English   /   Kannada   /   Nawayathi

شاہین باغ کا دھرنا: سپریم کورٹ کا مشاہدہ اور مشورہ 

share with us


احتجاج کا حق ہے مگر راستہ بلاک کرنا نامناسب ہے

     عبدالعزیز 


    شاہین باغ میں گزشتہ 63 دنوں سے کالے قانون (CAA, NPR, NRC)کے خلاف دھرنا اور احتجاج جاری ہے۔ یہ دھرنا یا احتجاج کا شہرہ قومی اور عالمی پیمانے پر ہوچکا ہے۔ شاہین باغ کے نقش قدم پر صرف دہلی میں 63 جگہوں پر خواتین دھرنے پر بیٹھی ہوئی ہیں اور ہندستان بھر میں تین سو سے زائد جگہوں پر دھرنا اور احتجاج جاری ہے۔ بنگلور، لکھنؤ اور اعظم گڑھ- ان تین مقامات پر پولس کے مظالم بڑے پیمانے پر ہوئے ہیں، جن کی تفصیل اخباروں میں آ چکی ہے اور ٹی وی چینلوں پر بھی دکھایا گیا ہے۔ شاہین باغ کے دھرنے کو ختم کرنے کیلئے بی جے پی اور مرکزی حکومت نے طرح طرح سے  کوششیں اور سازشیں کی ہیں۔ دو بار دو نوجوانوں نے پستول سے فائرنگ کرکے مظاہرے میں شامل خواتین کو ڈرانے کی کوشش کی ہے۔ایک خاتون کو برقعہ پہناکر جاسوسی کیلئے بھیجا گیا۔ دو نوجوان جاسوسی کرتے ہوئے پکڑے گئے۔ دہلی پولس نے ہر طرح کے ہتھکنڈے اپنائے۔ دہلی اسمبلی کے الیکشن کے موقع پر بی جے پی نے شاہین باغ کے دھرنے کو خوفناک اور بھیانک موضوع بنانے کی ہرممکن کوشش کی۔ اسے پاکستان سے تعبیر کیا۔ الیکشن میں مقابلے کو ہندستان اور پاکستان کا مقابلہ قرار دیا۔ یہاں تک کہا گیا کہ شاہین باغ سے پاکستانی داخل ہورہے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ الیکشن ختم ہوتے ہی ہندو گھروں میں گھس کر ہندو کی بہن بیٹیوں کو لاکر بلتکار کریں گے، اس وقت مودی اور امیت شاہ بچانے نہیں آئیں گے، لہٰذا ووٹ اس طرح دیا کہ بی جے پی یعنی ہندستان کی جیت ہوجائے اور عام آدمی پارٹی یعنی پاکستان کی ہار ہوجائے۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے ووٹروں سے اپیل کی کہ اے وی ایم کا بٹن اتنے غصے اور زور سے دبائیں کہ بٹن یہاں دبے اور کرنٹ شاہیں باغ والیوں کو لگے۔ ان سب کے باوجود شاہین باغ کا احتجاج اور دھرنا جاری رہا۔ الیکشن کے بعد اگر بی جے پی کامیاب ہوئی ہوتی تو ممکن ہے اب تک دھرنا ختم ہوگیا ہوتا، لیکن بی جے پی کی ہار نے اس کا حوصلہ پست کردیا۔
     امیت شاہ نے نیوز چینل’ٹائمس ناؤ‘ کے اینکر کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ ”ان سے کوئی بھی شہریت ترمیمی قانون کے سلسلے میں ملاقات کرسکتا ہے۔ وہ تین دنوں کے اندر ملاقات کا وقت دے دیں گے“۔ امیت شاہ کی اس آواز پر لبیک کہتے ہوئے شاہین باغ کی خواتین نے ملاقات کی کوشش کی لیکن ابھی تک وزارت داخلہ کے دفتر سے ملاقات کا وقت متعین نہیں کیا گیا۔ شاہین باغ میں بیٹھی خواتین کے علاوہ کئی افراد اور کئی تنظیموں نے بھی ’سی اے اے‘کے موضوع پر ملاقات کیلئے وقت مقرر کرنے کی درخواست کی، مگر ابھی تک کسی کیلئے ملاقات کا وقت متعین نہیں کیا گیا۔ مسٹر کنن گوپی ناتھن نے جو کشمیر کے مسئلے پر مجسٹریٹ کے عہدے سے مستعفی ہوئے تھے، گزشتہ جمعہ کو (14فروری) امیت شاہ کو اپوائنمنٹ کیلئے ایک خط میل کیا۔ گزشتہ روز ’دی ٹیلیگراف‘ کے نامہ نگار کو بتایا کہ تین دن سے زیادہ ہوگیا لیکن امیت شاہ کا جواب موصول نہیں ہوا۔
     آج (18فروری) دی ٹیلی گراف کی ایک خبر کی سرخی ہے: "Amitji, 3 days over and Kannan still waiting" (امیت جی، تین دن سے زیادہ ہوگیا کنن آپ کے جواب کا انتظار کر رہا ہے)۔ "National Action Against Citizenship Amendment" (نیشنل ایکشن اگینسٹ سٹیزن شپ امینڈمینٹ) نامی تنظیم نے جس کے سربراہ گنیش دیو اور یوگیندر یادو ہیں 17 فروری کو وزیر داخلہ امیت شاہ کو خط لکھ کر وقت مانگا ہے تاکہ شہریت ترمیمی ایکٹ پر موصوف سے ان کی تنظیم کی طرف سے ہندستان کے شہریوں کا ایک وفد مذاکرہ اور تبادلہ خیال کرسکے۔ اس تنظیم میں قانون داں، سماجی کارکن شامل ہیں۔ یہ 100 تنظیموں کا وفاق ہے۔ اس خط میں کہا گیا ہے کہ ’سی اے اے‘ سے متعلق یہ وفد ڈسکشن کرے گا اور 24 فروری کے بعد جو ہفتہ شروع ہوگا اس کے اندر اگر وقت دیا جائے گا تو اس کو ترجیح دی جائے گی۔ غالباً اس تنظیم نے 22 فروری کو جو کالے قانون پر سپریم کورٹ میں سماعت ہے اس کے پیش نظر 24 فروری کے بعد کا وقت مانگا ہے۔ 
    گزشتہ روز شاہین باغ کے دھرنے یا احتجاج کو ختم کرنے کیلئے سپریم کورٹ میں جو مقدمہ دائر کیا گیا تھا اس کی شنوائی تھی۔ درخواست گزار بی جے پی رہنما نند کشور گرگ اور امیت شاہنی ہیں۔ دھرنا ہٹانے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے جسٹس سنجے کشن کول اور جسٹس کے ایم جوزف پر مشتمل ڈویژنل بنچ نے کہاکہ ہندستان میں ہر ایک فرد ہر ایک جماعت کو احتجاج کرنے یا دھرنا دینے کا حق ہے، لیکن غیر معینہ مدت کیلئے کسی راستے کو بلاک کرنا کسی طرح بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ اس سے لوگوں کی آمد و رفت میں دشواری پیدا ہوتی ہے۔ ججوں نے مظاہرین سے بات چیت کرنے کیلئے سپریم کورٹ کے دو سینئر ایڈوکیٹ سنجے ہیگڑے اور سادھنا رام چندرن کو بطور ثالث مقرر کیا ہے۔ وجاہت حبیب اللہ سابق انفارمیشن کمشنر جو چندر شیکھر آزاد کی طرف سے احتجاج کرنے والوں کی مدافعت کر رہے تھے انھیں بھی مظاہرین کی مدد کیلئے مذاکرے میں رہنے کا سپریم کورٹ نے مشورہ دیا ہے۔ 
    ابھی تک مظاہرین کی طرف سے کوئی واضح بات پیش نہیں کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ کا جو اشارہ ہے یا ہدایت ہے اس پر مظاہرین عمل آوری کیلئے تیار ہیں یا نہیں؟ سپریم کورٹ میں احتجاج کو بنیادی حق ضرور بتایا ہے لیکن راستے کو جام کرنا یا بلاک کرنا مقصد برآری کیلئے نامناسب بتایا ہے اور مشورہ دیا ہے کہ دھرنا یا احتجاج ایسی جگہ یا ایسے مقام پر ہو جہاں لوگوں کو آنے جانے میں رکاوٹ پیدا نہ ہو۔ سپریم کورٹ کے مشاہدے اور مشورے سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ دونوں ثالث شاہین باغ سے ہٹ کر کسی دوسری مناسب جگہ پر دھرنے کا جاری رکھنے کا مشورہ دیں گے اور یہ سمجھانے کی بھرپور کوشش کریں گے کہ اگر اسی مقام پر دھرنا جاری رہتا ہے تو سپریم کورٹ دہلی پولس کو احتجاجیوں کو قانوناً ہٹانے کا ہدایت یا حکم صادر کر دے گی۔ مظاہرین کو یہ سمجھنا چاہئے کہ اگر سپریم کورٹ کا فیصلہ 24 فروری کو ہوگیا اور مظاہرین اپنی ضد پر اڑے رہے تو کالے قانون کے خلاف جو ملک بھر میں تحریک جاری ہے اس پر بہت ہی برا اثر پڑ سکتا ہے۔ سپریم کورٹ کے حوالے سے ہر ریاست کے ہائی کورٹ میں دھرنے کو ریاست میں ختم کرنے کی درخواستیں دی جاسکتی ہیں۔ جہاں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے پولس کے مظالم بڑھ بھی سکتے ہیں۔ مناسب بات یہ ہوگی کہ قریب کی کوئی جگہ میں دھرنے کو جاری رکھا جائے اور 24 فروری سے پہلے یہ جگہ آہستہ آہستہ خالی کردی جائے۔ یہاں صرف اتنے لوگ موجود رہیں علامتی طور پر جس سے راستہ بلاک نہ ہو۔ شاہین باغ کا دھرنا علامتی طور پر ہوگا تو ممکن ہے سپریم کورٹ ہٹانے کا فیصلہ نہ کرے۔ دوسری جگہ کا نام جہاں زیادہ سے زیادہ لوگ دھرنے پر بیٹھ سکیں ’دوسرا شاہین باغ‘ رکھ دیا جائے۔ اس طرح شاہین باغ کو جو احتجاج کی علامت بن چکا ہے وہ باقی رہ جائے گا۔میرے خیال سے مظاہرین کو پیش کردہ تجاویز کی روشنی میں غورو خوض کرنا چاہئے۔ امید ہے کہ تحریک کو ہر مشکل سے اور ہر نقصان سے بچانے کی مظاہرین کوشش کریں گے۔ دستور بچانے کیلئے ہی یہ مظاہرے ہورہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے دستور بچانے کا فیصلہ کرے گی۔ سپریم کورٹ سے تصادم عقلمندی اور دانش مندی یا دوراندیشی نہیں ہوگی۔ 

 

19فروری2020
مضمون نگارکی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا