English   /   Kannada   /   Nawayathi

کورونا وائرس لاک ڈاون : غریب جائے تو جائے کہاں ،کورونا نہیں تو بھوک تو مارڈالے گی

share with us

 

28مارچ2020(فکروخبر/ذرائع) کورونا وائرس ’کووِڈ-۱۹‘ سے نمٹنے کیلئےنافذ کئے گئے ۲۱؍ دنوں  کے ملک گیر لاک ڈاؤن کے بعد توقع کی جارہی ہے کہ ملک کے ایک کروڑ ۳۰؍ لاکھ شہری گھروں  سے باہر نہ نکلیں  مگر لاکھوں  کی تعداد ایسی ہے جن کے پاس گھر ہی نہیں ،ان کا ایک ہی سوال ہے کہ وہ کہاں  جائیں ۔ ان بے گھر افراد کے ساتھ ہی ساتھ لاکھوں  افراد ایسے یومیہ مزدوروں  کی ہے جو روز کماتے اور روز کھاتےہیں ۔ یوپی بہار اور دیگر ریاستوں سے شہروں  کا رخ  کرنے والے یہ مزدور لاک ڈاؤن کے بعد ملک کی معاشی سرگرمیاں  ٹھپ پڑ جانے کی وجہ سے پوری طرح بے روزگار ہوگئے ہیں ۔ ایسے میں  ذرائع آمد وروفت بھی اچانک بند کردیئے جانے سے یہ اپنے گاؤں  دیہات بھی نہیں  لوٹ سکے جہاں  دووقت کی روکھی سوکھی روٹی ہی مل جاتی۔ ان میں  اکثریت مختلف ریاستوں  میں  پھنسی ہوئی ہے، چھوٹی موٹی جمع پونجی ختم ہوجانے کے بعد وہ خوفزدہ ہیں  کہ کورونا وائرس سے پہلے انہیں  بھوک ہی مار ڈالے گی۔
 مغربی بنگال کی حکم چند جوٹ مل میں  کام کرنے والی ربی راہا کی سمجھ میں  نہیں  آرہا کہ ۳؍ ہفتے وہ کیسے گزاریں  گی۔ انڈین ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں  نے بتایا کہ ’’ہم روزانہ مزدوری کرکے دووقت کے کھانے کا بندوبست کرنے والے لوگ ہیں ۔ ہمارے پاس اتنا پیسہ کبھی نہیں  ہوپاتا کہ ہم ۳؍ ہفتوں کا چاول ، دال اور دوسری ضروری چیزیں ایک ساتھ خرید سکیں ۔‘‘راہا کے پاس بہرحال یہ متبادل حاصل ہے کہ وہ اپنے پراویڈنٹ فنڈ سے اس کیلئے قرض حاصل کرلیں  جس کیلئے انہوں  نے درخواست بھی دیدی ہے مگر دیگر مزدوروں   کے پاس یہ متبادل بھی نہیں  ہے۔ کمر چھٹی جوٹ مل میں  کام کرنے والے شہزادہ خان کے مطابق’’وزیراعظم نے ہمیں  گھر پر رہنے کیلئے کہا ہے، ہم ان کے حکم کی تعمیل کررہے ہیں  مگر ان حالات میں  ممکن ہے کہ ہم کورونا سے بچ جائیں  مگر بھوک سے نہیں  بچ پائیں  گے۔ جب مل میں  کام نہیں  ہوتا تھا اور ہم بے روزگار ہوتے تھے تو کہیں  اور کچھ کام ڈھونڈ لیتے تھے مگر لاک ڈاؤن میں  تو یہ بھی ممکن نہیں   ہے۔ ہم رکشہ کھینچ کر بھی ۲؍ وقت کی روٹی نہیں  کماسکتے۔‘‘ ہندوستانی ذرائع ابلاغ ہی نہیں ہندوستان کے حالات پر نظر رکھنے والا بین الاقوامی میڈیا بھی اس مسئلے کی جانب توجہ مبذول کروارہاہے۔ لاس اینجلس ٹائمز نےاپنی جمعہ کی اشاعت میں  ’’ہندوستان میں  بہت سوں  کیلئے کورونا سے زیادہ فکرمندی کاباعث ممکنہ بھکمری ہے‘‘ کے عنوان سے شائع رپورٹ میں ایسے کئی افراد کا حوالہ دیاہے جو لاک ڈاؤن کے سبب بھکمری کے خطرے کو کورونا سے زیادہ تشویشناک محسوس کرتے ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ شہروں  میں  روزگار کے مواقع بند ہوجانے کے بعد ہزاروں  کی تعداد میں  لوگ اپنے آبائی وطن لوٹنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ آمدورفت کے ذرائع میسر نہ ہونے کی وجہ سے وہ پیدل ہی نکل پڑے ہیں ۔ مغربی بنگال میں  راج مزدوری کرنے والے ۲۸؍ سالہ راہل امین انہی میں سے ایک ہیں ۔ انہوں   نےمذکورہ اخبار کے ایک سوال کے جواب میں  انہوں  نے کہا کہ ’’ہم کیا کریں ۔ میں  جانتا ہوں  کہ میں  دوسروں  سے رابطے میں  آرہا ہوں ، مجھے خطرے کا احساس ہے مگر یہ زندہ رہنے کا مسئلہ ہے۔ یہاں  رہوں  گاتو کھانے پینے کی بھی پریشانی ہے اس لئے گھرواپس جانا ضروری ہے۔‘‘ ان کے مطابق’’ہم ۲۱؍ دن تک تو کھلے آسمان کے نیچے زندگی نہیں  گزار سکتے نا؟ہم ایسے سیکڑوں  لوگ ہیں  جو کورونا سے بچنے کیلئے سماجی   دوری بنا کرنہیں رکھ سکتے۔‘‘ دہلی میں  لاک ڈاؤن کی سختی سے پابندی کے باوجود مزدور پولیس سے چھپ چھپا کر مزدوری کی تلاش کررہے ہیں ۔ اتر پردیش باندہ ضلع سے تعلق رکھنےوالے رمیش کمار کے مطابق’’ہمیں  پتہ ہے کہ اس وقت کوئی ہماری خدمات حاصل نہیں  کرناچاہتا مگر ہم پھر بھی کوشش کررہے ہیں ۔‘‘ انہوں  نے بتایا کہ ’’میں  روزانہ ۶؍ سو روپے کماتا ہوں اوراس سےمجھے ۵؍ لوگوں  کا پیٹ بھرنا ہوتا۔کچھ ہی دنوں  میں  ہمارے گھر کاراشن ختم ہوجائے گا۔ ‘‘ بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے  رمیش نے انتہائی جذباتی انداز میں کہا کہ ’’ میں  کورونا وائر س کے خطرے کو جانتا ہوں  مگر اپنے بچوں  کو بھوک سے بلکتا ہوا بھی تو نہیں دیکھ سکتا۔‘‘ رمیش کی طرح  لاکھوں  بلکہ کروڑوں  مزدور ہیں  جن کیلئے کورونا وائرس سے بڑا خطرہ ۲۱؍ دن کی بندی کے دوران بھکمری ہے۔ ہندوستان کی کل ورک فورس کا ۸۰؍ فیصد غیر منظم شعبے سے وابستہ ہے۔ لاک ڈاؤن کے بعد اس شعبے کی ملازمتیں  بری طرح متاثر ہوئی ہیں ۔ چھوٹے چھوٹے کاروباریوں نے جن کیلئے خود اپنی ۲۱؍ دن کی کفالت مشکل ہے، نے اپنے ملازمین کو چھٹیاں  دید ی ہیں اور وہ شہروں  میں  بے روزگار ہونے کے بعد پھنس کررہ گئے ہیں ۔ 
 کیرالا، مہاراشٹر،گجرات اور دہلی جیسی کئی ریاستوں  نے جہاں  غیر منظم شعبے سے تعلق رکھنے والے مزدوروں  کیلئے عبوری راحت کا اعلان کیا ہے وہیں  مختلف علاقوں  میں  پھنسے ہوئے مزدوروں کے کھانے پینے کی ضروریات کا خیال رکھنے کا بھی وعدہ کیاگیا ہے مگر حکومت کی یہ امداد کتنی کافی ہوگی اور کتنے ضرورت مندوں  کا احاطہ کرپاتی ہے یہ وقت کے ساتھ معلوم ہوگا۔ ایک طبقہ اچانک ملک میں  لاک ڈاؤن نافذ کرنے کے فیصلے کو اسی بنا پر تنقید کا نشانہ بنارہاہے۔ ان کا ماننا ہےکہ لاک ڈاؤن کے اعلان سے قبل حکومت کو اس بات کو یقینی بنانا چاہئے تھا کہ ایسے لوگوں  کو ان کے وطن تک لوٹنے کا موقع فراہم کیا جاتا۔ ریاستی حکومت کے راحتی پروگراموں سے بھی ان مزدوروں  کی بڑی تعداد محروم رہ سکتی ہے کیوں  کہ ان میں  سے اکثرایسی ہیں  کہ جس ریاست میں  مزدوری کرتے ہیں وہاں  ان کا کوئی ریکارڈ ہی نہیں  ہے۔ وہ تکنیکی طور پر کسی اور ریاست کے شہری ہیں ۔ 
مزدوروں  کی وطن واپسی کیلئے اسپائس جیٹ کی پیشکش
یوپی بہار سے تعلق رکھنے والے ممبئی اور دہلی میں  پھنسے ہوئے مزدوروں  کی وطن واپس کیلئے اسپائس جیٹ نے حکومت کو اپنی خدمات کی پیش کش کی ہے۔ تین ہفتوں  کے لاک ڈاؤن کے دوران کسی بھی طرح کی انسانی ضرورت کیلئے اپنے طیاروں ، عملے کے افراد اور دیگر اسٹاف کی خدمات کی پیشکش کرتےہوئے اسپائس جیٹ نے حکومت نے یہ تجویز بھی پیش کی ہے کہ اگر حکومت اجازت دے تو وہ دہلی اور ممبئی میں  پھنسے ہوئے بہار کے مزدوروں  کیلئے مذکورہ دونوں  شہروں  سے پٹنہ کیلئے خصوصی پروازیں  روانہ کرسکتی ہے۔ واضح رہے کہ ہندوستان نے ۱۴؍ اپریل کی رات ۱۲؍ بجے تک کیلئے تمام بین الاقومی اور اندرون ملک پروازیں  منسوخ کررکھی ہیں ۔ اسپائس جیٹ کے علاوہ گو ایئر اور انڈیگو نے بھی حکومت کو پیشکش کی ہے کہ کورونا وائرس پرقابو پانے سے متعلق کسی بھی قومی خدمت کیلئے ان کے طیارے اور عملہ حاضر ہے۔ اسپائس جیٹ کے سی ایم ڈی اجے سنگھ نے بتایا ہے کہ ’’ہم نے کسی انسانی مشن کیلئے اپنے طیاروں  اور عملے کی خدمات پیش کی ہیں ۔ ہم غذا،ادویات اور طبی سازوسامان کے نقل وحمل کیلئے بھی تیار ہیں ۔ ‘‘ اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’’ہم مہاجر مزدوروں کی بھی دادرسی کرنا چاہتے ہیں ، خاص طور سے ان کی جو بہار سے ہیں اوران کیلئے دہلی اور ممبئی سے پٹنہ کیلئے چند پروازیں   چلا سکتے ہیں 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا