English   /   Kannada   /   Nawayathi

کرونا سے خطرناک ہے کرونا کا خوف!!!

share with us


احساس نایاب (شیموگہ, کرناٹک)

 

ایک بہت بڑا بزنس مین تھا جس کی دنیا بھر میں  میڈیکل ریسرچ سینٹرس اور فارمسٹکلس تھیں اچانک اْسے بزنس میں بہت بڑا گھاٹا ہوا وہ سمجھ نہیں پارہا تھا کہ آخر اس نقصان سے کیسے باہر نکلا جائے, لاکھ کوششوں کے باوجود وہ اپنے بزنس کو پہلے کی طرح بہتر نہیں بنا پارہا تھا اْس پہ اْس کے کامپٹیٹر (مدمقابل) نے اچانک سے دوائیوں کی قیمت گھٹادی،ایسے میں سارے کسٹمرس اْس کی طرف راغب ہونے لگے جو اس بزنس مین سے برداشت نہیں ہوا وہ کسی بھی قیمت میں اپنے اْس کمپٹیٹر کو راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا 
بہت سوچنے کے بعد اْس کو ایک طریقہ سوجھا اْس نے چند پیشہ ور قاتلوں کو سپاری (روکڑا) دے کر اْس شخص کو جان سے مارنے کی ڈیل کردی, ساتھ ہی یہ شرط رکھی کے قتل ایسا لگنا چاہئیے جیسے کہ قدرتی موت ہو. 
پیشہ ور قاتل حسب معمول سے زیادہ رقم کے اعوض مان گئے دوسرے دن صبح جیسے ہی وہ شخص واک کے لئے گھر سے باہر نکلا تاک لگائے بیٹھے غنڈوں نے اْسے دھر دبوچا اور اْس کی نظروں کے آگے بڑے سے تھیلے سے ایک زہریلا سانپ نکالا جس کو دیکھتے ہی وہ شخص خوف کے مارے کانپنے لگا پھر غنڈوں نے اْس سانپ کو اْس کے آگے کیا اور دوسرے نے اْس کی آنکھوں پہ کالی پٹی باندھ دی پھر دو نوکیلے پن اْس کی گردن پہ چبھائی گئی, پہلے سے گھبرائے ہوئے شخص نے  پن کی چبھن کو سانپ کا ڈسنا سمجھ کر خوف کے مارے چند سکینڈس میں دم توڑدیا اور دوسرے دن صبح کے اخبار کی سرخیوں میں یہ خبر شائع ہوئی کہ ہارٹ اٹیک کی وجہ سے اْس شخص کی موت ہوگئی ……..
جیسے ہی یہ خبر نقصان میں جارہے بزنس مین تک پہنچی اْس نے قاتلوں سے قتل کا طریقہ پتہ کیا پھر کیا تھا اْس کے شاطر دماغ نے اپنے گرتے بزنس کو دوبارہ اٹھانے کے لئے اس تدبیر کو ازمانا شروع کردیا.
دراصل بزنس مین اب سمجھ چکا تھا کہ " موت سے زیادہ خطرناک موت کا خوف ہے اور "  دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر میں وبائی وائرس کی افواہ اس قدر پھیلائی گء کہ موت سے پہلے موت کے خوف سے ہی لوگ جینا بھول گئے,  موت کا خوف انسانوں پہ اس قدر حاوی ہوگیا کہ وہ بڑی سے بڑی قیمت دے کر اس سے نجات چاہنے لگے اور بزنس مین کا ڈوبتا ستارہ دوبارہ آسمان کی اونچائیاں چھونے لگا, معصوم لوگوں کی بربادیوں سے وہ آباد ہونے لگا ……...
موجودہ حالات کے مدنظر یہ کہانی ہمیں بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کرتی ہے کہ دنیا پرست انسان اپنے مفاد کے خاطر کسی بھی حد تک گرسکتا ہے, لاکھوں کروڑوں انسانی جانوں کے ساتھ کھلواڑ کرسکتا ہے,  پہلے اس طرح کے واقعات فلموں میں دیکھا اور سْنا کرتے تھے جیسے چند سال قبل تیلگو زبان میں ریلیز کی گئی " آئی " نامی فلم,  جس میں آپسی رنجش کے چلتے کئی قسم کے وائرس انسولین کے ذریعہ انسانی جسم میں داخل کئے جاتے ہیں, اسی طرح صدیوں سال قبل جنگوں میں بھی اسی طرح کے وبائی وائرس کو آخری ہتھیار کی طرح استعمال کیا جاتا تھا اور یہ وبائی امراض لاکھوں کی فوج یہاں تک کے پورے پورے ملک کو تباہ و برباد کردیتی تھی …….
خیر طاقت, دولت کی لالچ انسان سے کچھ بھی کرواسکتی ہے, لیکن انسان یہ بھول جاتا ہے کہ وہ جتنا بھی طاقتور کیوں نہ ہو کائنات کی سب سے بڑی طاقت کے آگے اْس کی کوئی اوقات نہیں, جس نے کائنات بنائی ہے وہ اْس کی حفاظت بھی کرنا جانتا ہے,  ہر شر,  فتنے,  آفت و وبا سے اور وہ طاقت ہے رب کائنات کی جس کے قبضے میں ہر جاندار کی جان ہے اور اْس کی مرضی کے بغیر ایک پتہ بھی نہیں ہل سکتا ……...
باقی جو تکالیف,  پریشانیاں و آفتیں آرہی ہیں وہ وقتیہ ہیں جو بیشک بندوں کے لئے آزمائش ہیں, ہمارے صبر, برداشت, حوصلوں, ایمان اور اللہ سبحان تعالی پہ  یقین کی آزمائش اور جو اس آزمائش میں کھرا اترتا ہے وہی مومن کہلاتا ہے اور جو ڈر کر خوف کے مارے انسانوں سے امیدیں وابسطہ کرلیتا ہے وہ مشرک ہے جس کی دین و دنیا دونوں تباہ ہیں …………
کیونکہ جس انسان کو اللہ سبحان تعالی پہ مکمل یقین ہوتا ہے اْس کو کوئی وبا کوئی آفت  کچھ نہیں بگاڑ سکتی, دراصل سارا کھیل یقین کا ہے یقین ہمارے اندر ہمت, طاقت, حوصلہ پیدا کرتا ہے جو بڑی سے بڑی مشکل, خطرے اور پریشانی سے ہمیں لڑ  کر جیتنا سکھاتا ہے ………….
رہی بات موت کی تو یاد رہے موت حیات اللہ سبحان تعالی کے ذمہ ہے نہ کہ کسی وائرس یا انسان کے اور جب تک اْس رب کائنات کا بلاوا نہ آئے موت ہمیں چھو بھی نہیں سکتی ساتھ لے جانے کی بات تو بہت دور کی ہے …….. 
ویسے بھی مقدر میں جس کی موت جس جگہ جس طریقے سے لکھی جاچکی ہو وہ لاکھ خود کو بچانے کی جدوجہد کرے چاہے پہاڑوں, گفاؤں میں جاکر کیوں نہ چھْپ  جائے اْس کی موت اْسے اسی جگہ کھینچ کے لائے گی جہاں لکھی گئی ہو …….. وہ کہتے ہیں نہ انسان کا آخری رزق اور مٹی کوئی اْس سے نہیں چھین سکتا اور یہی حقیقت ہے ……..
یہاں پہ ہمیں خالد بن ولید کا وہ پیغام یاد آرہا ہے جس میں انہونے فرمایا ہے
" موت لکھی نہ ہو تو موت خود زندگی کی حفاظت کرتی ہے, جب موت مقدر ہو تو زندگی خود دوڑتی ہوئی موت سے لپٹ جاتی ہے, زندگی سے زیادہ کوئی نہیں جی سکتا آور موت سے پہلے کوئی نہیں مرسکتا,  دنیا کے بزدلوں کو یہ پیغام پہنچادو کہ اگر میدان جہاد میں موت لکھی ہوتی تو اس خالد بن ولید کو بستر پہ موت نہ آتی ……..
خالد بن ولید کا یہ پیغام ہر اْس گھبرائے, خوفزدہ انسان کے لئے ہے جس نے کبھی بیماری کا بہانہ بناکر جینا بھول گیا, تو کبھی موت کے خوف سے اپنی ذمہ داریوں اپنے فرائض سے دست بردار ہوکر مظلوموں کی صف اول کھڑا رہا یا دنیا پرستی مین ڈوب کر بزدلی کا طوق اپنے گلے میں پہن لیا.
سننے میں یہاں تک آرہا ہے کہ ایک معمولی سی کرونا نامی وبا کی وجہ سے کئی مساجد, مدارس بند کردئیے گئے ہیں جو کہ  مسلمانوں کے لئے بڑے ہی افسوس و شرم کا مقام ہے ……...
ویسے بھی کرونا کا مرض ہم مسلمانوں کے لئے اتنا خطرناک نہیں لگنا چاہئیے کیونکہ جس ملک میں گائے, جئے شری رام کے نام پہ لنچنگ کرکے آئے دن ہمارے بیگناہ نوجوانون کا قتل کیا جاتا ہو, معصوم انسانوں کا خون پانی کی  طرح بہایا جارہا ہو, سیاسی مفاد کے چلتے کبھی گجرات تو کبھی دہلی میں ڈنگا کرواکر گھنٹوں میں سینکڑوں معصوم انسانوں کا نرسنگھار کیا جاتا ہو, جہاں ہر دن سگریٹ,  شراب جیسے نشے سے 100 میں 25 لوگ مرتے ہوں وہاں کرونا کے نام پہ عوام کے اندر اس قدر دہشت پیدا کرنا یہ بیشک کسی سازش کا حصہ ہے جس کے لئے سرکار اور انتظامیہ آج اسکول, کالجس,  سرکاری دفاتر اور پبلک پلیسس بند کروارہی ہے, لوگوں کے مجموعے پہ پابندی لگائی جارہی ہے,  کیا انہیں دہلی میں جلتے, کٹتے, سسک سسک کر مرتے لوگ نظر نہیں آئے ؟؟؟؟
کیا ان معصوموں کو بچانا ان کا فرض ان کی ذمہ داری نہیں تھی؟؟؟
 کیا اْن جانوں کی کوئی قیمت نہیں تھی؟؟؟
یا یہ خوف یہ دہشت محض این آر سی,  سی اے اے, این پی آر کی مخالفت میں کئے جارہے احتجاجات, مظاہروں و شاہین باغ کو ختم کرنے کے لئے ہے؟؟؟
یوں تو سرکار نے اور اْس کے سنگھی دہشتگردوں نے انہیں ختم کرنے کے لئے ہر طرح کے حربہ استعمال کرلئے لیکن ان کی جھولی میں ناکامی کے سوا کچھ نہ آیا تو اب انہیں ایک بیماری کو لے کر عوام کی اتنی فکر کھائے جارہی ہے کہ پورے ہندوستان کو لاک ڈاؤن کردیا ہے …………..
سرکار و انتظامیہ کی اس حرکت پہ ایک میڈیکل اسٹوڈینٹ نے سوشیل میڈیا پہ ویڈیو جاری کر ان کی پول کھول کے رکھ دی ہے جس کو ہم اپنے مضمون میں شامل کررہے ہیں تاکہ خوف میں مبتلا لوگ تھوڑی راحت بھری سانس لیں ……...
اسٹوڈینٹ نے جو کہا ہے وہ غورطلب ہے "  اس سے پہلے 2002  میں (SARS) " سیوئیر اکیوٹ ریسپریٹری سیگروم " نامی بیماری نے پیر پھیلائے تھے جس کی وجہ سے 100 میں 10 فیصد لوگ مارے جاتے تھے, پھر 2012 MARS  نامی بیماری نے ہلا بولا جس کی زد میں 100 میں 30 فیصد لوگوں کی جان کا خطرہ لاحق تھا,  اس کے بعد " Ebola " نامی خطرناک وبا پھیلی جس سے 100 میں 40 فیصد لوگ مررہے تھے اور اب 2019 میں "Corona " نے ساری دنیا میں دہشت مچائی ہے جس سے 100 میں 4 فیصد لوگوں کے مرنے کا خطرہ ہے " وہ بھی 6 سال کے اندر آور 60 سال کے اوپر والے لوگوں کے لئے یہ جان لیوا ہوسکتی ہے باقی والوں کے لئے یہ معمولی بیماریوں کی طرح ہے. جبکہ ہمارے ملک میں فرقہ وارانہ فسادات سے لے کر سڑک حادثات میں ہزاروں لوگ جان بحق ہوتے ہیں لیکن ان اموات پہ کبھی کسی نے سنجیدگی اختیار نہیں کی, اتنا ہی نہیں اعداد و شمار کے مطابق صرف سگریٹ, شراب کے نشے کی وجہ سے 100 میں 25 سے 28 فیصد لوگ مارے جاتے ہیں …….. 
لیکن ان اموات پہ روک لگانے کے لئے اتنی احتیاطی تدابیر نہیں کی گئی جتنی دہشت جتنا خوف 100 میں 4 فیصد والے کرونا کے لئے کیا جارہا ہے ………….
اور اس کرونا کو لے کر ملک میں جس طرح کے حالات بنائے جارہے ہیں انہیں دیکھ کر اب تو یوں لگ رہا ہے کہ بیچارے کرونا کو بیکار ہی میں بدنام کرکے رکھ دیا ہے کیونکہ لنچنگ کے نام پہ جو ذلت بھری موت ہمارا مقدر بنی ہے اْس سے تو یہ قدرتی موت ہی بھلی ہے, ویسے بھی جنہونے گجرات و دہلی کے بیرحم اموات دیکھے ہیں وہ کرونا سے کیا ڈرینگے؟
 اس لئے کرونا کا بہانہ بناکر آج جو شاہین باغ کو  ہٹانے کی سازش کی جارہی ہے اْن کے لئے ہمارا یہی کہنا ہے کہ  آج شاہینوں کے لئے کرونا سے زیادہ خطرناک یہ سیاہ قوانین ہیں اور جب تک یہ کالے قوانین تحریری طور پہ واپس نہیں لئے جائینگے ان شاء اللہ شاہین باغ یوں ہی آباد رہے گا اور وہاں کی بیباک, باحوصلہ شاہینوں کی گونج سے تاناشاہ اور اْس کے سنگھی دلالوں کی نیندیں حرام ہوتی رہیں گی اور شاہین باغ میں کرنٹ لگانے والے امت شاہ کو خود وقتا فوقتا 440 وولٹ کے جھٹکے کھانے پڑینگے ……...
رہی بات کرونا سے احتیاط کی تو الحمدللہ عوام سمجھدار ہے وہ اپنی حفاظت کرنا بخوبی جانتی ہے جب 6 سالوں سے اتنے بڑے بڑے گجرات کے تابوتی وائرسوں کا مقابلہ کررہے ہیں تو اس بیچارے کرونا کے نام پہ کیا رونا  …………؟
ہان احتیاطا چند تدابیر کرنی لازم ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ موت سے پہلے جینا بھول جائیں اور زندگی کو موت سے بدتر بنالیں, مرنے سے پہلے اپنوں سے دوری اختیار کرلیں,  سلام دعا خیریت عیادت بھی ڈر ڈر کے کریں اور اللہ سبحان تعالی کی ذات سے بڑھ کر فریبی ڈاکٹرس, حکیموں,   تانتریکی باباؤں پہ اندھا دھن یقین کرکے جاہلوں کی طرح گاؤ متر, گوبر, مشان کی راکھ کھانے اور جسم پہ ملنے لگ جائیں یہ انسانوں والا عمل نہیں بلکہ جاہل سنگھیوں کا عمل ہے ………… جو انہیں کو مبارک  …….. جتنا گوبر کھانا ہے کھائیں, جتنا مْتر پینا ہے پئیں ……..
آخر میں دوبارہ
 اللہ سبحان تعالی پہ یقین رکھیں,  کرونا کی دہشت کو دل و دماغ سے نکال پھینکیں کیونکہ یہ خوف کہیں نہ کہیں ہمارے ایمان کی کمزوری ہے اس لئے اپنے ایمان کو کمزور ہونے سے بچائیں اور 
 کرونا کو غنیمت جان کر شر میں بھلائی تلاش کرتے ہوئے ہر وقت اپنے گناہوں کی توبہ کریں ویسے بھی موت برحق ہے جب دنیا فانی سے کوچ کرنے کا وقت عنقریب ہوگا تو ان شاء اللہ شان سے پرسکون جائینگے نہ کہ ڈر آور خوف کے سائے میں بزدلوں کی طرح  …………..
 اْس وقت تک احتیاط میں بیشک سمجھداری ہے,  پاکی صفائی لازم ہے اسی لئے اسلام میں پاکی صفائی کو آدھا ایمان کہا گیا ہے باوجود لاپرواہی کا مظاہرہ حماقت ہے اور کبھی بھی کسی بیماری کو لے کر مذاق نہ بنائیں کیونکہ یہ اللہ سبحان تعالی کی طرف سے بندوں کے لئے آزمائش کے سوا کچھ نہیں ……..
اور اس بات کو ذہنشین کرلیں, جو قوم بیماریوں,  آفتوں و آزمائشوں کا مذاق اڑانے لگ جائے اْس کو تباہ و برباد ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔(یو این این)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا