English   /   Kannada   /   Nawayathi

'میری آنکھ مجھ سے پہلے جنت میں پہنچ گئی'

share with us

غزہ :09دسمبر2019(فکروخبر/ذرائع)قابض صہیونی فوج کی معصوم فلسطینیوں کے خلاف ریاستی دہشت گردی کے آئے روز نئے مظاہر اور واقعات سامنے آ رہے ہیں۔ صہیونی درندہ صفت فوجی نہتے فلسطینیوں کو بغیر کسی جرم کے گولیاں مار کر شہید کرنے سے نہیں چوکتے۔ نہتے فلسطینی بچوں، جوانوں اور خواتین کو بلا امتیاز نشانہ بناکر گولیاں ماری جاتی ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ احتجاجی ریلیوں کے دوران قابض فوج فلسطینیوں کے چہروں کو نشانہ بناتے ہیں تاکہ دہشت گردی کے نتیجے میں فلسطینی یا تو شہید ہوجائیں یا ان کے چہرے ایسے مسخ ہوجائیں کہ وہ آئندہ کے لیے کسی کو منہ نہ دکھا سکیں۔

می ابو رویضہ بھی ایک ایسی فلسطینی دو شیزہ ہیں جسے ایک ریلی کے دوران انگلیوں سے وکٹری کانشانہ بنانے کی پاداش میں چہرے پر گولیاں ماری گئیں۔ اس کا چہرہ تو زخمی ہوا مگر ساتھ ہی ساتھ وہ کی دائیں آنکھ بھی مکمل طور پر ضائع ہوگئی۔

می ابو رویضہ کو غزہ کی پٹی کے مشرق میں سرحد کے قریب جمعہ کے روز ایک احتجاجی مظاہرے میں شرکت کے دوران گولیاں ماری گئیں۔ اس کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ غزہ کی پٹی پرمسلط محاصرہ ختم کنے اور مقبوضہ فلسطین میں اپنے گائوں واپس جانے کامطالبہ کررہی تھی۔

23 سالہ می نے بتایا کہ وہ البریج پناہ گزین کیمپ کےقریب ایک مظاہرے میں شریک تھی کہ اچانہ اس کی آنکھ پر کوئی زور دار چیز لگی۔ اس کے ساتھ ہی اس کی آنکھ سے خون کا فورا پھوٹ پڑا اور وہ خون اور نیم بے ہوشی کی حالت میں زمین پر گر پڑی۔

اس نے بتایا کہ وہ مشرقی البریج کیمپ کے قریب دیگر مظاہرین کےدرمیان کھڑی تھی اور اس نے صہیونی فوج کو دیکھ کر وکٹری کا نشانہ بنایا۔ اس کے وکٹری کانشان بناتے ہی صہیونی فوج نے ایک آنسوگیس شیل اس کی آنکھ پر دے مارا۔

وکٹری کا نشان اور کوفیہ

می ابو رویضہ نے بتایا کہ وہ غیرملکی قابض فوجیوں سے کافی فاصلے پر تھی اور اس نے فلسطینی ثقافت کی علامت کافیہ (گلو بند) گلے میں ڈال رکھا تھا۔ اس نے وکٹری کا نشان بنایا۔ میری صرف یہ قصور تھا اور مجھے اس جرم میں گولی ماری گئی کہ میں نے وکٹری کانشان بنایا اور میں کوفیہ پہن رکھا تھا۔

شدید زخمی حالت میں می کو وسطی غزہ کے الاقصیٰ اسپتال لے جایا گیا جہاں ابتدائی طبی امداد کے بعد اسے غزہ کی النصر کالونی میں واقع آئی اسپتال منتقل کردیا گیا۔ اس کا کہنا ہے کہ آئی اسپتال میں آنے کے بعد مجھے اس وقت بہت بڑا صدمہ پہنچا جب ڈاکٹروں نے بتایا کہ میری دائیں آنکھ مکمل طور پر ختم ہوچکی ہے اور اب میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک آنکھ سے محروم ہوگئی ہوں۔

میری آنکھ مجھ سے پہلے جنت میں پہنچ گئی

اسپتال سے واپس گھر پہنچنے کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹ'فیس بک' پر پوسٹ کردہ ایک بیان میں می نے کہا کہ مجھے اپنی دائیں آنکھ کےضائع ہونے کا دکھ ہے مگر اس بات کی خوشی بھی ہے کہ میری جسم کا کوئی حصہ شہید ہونے کےبعد جنت میں پہنچ گیا ہے۔ میری آنکھ مجھ سے پہلے جنت میں پہنچ گئی ہے۔

سوشل میڈیا پر می کے ساتھ یکجہتی کا ایک طوفان امڈ پڑا اور سماجی کارکنون نے می کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کو صہیونی فوج کی کھلم کھلا ریاستی دہشت گردی اور بربریت قرار دیا۔

سماجی کارکنوں نے صحافی معاذ عمارنہ کی تصاویر بھی شیئر کیں جسے گذشتہ ماہ غرب اردن کے شہر الخلیل میں اسرائیلی فوج نے گولیاں مار کر آنکھ سے محروم کردیا تھا۔

می ابو رویضہ کا کہنا ہے کہ وہ تیس مارچ 2018ء سے غزہ میں جاری حق واپسی اور انسداد ناکہ بندی تحریک کے دوران اسرائیلی فوج کی شیلنگ سے چار بار زخمی ہوچکی ہیں۔ اس تحریک کو کچلنے کےلیے اسرائیلی فوج اب تک سیکڑوں فلسطینیوں کو شہید اور ہزاروں کو زخمی کرچکا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں می نے کہا کہ میری آنکھ کے شہید ہونے سے میرے جذبے اور تحریک آزادی کے عزم میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ میں باقاعدگی کے ساتھ حق واپسی مظاہروں میں شرکت کرتی رہوں گی چاہے مجھے اس کی پاداش میں جان سے کیوں نہ مار دیا جائے۔ اس کا کہنا تھا کہ ہم غزہ کی پٹی پر 13 سال سے مسلط کردہ ناحق محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں اور یہ مطالبہ کوئی جرم نہیں ہے۔

می کی آنکھ تلف ہونے کی خبر اس کے والد پر بجلی بن کر گری۔ اس کا کہنا ہے کہ می کی حالت کافی تشویشناک تھی مگر طبی عملہ اسے فوری طورپر اسپتال لے گیا۔ مجھے اس وقت پتا چلا جب می کو اسپتال پہنچا دیا گیا تھا اور اس کی آنکھ کا آپریشن کردیا گیا تھا۔

مجروحہ کے والد کا کہنا تھا کہ ہم نہیں سمجھتے کہ قابض صہیونی ریاست بے گناہ اور معصوم ونہتے بچوں پر اس قدر بربریت کا مظاہرہ کیوں کرتے ہیں۔ غزہ کی پٹی میں اسرائیل جو کچھ کررہا ہے وہ کھلا جرم ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا