جن ممالک سے موازنہ کر رہے ہیں، سراسر بے وقوفی، جھوٹ اور جہالت پر مبنی ہے، صرف امریکہ کو ہی لیجیے کہ وہاں جون کے مہینہ میں سو بلین ڈالر بے روزگاروں کو بھتے کے روپ میں دیے گئے ہیں، جو اب تک کا ریکارڈ ہے اور بھارتیہ روپیہ میں ساڑے سات لاکھ کروڑ روپیے ہوتے ہیں اور ہمارے ملک ہندوستان میں دیڑھ لاکھ کروڑ صرف اور صرف اناج کے لئے نومبر تک دیے جانے کی بات کہی گئی، جس میں اسّی کروڑ جنتا شامل ہوگئی، جب کہ ہندوستان میں اس قدر غریبی ہے کہ انہیں پانچ مہینہ یعنی نومبر تک پانچ کلو اناج اور ایک کلو چنا بقول وزیر اعظم دیا بھی جائے تو تب بھی ناکافی ہوگا اور اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ اس کلیان اناج یوجنا سے غریبوں کا پیٹ بھر جائے گا لیکن جو مزدور اور مڈل کلاس کے لوگ جن کے پاس رہی سہی پونجی ختم ہوگئی ہے یا قریب الختم ہے، ان کا کیا ہوگا، وہ کس کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے اور کس در کے سامنے سر جھکائیں گے، اس لیے وقت ہے کہ ہم دیش واسیوں کو ہوش کے ناخن لیں، ہمیں مذہب کے نام پر سیاست کرنے والے مکاروں، دیش کے لٹیروں اور فریب کاروں کے ناپاک مقاصد سمجھنے، اپنی اور اپنے ملک کی حفاظت کے لیے آگے بڑھنے اور یکجٹ ہوکر ان کا مقابلہ کرنے کی اشد ضرورت ہے ورنہ نہ صرف ہمارا بلکہ ہمارے ملک بھی نام و نشاں جریدۂ عالم میں باقی نہ رہے گا اور تخت پر جلوہ نشیں انسانی دشمن درندوں اور بے وقوف الوؤں کے ہاتھوں ہم بھی خاک ہوں گے اور ملک کا بھی ستیاناس ہوگا، کیونکہ ملک ہندوستان نااہلوں کے ناپاک ہاتھوں میں تھمادیا گیا ہے، جن کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ
برباد گلستاں کرنے کو بس ایک ہی الو کافی تھا
ہر  شاخ پہ الو بیٹھا  ہے انجامِ  گلستاں کیا ہوگا

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا