English   /   Kannada   /   Nawayathi

اسلامی تاریخ کے مختلف مراحل میں آنے والی وبائیں ، مسلمانوں نے مقابلہ کیسے کیا؟

share with us

عربی تحریر:ڈاکٹر علی صلابی

ترجمانی:ڈاکٹر عبد الحمید اطہر ندوی

انسانی تاریخ میں انسانیت کو بہت سی آزمائشوں اور بحرانوں سے گزرنا پڑا ہے، طاعون، بھوک مری، قحط سالی، زلزلے، طوفان اور سیلاب وغیرہ بہت سی آسمانی اور زمینی آفتوں سے واسطہ پڑا ہے، یہ فطری بات ہے کہ مسلمانوں کو بھی ان مصیبتوں کو برداشت کرنا پڑا ہے، اسلامی تاریخ میں ایسے حادثات، مصیبتوں اور واقعات کا تفصیلی تذکرہ ملتا ہے، ان میں سب سے خطرناک مصیبت طاعون کی بیماری ہے، جو مصر، شام، مراکش، عراق اور اندلس میں کئی بار پھیلی اور اس کی وجہ سے ہزاروں لوگ لقمہئ اجل بن گئے۔
ان واقعات کے رونما ہوتے وقت جو مورخین موجود تھے انھوں نے ان وباؤں کی مختلف شکلوں، صورتوں، پوری دنیا میں ہونے والے ان کے اثرات اور نتائج کو بیان کیا ہے، مثال کے طور پر مقریزی، ابن تغری، بردی، ابن کثیر، ابن ایاس، ابن بطوطہ اور ابن عذاری مراکشی وغیرہ، میں نے اس موضوع کی تفصیلات جاننے کے لیے لونشریسی اور ابن رشد کی فقہی کتابوں کا بھی مطالعہ کیا۔
ان وباؤوں نے اسلامی تاریخ پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں، کیوں کہ ان کا اثر اسلامی اور انسانی معاشروں کے معاشرتی، معاشی، سیاسی اور اخلاقی حالات پر بڑا گہرا ہوا ہے، اس لیے ان پر تحقیق کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔
ان دنوں عالمی وبا کورونا وائرس کی خبریں ہر طرف عام ہیں، اس کی وجہ سے ہزاروں لوگوں کی موت ہوئی ہے اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ اس کا شکار ہوئے ہیں، جن ملکوں میں اس وبائی مرض کا خطرہ بڑھ گیا ہے وہاں خوف اور گھبراہٹ کا ماحو ل ہے، چوں کہ اس قسم کی وبائیں اللہ کی طرف سے ہوتی ہیں اور یہ تقدیر میں لکھا ہوا ہوتا ہے، اس لیے اللہ تعالی کے اس فرمان: ”وَأَنْفِقُوْا فِيْ سَبِیْلِ اللہِ وَلَا تُلْقُوْا بِأَیْدِیْکُمْ إِلَی التَّھْلُکَۃِ، وَأَحْسِنُوْا إِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ“(البقرۃ:195) (اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو، اور اپنے ہاتھوں خود کو ہلاکت میں مت ڈالو، اور احسان کرو، یقینا اللہ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے) کی وجہ سے بحیثیت مومن ہم سے یہ مطالبہ ہے کہ ہم اس مصیبت سے بچنے کے لیے سرگرم ہوں اور اس کے اسباب کو دور کرنے کی کوشش کریں، پھر اس کے بعد اللہ تعالی پر توکل اور بھروسہ کریں اور اسباب کو اختیار کرکے خود کو تقدیر کے حوالے کردیں۔

اسلامی تاریخ کے مختلف ادوار میں آئی ہوئی وبائیں اور طاعونتاریخِ اسلامی میں بہت سی عمومی وبائیں اور طاعون کی بیماری مختلف ملکوں اور علاقوں میں آئی ہیں،، لیکن ان میں سے مشہور اور زیادہ خطرناک مندرجہ ذیل ہیں:
٭طاعونِ عمواس 18ہجری مطابق637ء
٭ طاعونِ جارف 69ہجری مطابق 688ء
٭طاعون فتیات یا طاعونِ اشراف 87ہجری مطابق 705ء
٭طاعونِ مسلم بن قتیبہ 131ہجری مطابق 748ء
٭مشرقِ اسلامی میں عباسی، مملوکی اور ایوبی دور میں وبائیں اور طاعون۔
٭ مراکش میں وبائیں اور اطعون۔

طاعونِ عمواس عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمنِ خلافت میں پھیلا، اٹھارہ ہجری میں بہت ہی خوف ناک حالات پیش آئے، اس کو طاعونِ عمواس کہنے کی وجہ یہ ہے کہ عمواس ایک چھوٹا سا شہر ہے جہاں سے اس وبا کی شروعات ہوئی، یہ بیت المقدس اور رملہ کے درمیان میں پڑتا ہے، یہیں سے یہ طاعون شام میں پھیلا، یہ طاعون کی بیماری اس وقت شروع ہوئی جب مسلمانوں اور رومیوں کے درمیان سخت ترین جنگیں ہوئیں، بہپت سے لوگ قتل ہوئے اور فضا میں گندگی پیدا ہوگئی، پڑے ہوئے مردہ جسموں سے فضا میں تعفن پیدا ہونا فطری بات تھی، اللہ کی تقدیر کے مطابق یہاں طاعون کی وبا پھیلی اور شام میں اس کے اثرات سب سے زیادہ ہوئے، اس طاعون میں بڑی تعداد میں لوگ مرے، ان میں ابوعبیدہ بن جراح بھی تھے جو اسلامی فوج کے سپہ سالار تھے، معاذ بن جبل، یزید بن ابو سفیان، حارث بن ہشام رضی اللہ عنہم بھی اس موقع پر وفات پانے والوں میں تھے، کہا جاتا ہے کہ آخر الذکر صحابی یرموک کی جنگ میں شہید ہوئے، سہیل بن عمرو، عتبہ بن سہیل اور دوسرے بڑے بڑے لوگ اس میں انتقال کرگئے۔ (الصلابی2005 ص231)

طاعونِ جارف بصرہ میں عبد اللہ بن زبیر کے زمانے میں 69 ہجری میں آیا، اس کو جارف کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں کثرت سے لوگ مرے، سیلاب کی تیزی کی طرح لوگ اس میں وفات پارہے تھے، یہ طاعون صرف تین دنوں تک رہا۔ (افاضل2011، ص104)

78ہجری میں عراق اور ملکِ شام میں طاعون آیا، جس کو طاعونِ فتیات(لڑکیاں) کہا جاتا ہے، اس کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ اس طاعون کا شکار ہونے والی سب سے پہلے عورتیں اور لڑکیاں تھیں، بعض مورخین نے اسے طاعونِ اشراف کا نام دیا ہے، کیوں کہ قوم کے اشراف اور اکابر اس طاعون میں بہت زیادہ وفات پائے تھے۔ (افاضل2011، ص105)

اموی دور میں سب سے آخری طاعون131ہجری میں پیش آیا، اس کو طاعونِ مسلم بن قتیبہ کہا جاتا ہے، کیوں کہ اس طاعون میں سب سے پہلے وفات پانے والے شخص کا نام یہ تھا، یہ طاعون بصرہ میں آیا اور تین مہینوں تک رہا، رمضان میں اس کی شدت میں اضافہ ہوا، ایک ایک دن میں ایک ہزار بلکہ اس سے بھی زیادہ جنازے اٹھائے جاتے تھے۔

ابن کثیر نے بیان کیا ہے کہ جب مغل نے656ہجری مطابق 1258ء میں بغداد پر حملہ کیا اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی:”بغداد میں کئی مہینوں تک مسجدیں ویران ہوگئیں، جماعت اور جمعہ کی نمازیں معطل ہوگئیں،۔۔۔۔۔ جب امرِ تقدیری ختم ہوگیا اور چالیس دن گزر گئے تو بغداد میں صرف چند گنے چنے لوگ ہی باقی بچے تھے، راستوں پر ٹیلوں کے مانند مقتولین پڑے ہوئے تھے، اس وقت بارش ہوئی، جس کی وجہ سے مردوں کی شکلیں بدل گئیں اور ان سڑے گلے جسموں سے ملک کی فضا متعفن ہوگئی، ہوا بدل گئی، جس کی وجہ سے سخت ترین وبا پھیل گئی، یہاں تک کہ ہوا میں یہ وبا سرایت ہوکر ملکِ شام پہنچی، جہاں کی فضا کی تبدیلی اور ہوا کے بگاڑ کی وجہ سے خلقِ کثیر کا انتقال ہوگیا، اس دوران لوگ بہت سے مصائب کا شکار ہوئے، مہنگائی بڑھ گئی، وبا عام ہوگئی، ہلاکتیں بہت زیادہ ہوگئیں اور طاعون عام ہوگیا۔ انا للہ وإنا إلیہ راجعون“۔ (ابن کثیر:ج13ص203)

عصر مملوکی (غلامان کی حکومت) میں 748ہجری میں ملکِ شام میں طاعون آیا، جس کا شکار شام کے تقریبا سبھی علاقے ہوئے، اسی وجہ سے اسے ”طاعونِ اعظم“ کا نام دیا گیا، کیوں کہ یہ طاعون بہت ہی زیادہ پھیل گیا تھا اور اس سے بہت ہی زیادہ نقصان ہواتھا، اس طاعون نے حلب، دمشق، بیت المقدس اور ساحلی علاقوں کو فنا کرکے رکھ دیا، اسی طرح795ہجری میں حلب میں ایک وبا پھیلی جس کو ”فناے عظیم“ کا نام دیا جاتا ہے، اس میں حلب اور آس پاس کے دیہاتوں کے دیڑھ لاکھ افراد لقمہئ اجل بن گئے۔ (الطراونۃ2010ص47۔48)

مراکش کی تاریخ میں مرابطین، موحدین اور مرنیین کے زمانے سے لے کر موجودہ زمانے تک بہت سی وباؤں اور قحط سالیوں کا تذکرہ ملتا ہے، ان میں سب سے زیاہ اہم 571ہجری کا طاعون ہے جو مراکش اور اندلس میں پھیلا، اور یہ موحدین کے زمانے میں سب سے خطرناک طاعون شمار کیا جاتا ہے، اس کے بدترین نتائج سامنے آئے، اس سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہا، خلیفہ یوسف بن یعقوب کے چار بھائی اس کے شکار ہوئے اور وفات پاگئے، اس کی وجہ سے روزانہ سو سے ایک سو نوّے تک لوگ مرتے تھے۔ (بنملیح2002، ص124)

 مراکش میں 1798ء میں بھی طاعون آیا تھا، یہ طاعون تاجروں کے ذریعے یہاں پہنچا تھا، یہ تاجر اپنے ساتھ یہ وبائی بیماری اسکندریہ سے ٹیونس لے آئے، پھر یہاں سے جزائر میں پھیلا پھر مراکش تک پہنچا، یہ طاعون فاس، مکناس میں پھیلتے ہوئے رباط تک پہنچ گیا، اس میں روزانہ ایک سو تیس لوگ مرتے تھے۔ (البزار1992 ص92)

ابن عذاری نے اندلس میں پیش آنے والی وباؤں کی تاریخ کے سیاق میں پانچویں صدی ہجری کے اواخر یعنی بارھویں صدی عیسوی کے اوائل میں بیان کیا ہے کہ498ہجری مطابق1105ء میں اندلس میں قحط اور متعدی بیماری اپنی انتہا کو پہنچی، جس کی وجہ سے لوگوں کو اپنی ہلاکت کا یقین ہوگیا“۔ جب جب بھی فضائی وبائیں پھیلتی ہیں تو اس وقت کے انسانوں کے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ اب ہمیں معاشی، نفسیاتی اور صحت کے سخت ترین حالات سے گزرنا پڑے گا، اسی زمانے میں مراکش اور اندلس میں یعنی چھٹی صدی ہجری کے اوائل (بارھویں صدی عیسوی) میں قحط اور بھوک مری کا سلسلہ شروع ہوا، اس موقع پر524ہجری مطابق1130ء میں فاس اور غرناطہ میں سخت ترین قحط سالی آئی،526ہجری مطابق1132 ء میں قرطبہ میں قحط سالی بڑھ گئی اور وبا پھیل گئی، کثیر تعداد میں لوگ مرے اور قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں، یہاں تک کہ ایک مد گیہوں کی قیمت پندرہ دینار ہوگئی۔ اپنے زمانے کے دو دشمن ممالک اندلس اور مراکش میں فطری مصائب کے حملے جاری رہے، خصوصا ان ملکوں کے درمیان جنگوں کے زمانے میں۔ (البیاض2008 ص22-19)

عمومی طور پر مسلمانوں کی تاریخ اپنے مختلف مراحل میں اور عالمِ اسلام جغرافیائی طور پر اپنے مختلف علاقوں میں اس طرح کے مصائب اور وباؤں کا بہت شکا رہوا ہے، ہم نے یہاں چند مثالیں پیش کی ہیں، لیکن اب سوال یہ ہے کہ مسلمانوں پر ان کا کیا اثر ہوا؟ مسلمانوں نے ان وباؤں کا مقابلہ کیسے کیا؟ اور اسلامی عقیدے کی روشنی میں مسلمانوں نے کیا اقدامات کیے؟

اسلامی تاریخ میں وباؤں کے پھیلنے کی وجہ سے معاشرتی، سیاسی اور روحانی کیا اثرات رونما ہوئے؟
جو قومیں طاعون اور وباؤوں کا شکار ہوتی ہیں ان پر اس کے اثرات بڑے بھیانک ہوتے ہیں، لوگ ہلاک ہوتے ہیں، حکومتوں کے امن وامان کو خطرہ لاحق ہوتا ہے، زوال اور انحطاط کا خطرہ منڈلاتا ہے، یہ وبائیں اللہ کی طرف سے بھیجی ہوئی مصیبتیں ہوتی ہیں، ان ہی کو اپنا شکار بناتی ہیں جن کو اللہ تعالی شکار بنانا چاہتا ہے، یہ اللہ کی تلوار ہوتی ہیں جن کو چاہتا ہے اس کے ذریعے رحمت یا عذاب کے مقصد سے مارتا ہے، اس لیے وبائیں حکومت اور قوم کے امن وامان کے لیے خطرہ ہوسکتی ہیں، طاعونِ عمواس مسلمانوں کے لیے بہت بڑا خطرہ تھا اور بہت ہلاکتوں کا سبب بنا تھا، بیس ہزار سے زیادہ لوگ اس میں مارے گئے تھے، جن میں مسلمانوں کے بہترین قائدین بھی تھے، یہ تعداد شام میں ان کی آبادی کی آدھی تھی، حقیقت میں اگر روم والے شام میں مسلمانوں کو درپیش اس مصیبت کو بھانپ لیتے اور حملہ کردیتے تو مسلمان فوجوں کے لیے ان کا دفاع کرنا مشکل ہوجاتا، لیکن رومیوں کے دلوں میں مایوسی نے گھر کرلیا تھا، اس لیے وہ مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اٹھ نہیں سکے۔ (الصلابی2005 ص232)

معاشرتی اعتبار سے جائزہ لیا جائے تو مثال کے طور پر معلوم ہوگا کہ عہدِ مملوکی میں آبادی کے ڈھانچے میں توازن باقی نہیں رہا، جس کی وجہ سے شہروں اور دیہاتوں میں آبادی کی کثافت میں توازن بڑی حد تک بگڑ گیا، کیوں کہ بہت سے گاؤں وبا کی وجہ سے مکمل طور پر تباہ ہوئے،

جس کے نتیجے میں آبادیاتی تبدیلی واقع ہوئی، کسانوں کی تعداد بہت کم ہوگئی، زراعتی پیداوار میں بڑی کمی آئی اور جانوروں کی نشو ونما پر بڑا اثر ہوا، ان سب کے نتیجے میں قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں، جس کی وجہ سے معاشی حالات بد سے بدتر ہوئے، کمزور دل تاجروں اور کاریگروں نے اس بحران سے فائدہ اٹھانا شروع کیا اور اپنی مال داری میں اضافہ کرنے کے لیے بنیادی ضرورتوں کے ساز وسامان کو ذخیرہ بنا کر رکھنے لگے، جب کہ دوسری طرف محتاج اور فقیر چوری کرنے پر مجبور ہوئے، جس کی وجہ سے معاشرے میں اخلاقی گراوٹ پیدا ہوگئی، اس وبا کی وجہ سے بہت سے متقی اور دین دار لوگ، صالح علماء بھی انتقال کرگئے، جس کی وجہ سے دینی مرجعیت کو بھی زوال ہوا، یہاں تک کہ اس زمانے میں لوگ شعبدہ بازوں اور کاہنوں کی طرف رجوع ہونے لگے تاکہ ان کے پاس اپنے روحانی خلا کو پورا کرسکیں۔ (الطراونۃ2010 ص54-46)

مسلمانوں نے ان وباؤں کا مقابلہ کیسے کیا؟
طاعونِ عمواس کے موقع پر بیان کیا جاتا ہے کہ مسلمان طاعون کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علہ وسلم کے فرمان کے مطابق سرگرم ہوئے:”جب تم کسی علاقے کے بارے میں سنو کہ وہاں طاعون ہوا ہے تو وہاں مت جاؤ، اگر کسی علاقے میں طاعون ہو اور تم وہیں پر ہوں تو وہاں سے بھاگتے ہوئے مت نکلو“۔ اس حدیث میں آج جو سائنسی اور عملی طور پر منتشر وباؤوں کے مقابلے کے مقصد سے صحتی پابندی لگائی جاتی ہے یعنی لاک ڈاؤن کیاجاتا ہے اس کی طرف واضح اشارہ ہے، کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اس کا ہی حکم نہیں دیا ہے کہ اس علاقے میں نہ جائے جہاں پر وبا پھیلی ہے، بلکہ اس کے بعد یہ بھی حکم دیا ہے کہ طاعون زدہ علاقے سے نکلا بھی نہ جائے، تاکہ اس متعدی بیماری کو پھیلنے سے بچایا جاسکے، کیوں کہ لوگوں کے وہاں سے نکلنے کی صورت میں وبا دوسرے علاقوں تک پہنچ جائے گی۔ اسی وجہ سے یہ حدیث ایک معجزہ ہے جس کو طبِ نبوی کے رجسٹر میں شامل کیا جانا چاہیے۔

اسی حدیث پر عمل کرتے ہوئے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مدینہ واپس ہوئے، شام میں نہیں گئے، جب کہ آپ شام جانے کے ارادے سے سفر پر نکلے تھے، یہ موت سے بھاگنے کے لیے نہیں تھا، جب ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو مدینہ واپس ہونے کا سبب یہ کہتے ہوئے دریافت کیا کہ کیا آپ اللہ کی تقدیر سے بھاگ رہے ہیں؟ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: کاش تمہارے علاوہ کوئی دوسرا یہ سوال کرتا، جی ہاں، ہم اللہ کی تقدیر سے اللہ کی تقدیر کی طرف بھاگ رہے ہیں۔(الصلابی 2005 ص233)

جب کہ ابوعبیدہ بن جراح اور دیگر صحابہ شام میں وبا پھیلنے کے بعد رکے، وہاں سے نہیں نکلے۔…… ایک روایت میں آتا ہے کہ جب عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ شام کے گورنر ہوئے تو اس کے بعد ہی وبا ختم ہوئی، انھوں نے لوگوں میں خطاب کیا اور کہا: اے لوگو! جب یہ وبا آتی ہے تو آگ کے بھڑکنے کی طرح بھڑکتی ہے، اس لیے پہاڑوں میں جاکر اس سے بچو۔ پھر وہ خود بھی نکلے اور لوگ بھی نکلے، اور الگ الگ ہوگئے، یہاں تک کہ اللہ تعالی نے اس وبا کو دور فرمادیا۔ یہ خبر حضرت عمر کو پہنچی تو اس کو ناپسند نہیں کیا۔ اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ عمرو رضی اللہ عنہ نے وبا کے شکار لوگوں کو ایک دوسرے سے الگ ہونے اور ایک ساتھ نہ رہنے کا مشورہ دیا۔ تاکہ متعدی مرض کے منتقل ہونے کا فیصد گھٹا دیا جائے اور جماعتوں کی شکل میں یہ بیماری لوگوں کو ہلاک نہ کردے، بلکہ صرف وہی ہلاک ہو جس کو یہ مرض لاحق ہوا ہے، جس کی وجہ سے دوسرے لوگ اس کا شکار ہونے سے بچ جائیں گے۔ (الصلابی2005ص231۔232)

بعد میں مسلمانوں نے طاعون اور وباؤوں سے مقابلے کے طریقوں کو ترقی دی، مملوکی عہد میں شام اور مصر کے باشندوں کو کثرت سے لاحق ہونے والی اور پھیلی ہوئی وباؤوں کا مقابلہ کرنے کے لیے چند سلاطین اور مال دار مسلمانوں نے ثواب اور تقرب الی اللہ کے مقصد سے پورے شام میں ہسپتال بنائے، تاکہ طاعون زدہ اور بخار وغیرہ وباؤوں کے شکار لوگوں کا علاج کیا جاسکے، لوگ چوں کہ وبا کے زمانے میں کثیر تعداد میں مررہے تھے اور تین تین دنوں تک ان کی لاشیں اٹھائی نہیں جارہی تھی اور بیماری منتقل ہونے کے خوف سے لوگ لاشوں کو دفن بھی نہیں کررہے تھے، چند حکام اور مال داروں نے اسلام کی تعلیمات کے مطابق جتنی جلدی ہوسکے جنازوں کو دفنانے اور انسان کے احترام واکرام کی حفاظت کی غرض سے تابوت فراہم کیے اور جنازوں کو نہلانے کے مراکز قائم کیے، جہاں مسلمانوں میں سے فقراء اور مساکین کے غسل اور کفن کا اہتمام کیا جاتا تھا اور اسلامی شریعت کے مطابق ان کی تدفین عمل میں آتی تھی۔ (الطراونۃ2010 ص55)

لوگ ایسے سخت ترین مواقع پر بھی اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے اور اس کی طرف رجوع ہونے اور دعائیں کرنے سے غافل نہیں رہے، صالحین اور عبادت گزار لوگوں نے اللہ سے توبہ کرنا، اس سے مغفرت طلب کرنا اور اپنی عبادتوں میں اضافہ کرنا شروع کیا، اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے بہت سے لوگوں نے شراب کی دکانیں بند کرنا شروع کی، اور لوگ فحش کاموں اور منکرات سے دور ہونے لگے۔ (الطراونۃ 2010ص57)

لاک ڈاؤن کو نافذ کرنے کا مسلمانوں کو پہلے سے تجربات ہیں، مراکش میں 1798ء میں طاعون پھیلنے سے پہلے مراکش کے لوگ لاک ڈاؤن نافذ کرنے اور مشرق سے آئی ہوئی وبا سے بچنے کی غرض سے کاروائیاں کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے، وہ اس وبا کو روک تو نہیں سکے، لیکن اس کو کئی سالوں تک موخر کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے، اس طاعون کی شروعات اسکندریہ میں 1783ء میں ہوئی تھی، اس وبا کے اپنے علاقے میں آنے سے روکنے میں ان تدابیر کا بڑا ہاتھ ہے جو سیدی محمد بن عبد اللہ نے اپنے علاقے کو الجزائر میں پھیلی ہوئی وبا سے بچانے کے لیے کیا تھا، انھوں نے مراکش کی مشرقی سرحدوں پر ایک فوجی چوکی بنائی تھی، اور طنجہ میں مقیم کونسل کمیٹی نے 1792ء میں سمندری حدود پر احتیاطی اور پرہیزی کارروائیاں شروع کردی، یہ کام اس وقت کیا گیا جب مولای سلیمان کی طرف سے جزائر جہاں اس وقت وبا پھیلی ہوئی تھی کے خلاف لاک ڈاؤن نافذ کرنے کی موافقت حاصل کی گئی۔ (البزا1992ص87)

ہم قرآنی نظریہ اور اسباب کو اپنانے کے نبوی طریقے کے مطابق ”کورونا“کا مقابلہ کیسے کریں؟
اللہ تبارک وتعالی کے اس فرمان ”وَأَنْفِقُوْا فِيْ سَبِیْلِ اللہِ وَلَا تُلْقُوْا بِأَیْدِیْکُمْ إِلَی التَّھْلُکَۃِ، وَأَحْسِنُوْا إِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ“(البقرۃ:195) (اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو، اور اپنے ہاتھوں خود کو ہلاکت میں مت ڈالو، اور احسان کرو، یقینا اللہ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے) کو مد نظر رکھتے ہوئے اور اللہ کی اچھی اور بری تقدیر پر راضی برضا رہ کر اور مصائب اور وباؤوں کے ساتھ مسلمانوں کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے ہم مندرجہ ذیل نتائج تک پہنچتے ہیں:

1۔ پرہیز اور علاج کے اسباب کو اختیار کرنا ضروری ہے، اور اس بات پر یقین اور اعتقاد رکھنا ضروری ہے کہ ہم اللہ کی ایک تقدیر سے دوسری تقدیر کی طرف بھاگ رہے ہیں۔
2۔ ہمیں اس بات کا عقیدہ رکھنا چاہیے کہ اگر ہم نے اس مرض اور مصیبت پر صبر کیا تو ہمیں اجر وثواب ملے گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:”طاعون ہر مسلمان کے لیے شہادت ہے“۔ ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جو کورونا کی بیماری میں انتقال کر جاتا ہے وہ اسی طرح ہے جو طاعون کی وجہ سے مرتا ہے، جب بیمار کی نیت شہید ہونے اور مصیبت پر صبر کرنے اور ہر حال میں اللہ کا شکر بجالانے کی ہو۔
3۔ جہاں متعدی بیماری پھیلی ہوئی ہے وہاں جانے سے بچنا ضروری ہے اور حکومتوں کی طرف سے عائد کردہ لاک ڈاؤن کے اصولوں کی پابندی کرنا ضروری ہے، کیوں کہ جو کوئی وبا کے علاقے میں ہو اور وبا کا شکار ہو تو نکلنے میں کوئی فائدہ نہیں ہے، بلکہ نکلنے سے اس کے ذریعے صحت مند لوگوں میں بیماری منتقل ہوجائے گی۔
4۔ آخری بات یہ کہ سرکاری اداروں اور طبی مراکز کی ہدایات کی پابندی کرنا چاہیے، کیوں کہ وہی لوگ مرض کی تفصیلات اور اس کے اثرات سے زیادہ واقف ہیں،یہ ہر ملک کے لیے ہے، اور انسانوں کو اس خطرناک وبا پر قابو پانے کے لیے ایک دوسرے کی مدد کرنا بہت ہی ضروری اور اہم ہے۔

مراجع:
البدایۃ والنھایۃ لابن کثیر
الکوارث الطبیعیۃ وأثرھا في سلوک وذھنیات الإنسان في المغرب والأندلس۔ عبد الھادی البیاض
سیرۃ أمیر المؤمنین عمر بن الخطاب شخصیتہ وعصرہ۔ علی محمد الصلابی
الأوبءۃ وآثارھا الاجتماعیۃ في بلاد الشام في عصر الممالیک الشراکسۃ۔ مبارک محمد الطراونۃ
تاریخ الأوبءۃ والمجاعات بالمغرب في القرنین الثامن عشر والتاسع عشر۔ محمد أمین البزاز
الوباء۔ موقع قناۃ الجزیرۃ18۔ مارس 2020
الطواعین في صدر الإسلام والخلافۃ الأمویۃ۔ نصیر بھجت فاضل
جوائع وأوبءۃ المغرب في عھد الموحدین۔ عبد الإلہ بنملیح۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا