English   /   Kannada   /   Nawayathi

ہماری بےوزنی کےاسباب۔۔۔۔

share with us

عبدالرشید طلحہ نعمانیؔ

 

مسلمان ان دنوں عالمی وملکی پیمانے پر زبردست بحران کا شکار  اور پستی و ادبار سے دو چار ہیں ۔تاریخ کی سب سے سرخرو قوم اور اپنے پاس مستقل لائحۂ عمل رکھنے والی سربلند  ملت اپنی ہی بعض نادانیوں اور عاقبت نااندیشیوں کے سبب  اغیار کے رحم وکرم پر جی رہی ہے۔ اسلام کے قلب و جگر پر جس تیزی اور منصوبہ بندی سے حملے ہورہے ہیں اور مسلمانوں کے مستقبل پر جو کاری ضربیں لگائی جارہی ہیں،تاریخ شاید اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہو۔وطن عزیز کی تازہ ترین صورت حال بہ طور خاص برسراقتدارجماعت کے ظلم وجور ،مسلمانوں کے تئیں اس کی طوطا چشمی وبے مروتی اور احتجاج کے ذریعہ اپنے جائز حقوق کا مطالبہ کرنے والوں کے خلاف منصوبہ بند قتل و گری وغیرہ سے ہر صاحب ادراک نہ صرف واقف ہے؛بل کہ آزردہ اور کبیدہ خاطر بھی ہے۔

قوموں کا عروج وزوال اگر چہ قانون فطرت کے مطابق ہوتاہے؛تاہم ایسا نہیں ہوتا کہ اس میں اسباب و عوامل کومطلق دخل نہ ہو؛بل کہ کسی بھی قوم کی ترقی و تنزلی میں مختلف اسباب و علل فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں،حالات کے مد وجزر کو دیکھتے ہوئے انہیں معلوم کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔بالخصوص ایک  مسلمان کے لیےتو بالکل دشوار نہیں کہ وہ فراست ایمانی رکھتا ہے اور اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔مزید برآں اس کے سامنے کتاب و سنت کے کھلےاوراق ہیں جو ہر موقع پر کامل رہبری اور بھرپور رہنمائی کےلیےکافی  ہیں۔اس بات سے کسی بھی ہوش مند کو اختلاف نہیں ہونا چاہیےکہ حالات کا رخ موڑنے اور تازہ انقلاب بپا کرنے کےلیےان  پر  صرف سیاسی نقظۂ سے غور کرلینا اور ممکنہ اسباب اختیار کرلینا کافی نہیں ہے؛بل کہ اہل ایمان ہونے کی حیثیت سے انفرادی واجتماعی سطح پر دینی صورت حال کا جائزہ لینا بھی ازحدضروری ہے  کہ ہمارے اعمال کیسے ہیں ؟ہم میں دین داری کتنی ہے اور شریعت بیزاری کتنی ؟طاعت و معصیت کے جذبات میں کون غالب ہیں؟ وغیرہ ۔اسی طرح نبی اکرم ﷺنے امت کو فتنوں سےخبردار و آگاہ کرنے کےلیے بہت سی پیشین گوئیاں فرمائی ہیں ،جن میں امت کے زوال و انحطاط کے اسباب کا ذکر بھی موجود ہے اور اس کایقینی حل بھی ۔

شامتِ اعمال ما :

ہندوستان کی مغلیہ سلطنت کا چودھواں بادشاہ ،اور نگ زیب عالم گیرؒ کا پرپوتا، روشن اختر المعروف محمد شاہ رنگیلےتھا،جس نے اپنی مدتِ حکومت کا زیادہ تر وقت عیاشی و نفس پرستی میں گزارا۔چوبیسوں گھنٹے نشے میں دھت رہتا، رقص و سرود کی مجلسیں جماتا اور فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے فنکاروں کی صحبت میں دن ورات کا اکثر حصہ بسر کرتا۔ قانون بنانے اور توڑنے کے حوالے سےبھی عجیب وغریب خبط میں مبتلا تھا، اچانک کسی بھی شخص کو ہندوستان کا اعلیٰ ترین عہدہ سونپ دیتا  اور جب چاہتا وزیر اعظم کو کھڑے کھڑے جیل بھجوا دیتا۔ وہ بیٹھے بیٹھے حکم دیتا کہ کل تمام درباری زنانہ کپڑے پہن کر آئیں اور فلاں فلاں وزیر پاؤں میں گھنگرو باندھیں!اس جابرانہ حکم کے بعد وزراء اور درباریوں کے پاس انکار کی گنجائش نہ ہوتی، وہ دربار میں آتا اور اعلان کردیتا کہ جیل میں بند تمام مجرموں کو آزاد کر دیا جائے اور اتنی ہی تعداد کے برابر بے قصور لوگ جیل میں ڈال دیے جائیں،بادشاہ کے حکم پر سپاہی شہروں میں نکلتے اور انہیں راستے میں جوبھی شخص ملتا اسے پکڑ کر جیل میں پھینک دیتے ۔ وہ وزارتیں تقسیم کرنے اور خلعتیں پیش کرنے کا بھی شوقین تھا،ہر روز پانچ نئے لوگوں کو وزیر بناتا اور سو پچاس لوگوں کو شاہی خلعت پیش کرتا ؛مگر اگلے ہی دن یہ وزارتیں اور خلعتیں واپس لے لی جاتیں،وہ قاضی شہر کو شراب سے وضو کرنے پر مجبور کرتا  اور اس کا حکم تھا کہ ہندوستان کی ہر خوبصورت عورت بادشاہ کی امانت ہے اور جس نے اس امانت میں خیانت کی اس کی گردن مار دی جائے گی۔وغیرہ  ۔۔۔۔ایسے متلون مزاج حکمراں کے عہد میں ایران کے ایک سخت گیر فرماں روا نادرشاہ نے ہندوستان کے دارالحکومت دہلی پر زبردست حملہ کیااور  وہ لوٹ مار کی کہ گلیاں خون سے بھر گئیں،ہر کوچے میں انسانی لاشیں بکھرگئیں،کسی کے لیے کوئی امان نہ تھی،ہر گردن پر خونخوار تلوار کھنچی ہوئی تھی،سب حیران و شش در تھے کہ یہ کیا ہوا؟  جب نادرشاہ نے قتل عام بند کیا ،اور رہے سہے لوگوں کے حواس درست ہونے شروع ہوئے، تو کسی نے ایک بزرگ سے دریافت کیا کہ حضرت! یہ سب کیا ہوا؟ انھوں نے ایک جملے میں جواب دیا، وہ جملہ صفحات ِتاریخ میں ہمیشہ کےلیےمحفوظ ہو گیا، انھوں نے کہا:"شامتِ اعمالِ ما صورتِ نادر گرفت"یعنی ہماری بدعملی نے پروردگار عالم کو ناراض کیا ،اور وہی بداعمالیاں نادر کی صورت میں ہم پر قہروعذاب کاکوڑا بن کر برس گئیں ۔موجودہ حالات میں کیا بعید ہے کہ حکومت کے ناروا جبر وتشددکا ایک بنیادی سبب ہمارےہی  اپنے اعمال ہوں ،حقوق و فرائض میں ہماری کوتاہی  ہو،منہیات و محرمات کابے جھجھک ارتکاب ہو ۔حدیث قدسی ہے،اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں اﷲ ہوں ، میرے علاوہ اور کوئی معبود نہیں ۔میں بادشاہوں کا بادشاہ ہوں ، بادشاہوں کے دل میرے ہاتھ میں ہیں ، بندے جب میری اطاعت کرتے ہیں ، تو ان کے بادشاہوں کے قلوب کو رحمت ومہربانی کے جذبے کے ساتھ ان پر متوجہ کرتا ہوں ، اور جب بندے میری نافرمانی کرتے ہیں تو میں ان کے دلوں کو غصہ اور انتقام کے جذبے کے ساتھ ان کے اوپر بدل دیتا ہوں ، تو وہ انھیں سخت عذاب کا مزا چکھاتے ہیں ، تو اے لوگو! اپنے آپ کو بادشاہوں کے برا بھلا کہنے اور ان پربددعا کرنے میں مشغول مت کرو، بلکہ ذکر اور دعا کے اندر اور گریہ وزاری میں خود کو مشغول کرو، تاکہ تمہارے بادشاہوں کے مقابلے میں مَیں تمہاری حمایت وکفایت کروں ۔(مشکوۃ شریف)

حدیث بالا کی تشریح کرتے ہوئے حضرت مولانا اعجاز احمد اعظمی نور اللہ مرقدہ ارقام فرماتے ہیں:رسول اﷲ ﷺکا یہ ارشاد ظلم وجبر کے مقابلے میں ظاہری تدابیر سے جو حد جواز میں ہوں ،منع نہیں کرتا ۔ دنیا میں اسباب کا سلسلہ مقاصد ونتائج کے ساتھ جڑا ہوا ہے ، لیکن یہ اسباب دوہرے ہیں ، انسان کو خارجی اسباب کے مقابلے میں داخلی اسباب پر توجہ زیادہ کرنی چاہئے،ہم حکومت کی غلط پالیسیوں کے خلاف دم خم دکھائیں ، مظاہرہ کریں ، تجویزیں پاس کریں ، اپنی یکجہتی اور اتحاد کا منظر پیش کریں ، سب بجا؛ لیکن اس سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ زیادہ اہتمام اس بات کا کریں کہ جس کمزوری کو پاکر حکومت ہمارے دین وملت پر حملہ آور ہے ، اس کمزوری کو ہم دفع کریں ، شریعت کو اور احکام اسلام کو پہلے ہم اپنی ذات پر ، اپنے خاندان پر ، اپنے معاشرہ پر نافذ کریں،چاہے وہ ہمارے نفس،ہمارے اغراض اور ہمارے ظاہری مفاد کے کتنا ہی خلاف ہو ۔(حدیث درد دل)

حقیقی مرض کی تشخیص:

امام ابو داؤد سجستانيؒ نے اپنی سنن میں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث نقل کی ہے، کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:"قریب ہے کہ دیگر قومیں تم پر ایسے ہی ٹوٹ پڑیں جیسے کھانے والے پیالوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں"، تو ایک کہنے والے نے کہا:کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:"نہیں؛ بلکہ تم اس وقت بہت ہوگے،لیکن تم سیلاب کی جھاگ کے مانند ہوگے، اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کے سینوں سے تمہارا خوف نکال دے گا، اور تمہارے دلوں میں "وہن" ڈال دے گا"، تو ایک کہنے والے نے کہا: اللہ کے رسول ! وہن کیا چیز ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:"یہ دنیا کی محبت اور موت کا ڈرہے"۔

غور کیجیے !آج اسی دنیا کی محبت اور موت سے نفرت نے امت کو کہیں کا نہ چھوڑا، کیا فقیر،کیا امیر،کیا مرد،کیاعورت،کیا عالم، کیا جاہل، کیا خواص اور کیا عوام!ہر ایک فانی دنیا کے پیچھےپڑا ہوا ہے،مال و منال،اسباب و جائیداد اور عزت وبرتری ہی مقصود زندگانی بن چکاہے،اور یہ حقیقت ہے کہ جب انسان پر حیات دنیوی کی درستی و آرائش کا شوق سوار ہوتا ہے تو صنعت و حرفت اور زراعت و تجارت کے ناپائیدار مشغلوں میں ایسا پھنس جاتا ہے کہ مبداء و معاد کی اس کو کچھ خبر نہیں رہتی اور ظاہر و باطن دونوں دنیا ہی کے ہورہتے ہیں، قلب محبتِ دنیا میں مشغول ہوجاتا ہے اور بدن اس کی اصلاح و تدبیر میں مصروف ۔غرض رسول اﷲ ﷺ کی مذکورہ پیشن گوئی،صرف پیشن گوئی نہیں ہے؛ بلکہ مسلمانوں کےلیے پیغام عبرت ہے،درس نصیحت ہے،راہ نجات وہدایت ہے،جس کا حاصل یہ ہے کہ ہر وہ سبب جس سے دنیا کی محبت پیدا ہوتی ہے، اور ہر وہ بات جس کے نتیجے میں موت ناخوشگوار معلوم ہوتی ہے، اسے اپنی زندگی سے خارج کریں ، اگر ایسا کر لیاگیا ،تو دشمنوں کو حوصلہ نہ ہوگا کہ وہ آپس میں مسلمانوں کے خلاف اس طرح دعوت دیں ، جیسے وہ کوئی تر نوالہ ہوں ؛ بلکہ ان کی ہیبت دلوں میں اس طرح بیٹھ جائے گی، کہ انھیں اٹھنے کا حوصلہ نہ ہوگا۔دنیا کی محبت میں گرفتار شخص  پر ناگواری اظہار کرتے ہوئےسرکار دوعالمﷺنے ارشاد فرمایا: ہلاک ہو دینارودرہم اور چادر کا بندہ،اگر اس کو یہ چیزیں دی جائیں تو خوش ہو اور اگر نہ دی جائیں تو ناراض ہو۔ ایسا شخص ذلیل اور سرنگوں ہو جب اس کے کانٹا چبھے نہ نکالا جاوے۔ مبارک ہو وہ بندہ جو خدا کی راہ میں لڑنے کے لیے اپنے گھوڑے کی لگام پکڑے کھڑا ہے اس کے سر کے بال بکھرے ہوئے ہیں اور قدم غبار آلود ہیں اگرلشکر کی حفاظت پر مقرر کیا جاوے تو لشکر کی حفاظت کرتا ہے اور لشکر کے پیچھے رکھا جاتا ہے تو پوری اطاعت کے ساتھ لشکر کے پیچھے رہتا ہے، اگر لوگوں کی محفل میں شرکت کی اجازت چاہتا ہے تو شرکت کی اجازت نہیں دی جاتی اور اگرکسی کی سفارش کرتا ہے تو اس کی سفارش قبول نہیں کی جاتی ،یعنی گم نام ،بے نام ونشان ہونے کے سبب مخلوق ایسے بندے کو بے قدر سمجھتی ہے۔(مشکوۃ) اسی حب دنیا کا اندیشہ کرتے ہوئےایک اور مقام پرقسم کھاکر فرمایا: اللہ کی قسم! میں تمہارے فقر وافلاس سے نہیں ڈرتا بلکہ اس سے ڈرتا ہوں کہ دنیا تم پر کشادہ کی جائے جس طرح تم سے پہلے والوں پر کشادہ کی گئی تھی پھر تم دنیا کی محبت ورغبت میں گرفتار ہوجاؤ گے جس طرح تم سے پہلے والے گرفتار ہوئے تھے اور یہ دنیا پھر تم کو ہلاک کردے گی جس طرح تم سے پہلے والوں کو ہلاک کیا تھا۔(مشکوۃ)

حب دنیا میں حب جاہ بھی داخل ہے؛بلکہ ہوسِ زرکے مقابلے میں زیادہ خطرناک و مضر ہے اور اس سے دامن کا بچاناذرا مشکل ہے۔ حب جاہ کے معنی ہےکہ انسان لوگوں کے قلوب پر قبضہ کرنا چاہے اوراس کی خواہش کرے کہ ان کے دل میرے مطیع بن جائیں میری تعریف کیا کریں۔ میری حاجت کے پورا کرنے میں لپکیں اور جان تک سے دریغ نہ کریں ۔رسول خدا ﷺنے پیشین گوئی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:میری امت کے کچھ لوگ قرآن کا علم حاصل کریں گے ، اور دین میں گہرائی تک پہونچیں گے ان کے پاس شیطان آئے گا اور کہے گا کہ تم اگر حکام کے پا س جاکر ان کی دنیا میں سے کچھ حصہ حاصل کر لو،اور اپنے دین کو بچا لو ، تو کیا حرج ہے ؟ آپ فرماتے ہیں سن لو!ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا، جیسے ناگ پھنی سے بجز کانٹے کے اور کچھ نہیں مل سکتا، ایسے ہی حکام کے قرب سے بجز گناہ کے اور کچھ نہیں پا سکتے ۔ (طبرانی)آج امت میں یہ مرض بھی عام ہوتا جارہاہے،بے لوث و مخلص قائدین کا فقدان ہر طرف ہے،ہر کوئی اپنا نام چمکانے اور ملک گیری کی ہوس میں حد سے گزرجانے کو تیار ہے۔

الغرض دنیا و آخرت ایک دوسرے کی ضد ہیں ، لہذا آخرت کاتذکرہ اورموت کی یادانسان کے لئے نہایت لازم وضروری ہے ؛ یہی وجہ ہے کہ قرآن وحدیث میں اس کاتفصیل کے ساتھ باربارذکرکیاگیا،تاکہ آخرت سے کوئی آدمی غافل نہ ہو، اور دنیا کی محبت میں گرفتار نہ ہو جائے ۔

حق تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں ملک کے موجودہ حالات میں اجتماعی و انفرادی طور پر مستقل لائحہ عمل بناکر کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ،بالخصوص اپنی زندگی ،اپنے گھر اور اپنے خاندان سے انقلاب کا آغاز کرنے کی فکر نصیب فرمائے ۔آمین

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا