English   /   Kannada   /   Nawayathi

دہلی تشدد: کس نے آگ بھڑکتی رہنے دی اور آخر کیوں؟

share with us

 

اتم سین گپتا

ان سب کھیل میں کیا کوئی فاتح ہے؟ یا ہر شخص ہارنے والا ہی ہے؟ وقت اس کا جواب دے گا، لیکن ایک بات تو طے ہے کہ ہندوستان ہار گیا ہے۔

 

ملک کی راجدھانی دہلی میں خراب صورت حال کی سیدھی ذمہ داری دہلی پولس اور سیاسی آقاؤں، خصوصی طور سے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کے تئیں اس کی پوری طرح خودسپردگی پر ہے۔ دہلی پولس کا ڈھانچہ موضوعِ فکر ہے۔ 2017 میں ہی کئی باتوں کی طرف توجہ دلائی گئی تھی۔ اس میں کہا گیا تھا کہ دہلی پولس میں ملک کے شمال مشرقی علاقوں سے ایک ہی پولس افسر ہے۔ شمال مشرقی علاقہ سے کافی سارے طلبا دہلی میں آ کر پڑھائی کرتے ہیں، اس لیے محسوس کیا گیا تھا کہ ان کی تعداد بڑھائی جانی چاہیے۔

اسی طرح کی فکر دہلی پولس میں مسلمانوں کی تعداد کو لے کر بھی ظاہر کی گئی تھی۔ حکومت نے 2013 کے بعد سے ہی بریک-اَپ جاری کرنا بند کر دیا ہے۔ پھر بھی، اسی سال جاری دستیاب اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دہلی پولس میں 1500 سے بھی کم مسلمان کام کر رہے ہیں۔ دہلی پولس میں 89 ہزار ملازم ہیں۔ 2011 کے اعداد و شمار کے مطابق دہلی میں مسلمانوں کی تعداد 12.5 فیصد ہے۔ اگر یکساں نمائندگی ہوتی تو 9 ہزار سے زیادہ مسلمان دہلی پولس میں ہونے چاہیے تھے۔

لیکن یہ مسئلہ کا صرف ایک پہلو ہے۔ دیگر ریاستوں کی طرح ہی دہلی پولس بھی گہرے طریقے سے فرقہ واریت اور اب پہلے سے کہیں زیادہ سیاست کی شکار ہے۔ دہلی میں حال کے تشدد کو لے کر آر ایس ایس سے جڑے رہے ایک بی جے پی جنرل سکریٹری (تنظیم) کے گہری سیاست والے ایک ٹوئٹ نے اندیشہ کو گہرا دیا۔ جب دہلی کے شمال مشرقی علاقے میں تشدد شروع ہوا تو انھوں نے ٹوئٹ کیا ’’کھیل اب شروع ہوتا ہے (گیم ناؤ بیگنس)۔ حالانکہ نصف گھنٹے کے اندر انھوں نے اسے ڈیلیٹ تو کر دیا، لیکن اس کا اسکرین شاٹ یہاں وہاں شیئر کیا جاتا رہا اور اس نے سوال کھڑے کر دیے ہیں کہ ان کا مطلب کیا تھا؟ اور کیا یہ غلطی کا اعتراف تھا؟

گزشتہ کچھ مہینوں میں جس جس طرح کے واقعات ہوئے ہیں، اس نے دہلی پولس کا کوئی وقار نہیں بڑھایا۔ دہلی ہائی کورٹ میں سالیسٹر جنرل تشار مہتا کا یہ کہنا بہت کچھ کہتا ہے کہ نفرت پھیلانے والی تقریر دینے کے لیے ایف آئی آر درج نہیں کرنے کے لیے دہلی پولس کی کھنچائی نہیں کی جانی چاہیے، کیونکہ ایسا کرنے پر ان لوگوں کی حوصلہ شکنی ہوگی۔

اس طرح کی تقریر حال کے دنوں میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے سب سے زیادہ دیے ہیں۔ انھوں نے دہلی انتخابات کے دوران بھی کہا کہ ٹکڑے ٹکڑے گینگ کو سبق سکھانے کا یہی موقع ہے۔ بھلے ہی مرکزی وزیر داخلہ نے اطلاعات کے حق کے تحت پوچھے سوال کے جواب میں اس طرح کے کسی گینگ کے بارے میں جانکاری ہونے سے ہی انکار کیا۔ سمجھا جاتا ہے کہ شاہ جے این یو اور جامعہ جیسی یونیورسٹیوں کے طلبا اور اساتذہ کے بارے میں کہہ رہے تھے۔

جامعہ میں گھس کر دہلی پولس نے جو کچھ کیا، جب کہ باہری لوگوں نے جے این یو میں گھس کر طلبا اور اساتذہ کے ساتھ جو کیا وہ سب جانتے ہیں۔ اس سے پہلے جب دہلی میں وکیلوں نے پولس والوں کی پٹائی کی تو پولس والوں نے بغاوت کر دی۔ جے این یو اور جامعہ کے واقعات میں پولس ناکام ہی نظر آئی۔ یہ سب ہونے کے باوجود شاہ نے دہلی پولس کمشنر عہدہ سے امولیہ پٹنایک کو نہیں ہٹایا۔ انھیں اس طرح کا صرف نام کا کمشنر غالباً بہتر لگتا ہو۔

تشدد کی یہ آگ کیوں لگائی گئی اور کیوں جاری رکھی گئی، اس سوال کا جواب دینا اور ڈھونڈنا تھوڑا مشکل ہے۔ بی جے پی لیڈر کپل مشرا کے اشتعال انگیز بیانات پر خوب چہ می گوئیاں ہو رہی ہیں۔ وہ دہلی اسمبلی کا الیکشن بھلے ہی ہار گئے ہوں، لیکن سرخیوں میں بنے رہنا چاہتے ہیں۔ انھیں آر ایس ایس اور بی جے پی کی مکمل حمایت حاصل ہے اور دہلی پولس کے ایک ڈی سی پی کے بغل میں کھڑے ہو کر انھوں نے اس طرح کا نفرت پھیلانے والا بیان دیا۔

ان سب سے بی جے پی اور وزیر داخلہ کیا حاصل کرنے کی امید رکھتے ہیں؟ سیاسی حلقوں میں مانا جاتا ہے کہ یہ وزیر اعظم نریندر مودی کو بدنام کرنے کی منشا سے کیا گیا ہے۔ قومی سلامتی مشیر (این ایس اے) اجیت ڈووال کو 25 فروری کو قانونی نظام کنٹرول کرنے میں جس طرح لگایا گیا، اس سے اِس طرح کی بات کو قوت ملتی ہے۔

کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ سب اس لیے کیا گیا تاکہ سی اے اے مخالف مظاہروں کو بدنام کیا جائے اور اکثریتوں کے من میں ان کے تئیں خوف پھیلایا جائے۔ وہ اس طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ اکثریتی طبقہ کو اس بہانے جس طرح جارحانہ بنایا گیا، وہ بی جے پی کو انتخابی فائدہ پہنچائے گا۔ ان سب کھیل میں کیا کوئی فاتح ہے؟ یا ہر شخص ہارنے والا ہی ہے؟ وقت اس کا جواب دے گا، لیکن ایک بات تو طے ہے کہ ہندوستان ہار گیا ہے۔

مضمون نگار کی رائےسے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا