English   /   Kannada   /   Nawayathi

تقریباً60 کروڑ آدھار نمبر کو این پی آر ڈیٹابیس کے ساتھ جوڑا جا چکا ہے : دی  وائرکا خلاصہ

share with us

دی  وائر کی خصوصی رپورٹ: دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ مرکزی حکومت نے این پی آر میں لازمی طورپر آدھار اکٹھا کرنے کے لیے آدھار قانون یاشہریت قانون میں بھی ترمیم کی تجویز دی  تھی۔

نئی دہلی:18/ جنوری 2020(فکروخبر /ذرائع) این پی آر کو اپ ڈیٹ کرنے کے دوران آدھار نمبر اکٹھا کرنے کے تنازعات کے بیچ وزارت داخلہ نے یقین دہانی کرائی  ہے کہ جن لوگوں کے پاس آدھار نمبر نہیں ہے، انہیں ایسے دستاویز دینے کے لیے مجبور نہیں کیا جائےگا۔حالانکہ سرکاری  دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ مرکز این پی آر میں اختیاری یا رضاکارانہ  نہیں، بلکہ لازمی طورپر آدھار اکٹھا کرنا چاہتا تھا۔ حکومت اس قدر بےقرار تھی کہ اس نے لازمی طورپر آدھار اکٹھا کرنے کے لیے آدھار قانون یاشہریت قانون میں بھی ترمیم کرنے کی تجویز رکھی تھی۔ دی وائر کے ذریعےحاصل  کئے گئے سرکاری ریکارڈ سے یہ انکشاف ہوا ہے۔

19 جولائی 2019 کی ایک فائل نوٹنگ کے مطابق، آدھار پر سپریم کورٹ کے فیصلے اور آدھار اوردوسرےقانون (ترمیم) ایکٹ، 2019 کو دھیان میں رکھتے ہوئے وزارت داخلہ کے تحت ہندوستان کے رجسٹرار جنرل دفتر(اوآرجی آئی)نے منسٹری آف الکٹرانکس اور انفارمیشن ٹکنالوجی(ایم آئی آئی ٹی وائی) کو خط لکھ کر این پی آر میں آدھار نمبر لینے کی اجازت مانگی تھی۔اس کو لے کر ایم آئی آئی ٹی وائی کے سکریٹری اور آدھار جاری کرنے والی ایجنسی یوآئی ڈی اےآئی کے سی ای او کو 19 جولائی 2019 کو خط لکھا گیا تھا۔ بعد میں چھ اگست 2019 کو اس کو لےکر منسٹری آف الکٹرانکس اینڈانفارمیشن ٹکنالوجی کے جوائنٹ سکریٹری ایس گوپالاکرشنن کی صدارت میں میٹنگ ہوئی تھی۔

دی وائر نے اس میٹنگ کے منٹس کی کاپی حاصل کی ہے۔ منٹس کے مطابق، اس میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ہندوستان کے رجسٹرار جنرل  دفتر اس طریقے سے این پی آر میں آدھار نمبر لے سکتا ہے، جو آدھار (اطلاعات کو شیئر کرنا)ریگولیشن، 2016 کے ‘کلاز5’ کے اسٹینڈرڈ کے موافق ہو۔‘

وہ فائل نوٹنگ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شروع میں آئی ٹی منسٹری نے شرطوں کے ساتھ آدھار نمبر اکٹھا کرنے کی اجازت دی تھی۔

وہ فائل نوٹنگ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شروع میں آئی ٹی منسٹری نے شرطوں کے ساتھ آدھار نمبر اکٹھا کرنے کی اجازت دی تھی۔

کلاز5’ کے مطابق، اگر کوئی ایجنسی آدھار نمبر اکٹھا کرتی ہے تو اسے آدھار ہولڈر کو یہ جانکاری اکٹھا کرنے کی  وجہ اور آدھار نمبر دینا لازمی ہے یا نہیں، یہ بتانا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اس خصوصی کام  کے لیے فرد کا آدھار نمبر استعمال کرنے کے لیے اس کی رضامندی لینی ہوتی ہے۔اس کے علاوہ آدھار اکٹھا کرنے والی ایجنسی اس آدھار نمبر کو صرف اسی کام کے لیے استعمال کر سکتی ہے جس کے لیے آدھار ہولڈرسے رضامندی لی گئی ہے۔ ان شرطوں کی بنیادپر این پی آر کے لیے آدھار نمبر لینے کی اجازت دی گئی تھی۔

اس کے جواب میں 23 اگست 2019 کو نوٹنگ پر ایڈیشنل رجسٹرار جنرل سنجے نے لکھا کہ ہم رضاکارانہ یعنی کہ اختیاری  طریقے سے آدھار نمبر کو اکٹھا کر رہے ہیں اور 2015 کے دوران پہلے سے اکٹھا کئے گئے آدھار نمبر کی یوآئی ڈی اےآئی سے تصدیق کی جائے۔

 

حالانکہ کچھ دن بعد رجسٹرار جنرل دفتر نے اچانک اپنا اسٹینڈ بدل لیا۔ تقریباً دو مہینے بعد رجسٹرار جنرل دفتر کو یہ احساس ہوا کہ آدھار اکٹھا کرنے کے لیے منسٹری آف الکٹرانکس اور انفارمیشن ٹکنالوجی کے ذریعے طے کی گئی شرط یعنی کہ ‘کلاز5’ ان کے لیے نافذ نہیں ہوتی ہے، کیونکہ وہ ایک سرکاری ادارہ ہے۔آئی ٹی منسٹری کی شرطوں کا ذکر کرتے ہوئے رجسٹرار جنرل دفتر نے لکھا، ‘اس سے (کلاز5) ایسا معلوم  ہوتا ہے کہ رجسٹرار جنرل دفتر صرف رضاکارانہ طورپراین پی آر میں آدھار نمبر اکٹھا کر سکتا ہے۔ حالانکہ یہ صلاح رجسٹرار جنرل دفتر پر نافذ ہوتی نہیں دکھائی دیتی ہے، کیونکہ یہ ایک سرکاری ادارہ  ہے۔’

یہاں سے حکومت نے یہ طے کیا کہ وہ این پی آر اپ ڈیٹ کرتے ہوئے لازمی طورپر آدھار اکٹھا کر سکتے ہیں۔ حاصل کئے گئے دستاویز اس کی تصدیق کرتے ہیں۔

رجسٹرار جنرل دفتر نے تجویز رکھی کہ اگر موجودہ ضابطوں کے تحت ایسا نہیں ہوپاتا ہے کہ اس کے لیے آدھار ایکٹ اور شہریت قانون میں ترمیم کی جائے۔

رجسٹرار جنرل دفتر نے تجویز رکھی کہ اگر موجودہ ضابطوں کے تحت ایسا نہیں ہوپاتا ہے کہ اس کے لیے آدھار ایکٹ اور شہریت قانون میں ترمیم کی جائے۔

12 اکتوبر 2019 کو ہندوستان  کے رجسٹرار جنرل وویک جوشی کے دستخط شدہ  فائل نوٹنگ میں لکھا گیا ہے، ‘شہریت قانون، 1955 کی دفعہ 14اے(5) کے اہتمام کے مطابق ہندوستان کے شہریوں  کے لازمی رجسٹریشن میں اپنائی جانے والی کارروائی  ایسی ہوگی جس کو پہلے سے  طے کیا جا سکتا ہے۔ اس لیےشہریت ضابطوں، 2003 کے ضابطہ3(4) کے تحت آبادی جسٹر بنانے کے  دوران ہم آدھار نمبر کو لازمی بنا سکتے ہیں۔’

دفتر نے یہ بھی تجویز رکھی کہ اگر موجودہ ضابطہ کے تحت ایسا نہیں ہو پاتا ہے تو اس کے لیے آدھار ایکٹ اورشہریت قانون میں ترمیم کی جائے۔دستاویز کے مطابق، ‘این پی آر اپ ڈیٹ کرنے اور رجسٹرار جنرل دفتر کے پیدائش اور موت کے رجسٹریشن  کے لیے شہری رجسٹریشن نظام (سی آر ایس)منصوبہ کے لیے بھی آدھار نمبر کو لازمی طورپراکٹھا کرنے کے لیے آدھار ایکٹ یاشہریت ایکٹ میں ترمیم کی جا سکتی ہے۔’

اس بارے میں فیصلہ لینے کے لیے مرکزی داخلہ  سکریٹری  کی صدارت میں 18 اکتوبر 2019 کو ایک اعلیٰ سطحی بیٹھک کی گئی تھی، لیکن ابھی یہ پتہ نہیں چل پایا ہے کہ اس میں کیا فیصلہ لیا گیا۔ حالانکہ کچھ میڈیا رپورٹس میں ذرائع کے حوالے سے یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ این پی آر، 2020 میں آدھاررضاکارانہ طور سے لیا جائےگا۔اس میٹنگ میں یوآئی ڈی اے آئی کے سی ای او، منسٹری آف الکٹرانکس اینڈ انفارمیشن ٹکنالوجی کے سکریٹری، وزارت قانون کے محکمہ قانون کے سکریٹری  اور رجسٹرار جنرل دفتر کے نمائندے شامل تھے۔

اس سے پہلے دی وائر نے اپنی پچھلی رپورٹ میں بتایا تھا کہ این پی آر، 2020 کی کارروائی شروع کرنے سے پہلے ہی تقریباً60 کروڑ آدھار نمبر کو این پی آر ڈیٹابیس کے ساتھ جوڑا جا چکا ہے۔ یہ تعداد کل جاری کئے گئے آدھار نمبر کا لگ بھگ 50 فیصدی ہے۔این پی آر کی شروعات 2010 میں اس وقت کےوزیر اعظم  منموہن سنگھ کی قیادت والی یو پی اے حکومت کے ذریعے کی گئی تھی۔ اس کے پائلٹ پروجیکٹ کی تیاری دو سال پہلے شروع ہوئی تھی جب شیوراج پاٹل (22 مئی 2004 سے 30 نومبر 2008)اور پی چدمبرم (30 نومبر، 2008 سے 31 جولائی، 2012)وزیر داخلہ تھے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا