English   /   Kannada   /   Nawayathi

امید کی کرن اور ہماری ذمہ داریاں (ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں)

share with us

فیصل احمد ندوی بھٹکلی (استاذ دار العلوم ندوۃ العلماءلکھنؤ)

      اس وقت ہمارا ملک جن ناگفتہ بہ حالات سے گزر رہا ہے اور حکومت کے خلاف  جس طرح سراپا احتجاج بنا ہوا ہے،آزادی کے بعد سے ملک کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا ،کیا جوان کیا بوڑھے،کیا مرد کیا عورت کیا  بچے کیا بچیاں،سب بیک آواز سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔کہیں احتجاجی ریلیاں ہے، توکہیں ہنگامہ خیز جلسے، کہیں خاموش جلوس تو کہیں پرشورہجوم، کہیں ہزاروں میں  اکٹھا تو کہیں لاکھوں کی تعداد میں جمع ہوکر لوگ ایوان میں لرزہ  ڈال رہے ہیں،کہیں آزادی کے فلک شگاف نعرے ہیں،کہیں ,CAA NRC اور NPR کے خلاف زبردست آواز سنائی دے رہی ہے تو کہیں بہرصورت ان کی مخالفت کے لیے حلف اٹھائے جارہے ہیں۔ اس میں نہ مذہب اور دھرم کی کوئی قید ،  نہ قائد کی کوئی ضرورت ۔ایک  بھیڑ ہے  جو بلا تفریقِ مذہب و ملت اور بلاہدایاتِ قائد ورہبر  گھروں سے نکل نکل کر امڈی آرہی ہے ۔نہ پولس اسکی ہم راز  اور نہ قومی  میڈیا اس کی آواز۔لیکن سب کو اندازہ ہو گیا ہے کہ نہ یہ آواز تھمنے والی ہے نہ بھیڑ چھٹنے والی ہے ۔آئے دن اس میں تیزی اور اضافہ ہی ہورہا ہے۔اس لئے کہ یہ احتجاج نہ وقتی جوش کا نتیجہ ہے نہ شہرت یا کسی  معمولی مقصد کے لئے ہے ،بلکہ یہ ظلم کے خلاف اٹھنے والی ایک فطری آواز ہے ، موت و زیست کا مسئلہ ہے،یہ احتجاج برائے انقلاب نہیں  بلکہ برائے حیات ہے، اسی لئے باوجود اس کہ سرکاری طور پر بڑے پیمانے پر تشدد کیا گیا ،لاٹھی ڈنڈے برسائے گئے ،سر پھوٹے ،ہڈیاں ٹوٹیں ،گولیاں برسائی گئیں ،قیمتی جانیں تلف ہوئیں ،جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا ،جائیدادوںکو تباہ کیا گیا لیکن استقلال  میں جنبش نہیں ہوئی۔

اب تک اس کے جو نتائج نکلے ہیں وہ بہت پرامید بڑے ہمت افزا ہیں :۔

1- حکومت کے بنیادی ڈھانچے کی جو ذلت ہوئی ہے اس کا وہ تصور نہیں کر سکتے تھے صدرجمہوریہ کے ہاتھوں پی ایچ ڈی کی ڈگری لینے سے ایک لڑکی نے انکار کیا اس لئے کہ انہوں نے ظالمانہ بل پر دستخط کیے ہیں۔بھارتی صدر کی ایسی جگ ہنسائی تاریخ میں نہیں ہوئی ۔ کلکتہ کی وسیع سڑکیں وزیراعظم کے لیے تنگ گلیوں سے زیادہ تنگ ثابت ہوئیں اور انہیں خشکی کا راستہ چھوڑ کر تری  کا راستہ اختیار کرنا پڑا ۔امت شاہ جیسے مغرور اور طاقتور سمجھے جانے والے وزیر داخلہ کو خود بی جے پی کی حکومت والی ریاست کرناٹک کے مشہور شہر مینگلور میں داخل ہونے سے روک دیا گیا اور انہیں ذلیل ہو واپس لوٹنا  پڑا۔

2- سمجھا جو جا رہا تھا کہ صرف چند مسلمان احتجاج کریں گے چیخیں گے چلائیں گے اور معاملہ ٹائیں ٹائیں فش ہو جائے گا جیسے طلاق ثلاثہ کے معاملے میں ہوا،یا یہ بھی نہیں ہوگا اور CAB کے CAA میں بدلنے کے بعد حکومت غالبا یہی سمجھتی تھی لیکن اس کے اندازے غلط نکلے ،اسکے تدبیریں اسی پر الٹ گئیں، عوام نے  بیداری اور سمجھداری کا بھرپور ثبوت دیا،نہ صرف یہ کہ مسلم عوام بلکہ ان سے بڑھ کر غیر مسلموں کے مختلف فرقوں اور طبقات نے ان کے خواص اور عوام نے بھرپور طاقت کا مظاہرہ کیا اور مسلمانوں کی ترغیب اور کوششوں کا اس میں کوئی دخل نہیں۔

3- احتجاج کرنے والے انتہائی پرعزم ہیں۔ موسم کی سختیوں اور حکومت کی زیادتیوں کے باوجود ان کے پایئہ ثبات  میں لغزش نہیں آئی۔ بلکہ دن بدن جوش جنوں میں اضافہ ہورہا ہے اور جذبہء اندرون بڑھتا ہی جا رہا ہے۔شاہین باغ کی طرح اب جگہ جگہ خواتین اپنے بچوں کے ساتھ سڑکوں پر رات گزار رہی ہیں ۔ایک لیڈی نے یہاں تک اپنے عزم کا اظہار کیا ہم اس پربس نہیں  کریں گے کہ حکومت یہ بل اور قانون واپس لے بلکہ ہم مودی حکومت کو گرا کر دم لیں گے ۔ایک ہندو لیڈر نے کہا :ہم اس بل اور قانون کوواپس لینے پر اپنا آندولن ختم نہیں کریں گے بلکہ حکومت کی ہر سازش کو بے نقاب کریں گے اور ای وی  ایم کے خلاف بھی تحریک چلائیں گے۔

4- اس تحریک اور احتجاج کا بنیادی مرکز یونی ورسٹیاں  اور بالخصوص جامعہ ملیہ اسلامیہ  کا اسٹیج ہے ۔اس کا  سارا کریڈٹ جامعہ ملیہ کے ہمارے بہادر طلبہ وطالبات کو جاتا ہے۔ ان کا خون گرم اور ان کا دماغ میں تیز اور ترو تازہ  ہے ۔حکومت کی سازشوں اور قانون کی باریکیوں اور اس کے دور رس اثرات و نتائج کو محسوس کرکے وہ میدان میں کود پڑے ہیں اور اب  اس میں ڈٹے  ہوئے ہیں اور اور آر ایس ایس کی منظورنظر جامعہ ملیہ   کی وائس چانسلر کو ان کے مطالبات کے آگے جھکنا پڑا ۔ پورا  تعلیمی سال  برباد ہو جانے کا خطرہ دکھانے والی دھمکی آمیز کوشش کا انہوں نے دوٹوک جواب دیتے ہوئے صاف کہا کہ مسئلہ ایک تعلیمی سال کا نہیں بلکہ سوال ہماری نسلوں کا ہے۔

5- ایک بڑی خوش آیندبات یہ ہے کہ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں نے اس کا نوٹس لیا ہے اور عالمی میڈیا نے ان خبروں کو کوریج کیا ہے اور ان کو اہمیت دی ہے۔

6- حکمراں جماعت اور ان کے حواری بوکھلاہٹ کا شکارہیں ۔ وہ حواس باختہ ہیں ان کے ہوش ٹھکانے پر نہیں ہیں۔ ہڑبڑاہٹ میں کبھی کوئی سازش رچی جارہی ہے ،کبھی کوئی نئی کوشش کی جارہی ہے، مگر ہر سازش طشت ازبام اور ہر کوشش ناکام ہو رہی ہے ،مس کال(Missed Call) کی مہم چلائی گئی مگر بری طرح فیل ہوگئی، آدھا ھدف بھی حاصل نہیں ہوسکا ،کرتا ٹوپی پہن کر چلتی ٹرین پر پتھراؤ کر کے مسلمانوں کو بد نام کرنے کی کوشش کی گئی، مگر مجرم پہچانے گئے۔ برقع اڑھا کر اپنی عورتوں کو مسلم محلوں میں سیدھی سادی عورتوں کو گمراہ کرنے کے لئے اورNRCکی تائید میں دستخط لینے کےلئے  سازش رچی گئی لیکن پردہ فاش ہو گیا، اور کیا کیا کھیل نہیں کھیلا گیا لیکن اللہ کا شکر ہے کی عوام اب بیدار ہوچکے ہیں، اس لئے ہر قدم پرحکومت کو منہ کی کھانی پڑ رہی ہے،

7-اس سب کا نتیجہ یہ ہے کہ ایوان حکومت تھرا رہا ہے بہت سے لوگ سادہ لوحی یہ سمجھتے ہیں کہ اتنا کچھ ہونے کے باوجود حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی ہے ہم ایسے لوگوں کو یقین  دلانا چاہتے ہیں یہ جو کچھ آپ کو نظر آتا ہے گیڈر بھپکیاں  ہیں ورنہ شروع سے تمام حالات پر جن کی نظر ہے وہ قطعی جانتے ہیں  کہ حکومت کے لب ولہجے میں فرق آچکاہے NPR  کے مجوزہ شرائط میں بھی کچھ تخفیف کردی گئی ہے ۔ صرف اتنا  ہے جس کی وجہ سے صاف پیچھے ہٹتے اور قانون واپس لیتے اسے ہچکچاہٹ ہو رہی ہے، لیکن اب بہت دن یہ انداز نہیں چل سکتا اس کو پیچھے ہٹنا ہی پڑے گا اور عوام کے مطالبے کے آگے پر غرور سر کو جھکانا ہی پڑے گا۔

        لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم مطمئن بیٹھے رہیں۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ان حالات میں ہم کیا کردار ادا کر سکتے ہیں ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں ہم اپنے فرض سے کس طرح سبکدوش  ہو سکتے ہیں ؟مندرجہ ذیل نکات میں ہم اس کی کچھ وضاحت کر سکتے ہیں:۔

1- ملک بھر میں وسیع پیمانے پر جو احتجاجات ہو رہے ہیں۔ ہم اپنے طور پر ان کو طاقت پہنچائیں۔ اس کی آسان صورت یہ ہے کہ اپنے اپنے گاؤں /شہر میں جہاں احتجاج ہو رہے ہیں ان میں شامل ہو جائیں، اور اس احتجاج کو پرامن رکھنے کی پوری کوشش کریں۔

CAA،NPRاور NRC کی حقیقت لوگوں کو اچھی طرح اس حد تک سمجھائیں کہ وہ حکومت کی نیت کو جان سکیں اس کے عزائم اور منصوبوں کو سمجھ سکیں اور حکمران ٹولے کے کسی بھی پروپیگنڈے سے متاثر  نہ ہوں اور ان کے کارندوں کی کسی سازش کے ہتھے نہ  میں چڑھیں اور ان کے دام میں گرفتار نہ ہوں۔ جو لوگ ان قوانین کی تفصیلات سے آگاہ ہیں انہیں کوئی شبہ نہیں کہ یہ شہریوں کے بنیادی حقوق پر حملہ ہے،ملک کے دستور اور آئین پر حملہ ہے اور اس کو سیکولر جمہوری ملک کے بجائے فاشسٹ ملک بنانے کی طرف خطرناک قدم ہے ۔اور نہ صرف یہ مسلمانوں کے لئے پریشانیوں کا باعث ہے بلکہ برہمنوں کے علاوہ ملک کے ہر باسی کے لئے خطرہ کا الارم ہے ۔(اور برہمن اس ملک میں صرف ساڑھے تین فیصد ہیں )

        یہ تفصیل بھی سب کے علم میں جائے کہ آسام کی این آر سی میں سولہ سو کروڑ روپے خرچ ہوئے اور پچاس ہزار کارندے اس میں لگائے گئے اور دو سال میں یہ کام مکمل ہوا اور اگر پورے ملک میں این آر سی کرائی گئی تو 2008 کے حساب کے لحاظ سے کم سے کم ستر ہزار کروڑ روپئے خرچ ہونگے اور اگر 2020 کے لحاظ سے اندازہ لگائیں تو ایک لاکھ بیس ہزار کروڑ سے زیادہ ہی خرچ ہو سکتے ہیں۔

          اور آسام کی این آر سی کا  نتیجہ  یہ نکلا تقریبا تین کروڑ لوگوں کے لئے (اس لئے تمام غیر مسلموں کو شہریت دینے کی بات کہی گئی )جیل یا ڈیٹینشن سنٹر بنانے کےلئے  دس لاکھ کروڑ روپئے ۔اور پھر ان کو پالنا  حکومت کی مجبوری ہوگی بالفاظ دیگر ان کے لئے  کھانا بجلی علاج وغیرہ کا مفت  انتظام کرنا ہوگا تو اس کے لیے ہر سال تقریبا ساڑھے تین لاکھ کروڑ روپیہ خرچ کرنا پڑے گا اور ملک کی دولت اس طرح ضائع کی جائے گی۔

3- خدارا   خدارا ! ان احتجاجات کو مذہبی رنگ دینے سے باز رہیں، کوئی مذہبی نعرہ بلند نہ کریں ،قومی اور ملکی شکل دیں  اور سیکولرزم کی روح کو برقرار رکھیں، غیر مسلموں کے ساتھ شامل ہوں اور ان کو اپنے ساتھ لیں۔ مذہبی رواداری اور بھائی چارگی اور باہمی تعلقات کی خوشگوری  کا بھرپور ثبوت دیں۔

4-ایک اہم کام کرنے کا یہ ہے کہ بی جے پی کے برسراقتدار آنے کے بعد سے ملک نے  ترقی کے پروپیگنڈوں کے بر خلاف جو ترقی معکوس  کی ہے اس کا خوب سے خوب پرچار کریں اور جو چیز تاریخ کا ریکارڈ بن چکی ہے  اس کو زیادہ سے زیادہ عام کریں مثلا:

*کالے دھن کو واپس لانے کے نام پر  جو نوٹ بندی کا ڈھونگ رچایا گیا اس کا کیا حاصل نکلا ایک فیصد ملک میں واپس نہیں آیا اور لاکھوں کروڑوں لوگ باؤلوں  کی طرح لائنوں میں کھڑے تھکن سے چور ہوئے، بیمار ہوئے اور کم سے کم ایک سو ستر لوگ زندگی سے محروم ہوگئے ان معصوم جانوں کا حساب حکومت سے مانگا جائے۔

* سینکڑوں کسان قرض کے بوجھ تلے  دب کر حکومت کا تعاون نہ ملنے کی وجہ سے اپنی جان دینے پر مجبور ہوئے صرف ایک ہی جگہ 300 کسانوں نے خودکشی کی۔

* گذشتہ سال کے عالمی اعداد و شمار کے مطابق صحیح علاج نہ ملنے کی وجہ سے صرف ہندوستان میں آٹھ لاکھ 80 ہزار بچے زندگی کی جنگ ہار کر موت کا شکار ہوئے پوری دنیا کے لحاظ سے ہماری ملک کی یہ سب سے خراب صورتحال ہے اس کا ذمہ دار کون ہے؟

* پڑھے لکھے اور ڈگری یافتہ لوگوں کو بھی ملازمتیں نہیں مل رہی ہیں بے روزگاری 45 برسوں میں سب سے نیچلی  سطح پر ہے۔

* بینک کنگال ہو رہے ہیں خزانہ خالی ہو رہا ہے،بینکوں پر ناقابل برداشت بوجھ ہے ، سب اس کے لئے پریشان ہیں ،خطرہ ہے کہ بینک بند نہ ہوجائیں  اور پھر عوام کی جمع شدہ پونجی کبھی واپس نہ ملے ۔

* مہنگائی آسمان چھورہی ہے ،غربت و افلاس میں ہمارا ملک بہت سے غریب ملکوں سے بھی نیچے آگیا ہے لیکن اس کے باوجود امبانی کی دولت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے جس کی تفصیل انٹرنیٹ سے معلوم ہوسکتی ہے۔اس کی تحقیقات کا مطالبہ کیا جائے ۔

*حکومت کا کام امن و امان کو قائم کرنا ہے لیکن بی جے پی کے برسراقتدار آنے کے بعد سے یہ ملک نفرتوں کی آماجگاہ بن چکا ہے ہر طرف خوف و ہراس کا عالم ہے۔

       یہ اور اس طرح کی بہت سے باتیں ہیں جن میں حکومت کی ناکامی روز روشن کی طرح عیاں ہے اس کی تفصیل کے لئے ایک مستقل مضمون بھی ناکافی ہے بلکہ اس کو اب کوئی اسکالر پی ایچ ڈی کا موضوع بنا سکتا ہے ۔

5- لیکن اس سب کے باوجود ہمیں اپنے طور پر تیار اور سیف(Safe) رہنا چاہیے اس لیے پہلی فرصت میں ہم اپنے تمام کاغذات درست کریں۔ یہ الگ بات ہوئی کہ اگر ذمہ دار اس پر متفق ہونے ہوتے ہیں کہ ہم کوئی  کاغذ جمع نہیں کریں گے تو ایسا کیجیے لیکن یہ حد  درجہ بیوقوفی جہالت اور نادانی   کی بات ہے کہ اس کو پیش نظر رکھ کر  کر ہم اپنے کاغذات بھی درست نہ کریں ۔

6- غیر مسلموں کے ہر طبقے میں  حکمت کے ساتھ دعوتی کام کی رفتار برھائیں ۔حکمراں طبقے اور شدت پسندوں تک اسلام کی پر امن تعلیمات پہنچائیں ۔سیرت نبوی کے انسانی پہلوؤں اور رحمت کے گوشوں کو خاص طور پر اجاگر کریں ۔ ہندوؤں کی مذہبی کتابوں میں رسول اللہ ﷺ کے بارے میں جو پیشین گوئیاں موجود ہیں ،ان کو عام کریں کہ ہر ہندوستانی تک یہ بات پہنچ جائے ۔

7-اور سب سے پہلے اور سب کے بعد ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہم مسلمان ،اللہ کے تابع  و فرمان ہیں  ہمیں اپنے ایمان اورعمل کی فکر کرنی چاہئے، اپنے معاملات درست کرنے چاہئے حقوق العباد کی ادائیگی پر توجہ کرنی چاہئے سود، رشوت، بہتان اور اس جیسے معاشرتی گناہوں سے کلی طور پر  باز آجانا چاہئے اکلِ حلال کی فکر کرنی چاہئے ،خلاصہ یہ کہ ایک پر امن شہری اور سچے مسلمان کا نمونہ پیش کرنا چاہئے ،اور پھر اللہ کی صفت عزیز و قہار  کے واسطے سے اور اس کی صفت فتاح کا حوالہ دے کر خصوصی دعاوؤں کا اہتمام کرنا چاہیے۔

       اگر ہم نے اپنے اعمال درست کیے  اللہ سے تعلق مضبوط کیا اور بیدارمغزی کا ثبوت دیا تو میدان ہمارے ہاتھ میں ہے اور کامیابی ہمارا مقدر ہے  ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔ اللہ نہ کرے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا