English   /   Kannada   /   Nawayathi

 ملک کے دارالحکومت دہلی میں فسادات - ذمہ دار کون؟ " 

share with us

 

 

ابو رَزِین محمد ہارون مصباحی فتح پوری 

استاذ: جامعہ اشرفیہ مبارک پور

 

         ٢٤، فروری دو شنبہ کو قومی راجدھانی دارالحکومت دہلی کے کئی علاقوں میں فسادات رونما ہوئے۔ دہلی کے جعفر آباد، موج پور، بھجن پورہ، بابر پور وغیرہ کئی علاقوں میں حالات سخت کشیدہ ہیں۔

 

پولیس کے مطابق سی اے اے کی حمایت اور مخالفت کے دوران گوکل پوری میں ہوئی جھڑپوں میں ہیڈ کانسٹبل رتن لال کی موت ہو گئی۔ رتن لال اسسٹنٹ پولیس کمشنر کے دفتر میں تعینات تھے۔ جب کہ نیوز ایجنسیوں کے مطابق اب تک چار لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔

 

پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس کے شیل فائر کیے اور لاٹھی چارج کا سہارا لیا۔

 

مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نےدہلی میں تازہ تشدد  کے بعد  اعلی عہدیداروں کی میٹنگ طلب  کی ہے۔ دارالحکومت میں صورتحال پر قابو پانے کے لئے وزیر داخلہ نے خود چارج لیا ہے۔ وزیر داخلہ نے پیر کی شام ایک فوری اجلاس طلب کیا ۔جس میں ہوم سکریٹری بھلا ، دہلی ایل جی انیل بیجل اور دہلی پولیس کمشنر امولیا پٹنائک کو جلد سے جلد صورتحال پر قابو پانے کی ہدایت کی گئی ہے۔

 

ان جھڑپوں میں بہت سے پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے ہیں۔ اس دوران شاہدرہ کے ڈی سی پی امت شرما کے زخمی ہونے کی خبر ہے۔ پولیس نے بھیڑ کو قابو کرنے کے لئے آنسو گیس بھی چھوڑی۔ جعفرآباد میں حالات کافی کشیدہ ہیں ۔ پٹرول پمپ کو بھی آگ لگانے کی خبرہے۔ شر پسند عناصر پولیس پر پتھر اور بوتلیں پھینک رہے ہیں اور فائرنگ بھی کی جا رہی ہے۔

ان علاقوں میں رونما ہونے والے تشدد کی تصویریں ڈرانے والی ہیں۔ ویڈیوز دیکھ کر لگ ہی نہیں رہا ہے کہ یہ وہی دہلی ہے جو قومی دار الحکومت ہے۔ فساد پھیلانے والے بے خوف گھوم رہے ہیں، پستول لہرا رہے ہیں، گولیاں چلا رہے ہیں، کھلے عام گاڑیوں اور گھروں میں آگ لگا رہے ہیں، اور بے قصور لوگوں کو لاٹھی، ڈنڈے سے پیٹ رہے ہیں، معصوموں کو لہو لہان کر رہے ہیں۔ 

سب سے زیادہ حیرت تو اس بات پر ہے کہ یہ سب ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب دنیا کے سب سے زیادہ طاقتور ملک امریکہ کے پریسیڈنٹ ڈونالڈ ٹرمپ ہندوستان کے دورے پر ہیں، اور دہلی میں موجود ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ شمال مشرقی دہلی میں ہونے والے تشدد کا آغاز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قومی دارالحکومت کے دورے کے پیش نظر کیا گیا تھا۔

لیکن اندیشہ اس بات کا بھی ہے کہ کہیں یہ تشدد خاص اسی دن اس لیے تو نہیں کیا گیا کہ جب سارے نیوز چینلوں اور اخبارات میں ٹرمپ کی خبریں چل رہی ہوں ایسے وقت یہ سب کیا جائے تاکہ ٹرمپ کی خبروں کے شور میں اس تشدد کی خبر دب کر رہ جائے اور شر پسند عناصر اپنے مقاصد میں کامیاب ہو جائیں۔

ملک کی صورتحال دن بدن خراب ہوتی جا رہی ہے، شر پسندوں کے حوصلے بلند ہوتے جا رہے ہیں، سمجھ میں نہیں آتا کہ ان کے اندر یہ حوصلہ کہاں سے آ رہا ہے؟ آخر ان کی پشت پناہی کون سے عناصر کر رہے ہیں؟ کیا اب انھیں ملک کی بدنامی کا بھی ڈر نہیں رہا ہے، کیا اب یہ احساس بھی مردہ ہو گیا ہے کہ اس طرح کے حادثات سے ہمارے ملک کی شبیہ دنیا بھر میں خراب ہو رہی ہے؟ 

آپ وڈیوز دیکھیں کس بے رحمی کے ساتھ بے قصوروں کو مارا جا رہا ہے، کیا ان ظالموں کے اندر ذرا سا بھی جذبہ ہم دردی نہیں رہ گیا ہے، کیا بالکل ہی جانور ہو گیے ہیں یہ لوگ؟ ان لوگوں کے اندر سے قانون کا خوف اس طرح نکل گیا ہے کہ پولیس اہلکاروں تک کو جان سے مار دیتے ہیں اور ذرا بھی نہیں ڈرتے ہیں۔

حکومت کو چاہیے کہ ایسے عناصر پر لگام کسے اور ان کے خلاف غیر جانبدارانہ سخت کارروائی کرے اور اپنی شبیہ کو لوگوں کی نظر میں بہتر بناۓ تاکہ ملک کے باشندوں کا قانون پر بھروسہ باقی رہے اور ملک کے حالات بہتر ہو سکیں۔ 

اگر حکام نے غیر جانبداری کے ساتھ کارروائی نہیں کی اور ظالموں اور شرپسندوں کے خلاف سخت کارروائی نہیں کی تو پھر ایسے حادثات کی ذمہ داری ان کے سر بھی آۓگی اور نتیجہ یہ ہوگا کہ ملک سے امن امان اٹھ جائے گا اور فسادات کی روک تھام نا ممکن ہو جائے گی اور تب ملک جن نقصانات سے دوچار ہوگا ان کی تلافی نا ممکن ہو جائے گی۔

 

 نہ جانے کب ختم ہو گا یہ موت کاماتم  نہ جانے کب بہار آئے گی ہندوستاں میں

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا