English   /   Kannada   /   Nawayathi

مفلسی پہ تماشائے الم!!!

share with us

احساس نایاب (شیموگہ, کرناٹک)

امیر ہو یا غریب,  چرند ہو یا پرند..... زمین, آب و ہوا میں جینے والی اللہ کی ہر مخلوق کو سر چھپانے کے لئے ایک عدد مکان کی ضرورت ہوتی ہے, چاہے عالیشان عمارت ہو یا دو ہاتھ جتنی جھونپڑی...... جو چلچلاتی دھوپ میں, خون جمادینے والی ٹھنڈ اور برسات کے ستم سے خود کے ساتھ اپنوں کو محفوظ رکھے...... اور اسی مکان کو ہر جاندار زندگی بھر  تنکا تنکا جوڑ کر بڑے ہی لگن کے ساتھ  ارمانوں کا آشیانہ بناتا ہے تاکہ وہ زمانے کے تھپیڑوں کے بیچ کچھ پل راحت و اطمینان کی سانس لے سکے......
خوشیوں،  غموں، پریشانیوں و فاقوں بھری زندگی میں بھی اپنی چار دیواری کے اندر ہمیشہ اپنا وقار،  بھرم قائم رکھ سکے.......
انسان بھلے کئی کئی دن فاقوں میں گذار دے لیکن سر پہ سایہ فگن چھت کے ہونے سے وہ اپنی زندگی میں اطمینان محسوس کرتے ہوئے" گنجی امبل "پی کر بھی عزت کی زندگی جیتا ہے........ اور ظالم دنیا سے بچاکر اپنے بچوں کی  بہتر پرورش کرتے ہوئے اُن کا مستقبل سنوار سکتا ہے 
اس لئے کسی بھی انسان کی زندگی میں گھر بہت معنی رکھتا ہے کیونکہ ایک مکان کو گھر بناتے ہوئے  لوگوں کی زندگیاں گزر جاتی ہیں....

شاید اسی لگاؤ کی وجہ سے اکثر بزرگوں کی وصیت ہوتی ہے کہ اُن کا جنازہ  اُسی مکان سے نکلے جس کو آشیانہ بنانے میں انہوں نے اپنی زندگی لگادی جس کے درودیوار میں اُن کے اپنوں کی بیشمار یادیں بسی ہوتی ہیں, جس کے آنگن میں ننھے بچوں کی کلکاریان گونجتی ہیں اور گھر کے ہر کونے میں بزرگوں کی نایاب دعائیں ہوتی ہیں...........

لیکن جب اُس آشیانہ کو جیتے جی, نظروں کے آگے منہدم کردیا جائے, اُس پہ ظالم بُلڈوزر چلاکر اُن کے خوابوں کو  بیدردی سے کُچلا جائے تو اُس وقت دل پہ جو گذرتی ہے وہ صرف اور صرف اللہ ہی جانتے ہیں.......
 کہ کیسے بڑے سے بڑا طاقتور انسان بھی خود کو بیبس محسوس کرنے لگتا ہے,  خاص کر خواتین کی کیفیت لفظوں میں بیاں کرپانا ناممکن ہے......
ایک  صنف نازک  اپنے ہاتھوں سے سجائے آشیانے کو ریزہ ریزہ ہوتے دیکھ کر, اپنے بچوں کے بستے,  کتابیں, کھلونے اور گھر کی ایک ایک چیز کو روندھتے ہوئے دیکھ کر وہ جیتے جی مر جاتی ہے, دیواروں کی گرتی  ہر اینٹ اُس کے دل پہ ہزار زخم دے  جاتی ہے...........

یہی ستم یہی ظلم کرناٹک کے شہر شیموگہ کے کوٹے اُنگور نامی علاقے کے غریب مفلس مسلمانوں پہ کیا گیا ہے.......
بنا کسی نوٹس کے یمراج بن کر اچانک اُن کے آشیانے زمین دوز کردئیے گئے اور وہ  بیبس لاچار آنسو بہانے, ظالموں کے آگے ہاتھ جوڑکر رحم کی بھیک مانگنے کے سوا کچھ نہ کرسکے............ نہ ہی اُس وقت اُن کی مدد کے لئے کوئی سیاسی جماعت آگے آئی نہ کسی تنظیم و ادارے نے آگے بڑھ کر ظالم کا ہاتھ پکڑا,  نہ ہی  انسانی حقوق پہ بڑی بڑی باتیں کرنے والون نے آواز اٹھائی,  بلکہ آج ساری حق گو زبانیں گونگی,  اور سیال  قلم خشک  ہوچکے ہیں سوائے پیس آرگانائزیشن اور ایس ڈی پی آئی کے.........

باقی سبھی تماشہ بیں بنے اُن مظلوم مسلمانوں کی بربادی پہ تبصرے کرتے, نظریں چراتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں سے منہ موڑتے نظر آرہے ہیں........

آج ان بیچاروں کا نہ کوئی پرسان حال  ہے نہ ہی پانی پوچھنے والا, نہ ان کے حال پہ افسوس جتانے والے ہیں..........

جبکہ مسلمانوں کے اس حال پہ آسمان بھی آنسو بہارہا ہے اس بات سے بیخبر کہ ان مفلسوں کے سر پہ چھت نہیں رہی وہ بے سہارا بے گھر اپنے ننھے ننھے بچوں کے ساتھ چڑیا کے مانند بھیگ رہے ہیں, 
اُن بیچاروں کو بھگونے اُن کی آنکھوں سے برستے آنسو کم نہ تھے کہ آنسو پوچھنے،  اس  زبوں حالی  پہ ماتم منامنے کے لئے برسات بھی ستم گر بن کے ہر دن ٹوٹ کے برس رہی ہے ............
وہ تو اللہ سبحان تعالی کا احسان ہے کہ مقامی مسجد میں آٹھ دنوں سے ان بدنصیبوں کو تھوڑا بہت آسرا ملا ہے, اور کچھ ٹینٹ لگائے دن گذار رہے ہیں باوجود اتنے سارے خاندانوں کا سوال ہے,  کڑاکے کی سردی میں بنا رجائی کے معصوم بچے کیسے جی رہے ہونگے اس بات کا احساس آخر کیوں کسی کو نہیں ہورہا ........؟؟؟؟
یہاں تک کہ ان کے گھروں میں رکھے قرآن پاک بھی ضائع ہوچکے ہیں.......

آخر اتنی بے حسی کس لئے؟
خود کو ملت کے رہنما,  قائد,  مفکر کہنے والے آج اپنے عالیشان گھروں میں, مخملی بستروں پہ سوتے ہوئے, اپنے سجدوں پہ گردنیں اکڑا کر چلنے والے آخر کیوں ان غریب بیسہارا مسلمانوں کو یاد نہیں کررہے؟؟؟

پہلے ہی سیلاب کی زد میں آکر ہزاروں گھر تباہ و برباد ہوچکے ہیں, اور وہی ابھی تک سنبھلے بھی نہیں تھے کہ اُس پہ ایک اور ستم ڈھایا گیا ہے جس سے ان غریب مسلمانون کی کمر توڑ کے رکھ دی گئی ہے...........
بیچارے پریشان حال پاگلوں کی طرح مدد مانگتے ہوئے در بدر بھٹک رہے ہیں انصاف کی آس میں ظالموں کی چوکھٹوں پہ صبح سے شام تک معصوم بچوں کے ساتھ بھوکے پیاسے کھڑے ہیں 
لیکن کوئ ان کا پرسان حال نہیں ہے جو انہیں ایک گلاس پانی پوچھ سکے ان کے حال پہ ترس کھاکر ان کے بچوں کے منہ میں نوالا ڈال سکے.........

خدارا تیرے بندوں پہ یہ کیسی آزمائشیں ہیں.... تیری بنائ ہوئ دنیا میں آج تیرے ہی بندوں کے لئے زمین تنگ کی جارہی ہے 

تعصب کے چلتے امیروں کی چہل قدمی کے لئے غریب مسلمانوں کے سر کی چھت چھینی جارہی ہے,  سمجھ نہیں آرہا اس دنیا میں غریب ہونا گناہ ہے؟ یا مسلمان ہونا ؟؟؟
امیر بچوں کے کھیلنے کودنے کے خاطر غریب بچوں کو بیسہارا کرنا کہاں کی انسانیت ہے کونسا انصاف ہے؟؟؟

مانا کہ  سرکاری زمین ہے لیکن ایسے کیسے بنا کسی نوٹس کے اچانک ہی بسے بسائے گھر پہ بُلڈوزر چلاکر اتنے سارے خاندانوں کو سڑک پہ لا کھڑا کردیا گیا؟؟؟؟
 وہ بھی برسات کے مہینے میں؟؟؟
جس کی اجازت نہ قانون دیتا ہے نہ ہی ہندوستانی آئین میں یہ لکھا ہے..........

بلکہ سرکاری زمین پہ بنے مکانوں کو ہٹانے کے لئے پہلے وہاں پہ بسے لوگوں کو کمپنسیشن معاوضہ دینا ہوتا ہے,  کسی اور جگہ اُن کے رہنے کا بندوبست کرنا ہوتا ہے .......
لیکن افسوس یہاں جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ کھُلی داداگیری,  غنڈہ گردی ہے........
جو غنڈے بدمعاش نہیں بلکہ سیاستدانوں کے اشاروں ہہ ناچنے والی پولس کررہی ہے........ وہ بھی قوم کے اتنے سارے وکلاء کی موجودگی میں جو ان مسلم وکلاء کے لئے شرم سے چُلوبھر پانی میں ڈوب مرنے والی بات ہے...........
ساتھ ہی قانونی جانکاری رکھنے والے اُن تمام لوگوں کے منہ پہ زور دار طمانچہ ہے.........
اللہ ان سبھی کو عقل سلیم دیں قوم کا وفادار بنائیں اور ان کے اندر حق کہنے کی ہمت دیں.........

ویسے تو سرکار کی زمینوں پہ آج کتنے ہی شادی محل, پارکس, ریسٹورینٹس وغیرہ بنائے گئے ہیں,  کئیوں نے اپنے رسوخ کے بل پہ سرکاری زمینوں پہ قبضہ جمایا ہوا ہے 
لیکن افسوس یہاں غریب مسلمان فرقہ پرستوں کی آنکھوں کا کاٹا بنے ہوئے ہیں........  اپنوں کی بیحسی,  مفاد پرستی کے چلتے ہر بار ان مفلسوں کو قربانی کا بکرا بنایا جارہا ہے........
حالات کے مدنظر ہر عام مسلمان یہ سوچنے پہ مجبور ہوچکا ہے کہ آج قوم کے یہ ذمہ داران شہر کہ چند للو پنجوؤں پہ لگام نہیں کس پارہے, ایسے میں مستقبل میں آنے والی ناگہانی آفت کا یہ کیسے مقابلہ کرپائینگے؟؟؟
جو اپنے مسلم بھائیوں کو بیگھر ہونے سے نہیں بچاسکے, اُنہیں انصاف دلانے کے خاطر آگے نہیں آسکے, وہ یو اے پی اے, این آر سی جیسے ظالمانہ قوانین کے وار سے اپنوں کو کیسے بچا سکیں گے؟؟؟

 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 

02  نومبر 2019

ادارہ فکروخبر بھٹکل 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا