English   /   Kannada   /   Nawayathi

منصبِ شیفتگی کے کوئی قابل نہ رہا ***ہوئی معزولیِ انداز و ادا میرے بعد

share with us

منصبِ شیفتگی کے کوئی قابل نہ رہا
ہوئی معزولیِ انداز و ادا میرے بعد.

مفاز شریف ندوی۔

وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُنِيرًا﴾ [الأحزاب ٤٦]

یہ آیت کریمہ قرآن مجید کا اعجاز ہے، نوع انسانی کے لیے خوشخبری ہے، خالق کائنات کی طرف سے ایک عظیم الشان احسان کا اعلان ہے اور اس احسان کی عظمت اور معنویت اور عالمگیریت پر دعوت غور ہے، محمد عربی کی ایسی صفت ہے جو صرف ایک بار استعمال کی گئی ہے اور اس ایک بار کے استعمال سے اس کے مخفی اسرار کھلتے چلے جاتے ہیں، یہ آیت آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے مقام کو متعین کرتی ہے اور اس مقام کو سمجھنے اور اس کے تقاضوں پر عمل کرنے میں مفید و ممد ہے، وہ ذات جو ہماری چشم عقیدت کا سرمہ اور ہمارے مسائل کا درماں ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں صفحات سیاہ کیے جاسکتے ہیں اور یہ بات محض عقیدت کا اظہار نہیں حقیقت کا اعتراف ہے، اس آیت کی تلاوت سے ایک مومن کے دل میں سید المرسلین کی ضرورت، دنیا و آخرت میں آپ کی ذاتِ گرامی کی معنویت کا شدید احساس موجزن ہوتا ہے۔ ایک کافر کو اگر اس کی تفسیر بیان کی جائے تو ممکن ہے اس کے دل میں ہدایت کا بیج کونپل نکالے!
سراج کہتے ہیں چراغ کو، قرآن مجید میں یہ لفظ چار مرتبہ استعمال ہوا ہے اور دو چیزوں کے لیے، تین مرتبہ سورج کے لیے اور ایک مرتبہ محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے لیے۔ سورج کے ساتھ منیر کی صفت استعمال نہیں ہوئی البتہ چاند کے لیے استعمال کی گئی ہے اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے لیے بھی، دو مرتبہ سورج کے لیے صرف سراج آیا ہے اور کوئی صفت استعمال نہیں ہوئی، ایک مرتبہ وهاجا کی صفت لائی گئی۔
1. ﴿تَبَارَكَ الَّذِي جَعَلَ فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَجَعَلَ فِيهَا سِرَاجًا وَقَمَرًا مُنِيرًا﴾ [الفرقان ٦١]
2. ﴿وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِيهِنَّ نُورًا وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا﴾ [نوح ١٦]
3. ﴿وَجَعَلْنَا سِرَاجًا وَهَّاجًا﴾ [النبأ ١٣].

ذرا سورج کی مرکزی حیثیت کو تصور میں لائیے، ذرا اس کی ہماری زندگی میں قدر وحاجت کو تازہ کیجیے، میں سائنس کا طالب علم نہیں ہوں لیکن بڑے ماہرین کی زبانی سن رکھا ہے کہ اگر یہ سورج نہ ہو یا اس کا عمل کچھ منٹوں کے لیے رک جائے تو کائنات کا نظام معطل ہوگا اور انسانی و حیوانی بقا دشوار ہو جائے گا، ایک مرتبہ میرے گھر کے باغ میں آم کا درخت پھل پھول نہیں رہا تھا ایک ماہر کی طرف رجوع کیا گیا تو معلوم ہوا کئی بڑے درختوں نے آم کے چھوٹے سے درخت کو ڈھانپ لیا ہے سورج کی کرنوں سے محروم ہے، اس لیے اس کی نشوونما سست رفتاری سے ہورہی ہے۔ قرآن کریم میں سورج کا تذکرہ تقریباً 35 مرتبہ ہوا ہے اور اللّٰہ کی عظیم نشانی اور نعمت کے طور پر ہوا ہے، بار بار اس کی عظمت پر تفکر و تدبر کی دعوت ہے، قیامت کے وقت اس کی روشنی سلب کی جائے گی پھر قیامت برپا ہوگی۔
سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ کی ذاتِ گرامی کی حیثیت دنیوی و اخروی سعادت، ترقی اور سرفرازی کے لیے اس سورج سے کئی گنا زیادہ ہے، آپ خوش قسمتی کا منبع ہیں۔ آپ قلب و ذہن کی پرورش کا باعث ہیں۔ آپ کی تعلیمات امن اور تحفظ کی ضامن ہیں۔ آپ سے جو متعلق ہوجائے وہ ہر قسم کی رہنمائی سے مستغنی ہے، حدیث میں صحابہ کو نجوم کہا گیا ہے اس پر امام رازی نے لکھا ہے کہ صحابہ بھی سراج منیر سے فیض پاکر اس قابل ہوئے کہ ان سے بھی استفادہ کیا جائے۔ دنیا کا بڑے سے بڑا قانون اگر آپ کی ہدایات سے مستنیر نہیں ہے تو وہ انسانوں کے لیے وبال ہے، حالات اس کے سچے گواہ ہیں۔ اس آیت میں اس حقیقت کا بھی ذکر ہے کہ اے لوگو محمد عربی سے قبل تم گوشۂ خمول میں تھے، آپ نے تم کو اس قابل بنایا کہ تم عالم کی زمام کار سنبھال سکو۔
سراج کہہ کر منیر کی صفت لائی گئی اس کی دو حکمتیں ہیں
1. سورج کے مضر عناصر کی نفی کی گئی ہے، آپ کی ذاتِ گرامی سراپا خیر ہے۔
2. آپ کی تابانی اور ضیا پاشی ہردم قائم ہے، سورج دن میں ہی اپنا خیر تقسیم کرتا ہے اور آپ دن رات، ہر وقت ہر موسم میں، آسمان پر بادل ہوں یا نہ ہوں روشنی بانٹتے ہیں۔
یہ نکات اپنی طرف سے بیان کردہ نہیں ہیں بلکہ مفسرین کے یہاں لطیف اشارے موجود ہیں۔
آج انسانیت ساری ترکتازیوں کے باوجود حیران و پریشان ہے، بجلی کے قمقموں کے ہوتے ہوئے اندھیرے میں بھٹک رہی ہے، آج مسلمان دوسرے کا تابع ہے، اس کی زندگی شادابی سے محروم ہے، مسرت سے خالی ہے، بلکہ اس کی آواز کہیں دب کر رہ گئی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟
محمد عربی کے چراغ سے اعراض اس کا واحد سبب ہے۔
اس آیت میں کہنے کے لیے بہت کچھ سامان ہے، خلوت میں غور کیجیے، معانی کھلتے چلے جائیں گے، آپ کی ضرورت کا احساس بڑھتا چلا جائے گا اور زندگی شادابی اور تابانی سے معمور ہو جائے گی۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا