English   /   Kannada   /   Nawayathi

شینگن زون: نقل و حرکت کی آزادی کا معاہدہ خطرے میں

share with us

شینگن زون میں شامل کچھ ممالک نے سن 2015 سے بارڈر کنٹرول دوبارہ متعارف کرا رکھا ہے اور چھ ممالک اس میں بارہا توسیع کر چکے ہیں۔ ماہرین کے مطابق بارڈر کنٹرول غیر قانونی اور نقل و حرکت کی آزادی کے منافی ہے۔

یورپ کے چھبیس ممالک پر مشتمل شینگن زون میں سرحدوں کے بغیر نقل و حرکت کی آزادی ان ممالک کے اقتصادی ترقی اور باہمی رواداری کی بنیاد سمجھی جاتی ہے۔ ان چھبیس ممالک میں بائیس ملک یورپی یونین کا حصہ ہیں اور یونین سے باہر چار ملک، یعنی سوئٹزرلینڈ، آئس لینڈ، لشٹن اشٹائن اور ناروے بھی شینگن علاقے میں شامل ہیں۔ اتنے ممالک میں بارڈر کنٹرول کے بغیر سفر دنیا کے کسی دوسرے خطے میں ممکن نہیں۔ لیکن گزشتہ برسوں سے شینگن معاہدہ خطرے کی زد میں دکھائی دے رہا ہے۔

مخصوص مواقع پر بارڈر کنٹرول

شینگن علاقے میں عارضی طور پر بارڈر کنٹرول متعارف کرانے کے لیے واضح ضوابط موجود ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک ایسا مخصوص مواقع پر اور بہت ہی مختصر مدت کے لیے کیا جا رہا تھا۔ سن 2010 میں نیٹو سمٹ کے موقع پر پرتگال نے اور 2009ء میں عالمی ماحولیاتی کانفرنس کی خاطر ڈنمارک نے چند دنوں کے لیے عارضی سرحدی نگرانی شروع کی تھی۔

لیکن سن 2015 میں پناہ کے متلاشی افراد کی بڑی تعداد میں آمد کا حوالہ دے کر جرمنی، آسٹریا، سلووینیا اور ہنگری نے فوری طور پر بارڈر کنٹرول متعارف کرا دیا تھا۔ برسلز میں یورپی پالیسی سینٹر سے وابستہ مہاجرت کے امور کے ماہر ایوا پاسکاؤ ان ممالک کے اقدام کو 'غیر معمولی‘ قرار دیتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پاسکاؤ کا کہنا تھا، ''ستمبر سن 2015 سے کچھ ممالک نے شینگن ضوابط میں موجود ہر ممکن قانونی امکان کو استعمال میں لاتے ہوئے سرحدوں کی نگرانی شروع کر رکھی ہے جو ایک غیر معمولی عمل ہے۔‘‘

نیچے دیے گئے گراف میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس ملک نے کس وقت اور کتنی دیر کے لیے سرحدی نگرانی متعارف کرائی۔ عمودی لائن ستمبر سن 2015 کی نشاندہی کر رہی ہے۔

اس کے فوری بعد شینگن معاہدے میں شامل چھ ممالک نے طویل وقت کے لیے بارڈر کنٹرول شروع کر دیا۔ آسٹریا، جرمنی، ڈنمارک، سویڈن اور ڈنمارک نے مہاجرین کی آمد کو سرحدی نگرانی کا جواز بنایا۔

چھٹا ملک فرانس ہے جس نے نومبر سن 2015 کے پیرس حملوں کے بعد دہشت گردی کو جواز بنا کر بارڈر کنٹرول شروع کیا تھا۔ اب چار برس بعد بھی ان چھ ملکوں نے سرحدی نگرانی بدستور جاری رکھی ہوئی ہے۔

آج تیر نومبر کے روز یہ ممالک مزید چھ ماہ کے لیے بارڈر کنٹرول برقرار رکھنے کی درخواست بھی دے چکے ہیں۔

پاسکاؤ کے مطابق، ''سن 2015 سے لے کر سن 2017 تک بارڈر کنٹرول کی قانونی وجہ بنتی تھی لیکن اس کے بعد اس عمل کا کوئی جواز نہیں ہے۔‘‘

سرحدی نگرانی کا قانون

شینگن بارڈرس کوڈ کے آرٹیکل 29 میں سرحدی نگرانی کی اجازت کے معاملے کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس شق کے تحت چھ ماہ سے زیادہ مدت کی اجازت اس صورت میں دی جا سکتی ہے جب ''اندرونی سرحدوں پر کنٹرول کے بغیر شینگن زون کا مجموعی مقصد متاثر ہو رہا ہو اور بیرونی سرحدوں پر ناقص کنٹرول سے مسلسل اور سنجیدہ خطرہ موجود ہو۔‘‘

شینگن علاقے کے اندر سرحدی نگرانی آخری حربے کے طور پر کی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر علاقے کی بیرونی سرحدیں محفوظ نہ ہوں تو رکن ممالک آرٹیکل 29 کے تحت زیادہ سے زیادہ چھ ماہ کی مدت کے لیے بارڈر کنٹرول نافذ کر سکتے ہیں اور اس میں تین مرتبہ ششماہی مدت کے لیے توسیع کی جا سکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کوئی ملک زیادہ سے زیادہ دو سال تک اپنی سرحدوں کی نگرانی برقرار رکھ سکتا ہے۔ تاہم مذکورہ بالا چھ ممالک نے دو کے بجائے چار سال سے مسلسل سرحدی نگرانی شروع کر رکھی ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا