English   /   Kannada   /   Nawayathi

پاکستان : ’کہیں بچے کا گردہ بیچنا نہ پڑجائے‘

share with us

:09دسمبر2019(فکروخبر/ذرائع)قرضوں پر چلنے والے ملک اور افراد غلامی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ایسے لوگوں کی تعداد کوئی تیس لاکھ ہے، جو بعض اوقات اس غلامی سے نکلنے کے لیے انتہائی اقدام اٹھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ 

اپنی صحافتی کام کے دوران طرح طرح کے لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوا: طاقتور، کمزور، امیر، عام، خاص، سچے، جھوٹے وغیرہ۔ لیکن بعض ایسے لوگ بھی ملے جن کی کہانیاں ذہن پر نقش ہوگئیں۔ انہی میں سے ایک عنصر علی ہے۔

عنصر سے میری ملاقات سرگودھے کی تحصیل کوٹ مومن میں ایک رپوٹنگ اسائنمنٹ کے دوران ہوئی۔ پنجاب کا یہ زرخیز علاقہ مالٹوں، نارنگیوں اور کینو کی پیداور کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔

عنصر کی عمر تیس سے پینتیس سال ہوگی (وہ نہ تو اپنی سہی عمر جانتا ہے اور نہ ہی پڑھ لکھ سکتا ہے)۔ کچھ سال پہلے اس کا موٹر سائیکل کے ساتھ حادثہ ہوگیا، جس کے بعد سے وہ ذرا لنگڑا کر چلتا ہے۔

عنصر اور اس کی بیوی ایک زمیندار کے پاس روزانہ سولہ سے سترہ گھنٹے محنت مزدوری کرتے ہیں۔ عنصر باہر کھیتوں میں زمین اور مال مویشی سنبھالتا ہے اور اس کی بیوی سارا دن زمیندار کے گھر میں کام کرتی ہے۔

دونوں کو ماہانہ تین چار ہزار روپے ملتے ہیں۔ اس تنخواہ میں ایک انسان کا گذر بسر بہت مشکل ہے۔  عنصر کو دو وقت کی روٹی کے لیے بار بار زمیندار سے قرض لینا پڑتا ہے۔

عنصر کے مطابق یہ زمیندار کوئی ظالم انسان نہیں۔ وہ مار پیٹ نہیں کرتا اور اگر غصہ آ بھی جائے تو ذرا ذرا سی بات پر گالم گلوچ نہیں کرتا۔  عنصر کے مالک نے اسے اپنی زمین پر دو کمروں کا گھر بھی دے رکھا ہے۔

جب کبھی علاج معالجے کی ضرورت پڑ جائے، خوشی یا غم کا موقع ہو تو وہی ان کے کام آتا ہے اور مزید رقم دے دیتا ہے۔ لیکن ہوتا وہ قرض ہی ہے، جس کا ریکارڈ زمیندار اپنے پاس رکھتا ہے۔ عنصر صرف کاغذات پر انگوٹھا لگا دیتا ہے۔

Videostill - Schuldknechtschaft in Pakistan

کچھ سال پہلے جب یہ قرض زیادہ بڑھ گیا تو زمیندار کی طرف سے دباؤ بھی بڑھ گیا۔ عنصر کے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا، تو اُس نے اپنا ایک گردہ فروخت ڈالا۔ مقامی ایجنٹ اور ہسپتال کے عملے نے اپنے بیس ہزار روپے کاٹ کر اُسے ایک لاکھ روپے پکڑا دیے۔ عنصر کا قرضہ کم ہوا، لیکن زیادہ عرصے کے لیے نہیں۔

چند برسوں کے اندر عنصر پر زمیندار کا قرضہ پھر چڑھ گیا تو اس بار اس نے اپنی بیوی کو گردہ بیچنے پر آمادہ کر لیا۔ ایک بار پھر انہوں نے چین کا سانس لیا، لیکن یہ بھی عارضی ثابت ہوا۔

ان تمام برسوں میں اس کے یہاں آٹھ پچے پیدا ہوئے۔ عنصر کے پاس خود دو وقت کی روٹی میسر نہیں تھی تو ایسے میں انہوں نے اتنے بچے کیوں پیدا کیے؟

 ''یہ تو اوپر والے کی دین ہے،‘‘ اس نے کھسیانے انداز میں کہا۔ مجھے اس پر ترس آیا اور کچھ غصہ بھی۔ میں نے پوچھا، ''کبھی خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں کا سُنا ہے؟‘‘ تو اُس نے نفی میں سر ہلا دیا۔

Videostill - Schuldknechtschaft in Pakistan

سرگودھا کوئی سندھ یا بلوچستان کا دور افتادہ علاقہ نہیں بلکہ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں لاہور۔ اسلام آباد موٹروے سے متصل ایک تحصیل ہے۔ دل میں سوچا کہ اگر یہاں تک بھی خاندانی منصوبہ بندی والے نہیں پہنچ پائے تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ملک کے طول و عرض میں آبادی میں تیزی سے کیوں اضافہ ہو رہا ہے۔

بعض لوگوں کو کہتے سُنا ہے کہ بچے پیدا کرنا بھی دین کی خدمت ہے کیونکہ اس سے دنیا میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ اوپر والے نے ہر جاندار شہ تک رزق پہنچانے کا وعدہ کیا ہے۔ لیکن اگر ایسا ہے تو ملک میں عنصر علی جیسے مقروض لیکن محنتی لوگ اور اس کے بچے فاقے کاٹنے پر کیوں مجبور ہیں؟

عنصر کا کوئی بھی بچہ اسکول نہیں جاتا۔ وہ خود ساری زندگی زمیندار کا مقروض رہا ہے۔ کیا اس کے بچوں کا بھی یہی مستقبل ہے؟

عنصر کا کہنا ہے کہ اسے کل کا پتہ نہیں لیکن وہ اتنا ضرور جانتا ہے کہ چاہے وہ کچھ بھی کر لے غلامی کی اس زندگی سے شاید کبھی نہ نکل پائے۔

Videostill - Schuldknechtschaft in Pakistan

اس دوران ملک میں مختلف حکومتیں آتی جاتی رہیں لیکن اس کا عنصر کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ فوجی ہو یا سولین ادوار، ملک کے سیاسی نظام پر طاقتور وڈیرے، زمیندار اور چودہری حاوی ہیں۔ زرعی اصلاحات کسی کے بھی ایجنڈے پر نہیں۔ ویسے بھی اس نظام سے مستفید ہونے والا طبقہ بھلا کیوں اسے ٹھیک کرنے لگا؟

پاکستان میں قرض کی ان دیکھی زنجیروں میں کتنے لوگ غلامی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں، اس پر کوئی باوثوق سرکاری اعداد و شمار دستیاب نہیں۔ لیکن آسٹریلیا میں قائم عالمی تنظیم 'گلوبل سلیوری انڈیکس‘ کا اندازہ ہے کہ یہ تعداد تیس لاکھ تک ہو سکتی ہے۔

Videostill - Schuldknechtschaft in Pakistan

ان خاندانوں کی اکثریت کھیتی باڑی کے شعبے سے وابستہ ہے جبکہ اینٹیں بنانے والے بھٹہ مزدور اور قالین کے صنعت سے وابستہ بچے اور خواتین بھی جدید دور میں انسانی غلامی کی مثال ہیں۔

یہ مسئلہ پاکستان تک  محدود نہیں۔ بھارت، نیپال، بنگلادیش اور افغانستان میں بھی لاکھوں خاندان اس استحصالی نظام کا شکار ہیں۔

قرض اتارنے کے لیے عنصر علی نے اپنا اور اپنی بیوی کے گردے تو بیچ دیے لیکن جوں جوں قرض دوبارہ بڑھ رہا ہے، اب وہ کیا کرے گا؟

اس نے کہا، ''کوئی اور راستہ نہیں۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ میرا یہ چھوٹا بچہ کچھ بڑا ہو جائے تو کہیں مجھے اس کا گردہ نہ بیچنا پڑجائے۔‘‘

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا