English   /   Kannada   /   Nawayathi

کیااسلامی تاریخ کے تمام بڑے سائنسدان سیکولراورملحدتھے؟

share with us


       ترتیب: عبدالعزیز


    سیکولر اور ملحد طبقے کا یہ دعویٰ ہے کہ اسلامی دنیا کے عظیم سائنسدان سیکولر اور ملحد تھے اور سائنس اور مذہب کبھی اکٹھے نہیں چل سکتے۔ ہماری یہ تحریر اسی دعویٰ کی حقیقت واضح کرتی ہے۔ اس سے یہ بات کھل کر سامنے آئے گی کہ اسلامی دنیا کے عظیم سائنسدانوں کی اکثریت سنی مسلمانوں پہ مشتمل تھی اور تمام نامور سائنسدان مذہب سے وابستہ تھے اور ان میں سے کوئی بھی سیکولر یا ملحد نہیں تھا بلکہ ان میں سے کچھ لوگ تو وہ تھے جو بیک وقت مولوی،عالم، فقیہ اور سائنسدان تھے۔
    1- ابو بکر بن یحییٰ بن الصائغ الثجیبی”ابن باجہ”کے لقب سے مشہور ہوئے، وہ اندلس میں عرب کے سب سے پہلے مشہور فلسفی تھے، فلسفہ کے علاوہ وہ سیاست، طبیعات، علمِ فلک، ریاضی، موسیقی اور طب میں بھی مہارت رکھتے تھے، ابن باجہ نے عقلی روح (Rational soul) کو انفرادی شناخت کا سربراہ قرار دیا جو ذہانت سے مل کر ان روشنیوں میں سے ایک ہو جاتی ہے جو خدا کی عظمت کی نشانی ہیں۔ابن باجہ کے مطابق آزادی عقلی طور پر سوچنے اور عمل کرنے کا نام ہے۔ابن باجہ کے مطابق زندگی کا مقصدروحانی علم کا حصول اور اللہ تعا لیٰ کے ساتھ اس کی دی گئی ذہانت کے ذریعے تعلق کی تعمیر ہونا چاہیے۔وہ فقہ شافعی کا مقلد اور سنی مسلمان تھے۔
    2-ابن طفیل سنی مسلمان اور فقہ مالکی سے تعلق رکھتے۔ وہ ماہر فلسفہ،عربی ادب،علم الکلام، میڈیسن(طب)، تصنیف اورناول نگار تھے۔ ابن طفیل نے تاریخ کا پہلا فلسفیانہ ناول لکھا جو صحرائی جزیروں، ایک گم شدہ بچے اور گزرے ہوئے ادوار کے حوالے سے بھی پہلا ناول ہے۔ انہوں نے مردوں کی چیر پھاڑ(ڈائی سیکشن)اور پوسٹ مارٹم(Autopsy)کا ابتدائی نظریہ بھی پیش کیا۔ ان کی مشہور تصنیف حی ابن یقظان ہے جسے یورپ میں  Philosophus autodidactus کہا جاتا ہے۔یہ ایک فلسفیانہ ناول ہے۔
    3- ابو الولید محمد بن احمد بن محمد بن احمد بن رشد القرطبی الاندلسی”ہے، 520 ہجری کو پیدا ہوئے، فلسفہ اور طبی علوم میں شہرت پائی، وہ نہ صرف فلسفی اور طبیب تھے بلکہ قاضی القضاہ اور کمال کے محدث بھی تھے۔ نحو اور لغت پر بھی دسترس رکھتے تھے ساتھ ہی متنبی اور حبیب کے شعر کے حافظ بھی تھے، انتہائی با ادب، زبان کے میٹھے، راسخ العقیدہ اور حجت کے قوی شخص تھے، جس مجلس میں بھی شرکت کرتے تھے ان کے ماتھے پر وضو کے پانی کے آثار ہوتے تھے۔ ان کی بنیادی دلچسپیاں اسلامی علم الکلام، اسلامک الاء، اسلامی فلسفہ، جغرافیہ، میڈیسن (طب) ریاضی، طبیعیات (فزکس)، اسلامی فقہ، عربی موسیقاتی نظریہ، فلکیات، فلکیاتی مرکبات تھے۔ان کے نمایاں تصورات وجود(existence) جوہر یاروح(essence) سے پہلے ہوتا ہے، جمود (inertia)، دماغ کی جھلی  arachnoid materتوجیہہ اور عقیدے کی تفہیم، فلسفے اور مذہب کی تفہیم اور ارسطو ازم اور اسلام کی تفہیم ہیں۔  وہ فلسفے کی شاخ رشدازم (averroism) کا بانی ہیں اور یورپ کے روحانی بابوں میں سے ایک ہیں۔ابن رشد کی تصنیفات بیس ہزار سے زائد صفحات پر محیط ہیں لیکن ان کی اہم ترین تصنیفات اسلامی فلسفے، میڈیسن اور فقہ پر ہیں۔ان کی مذہب سے وابستگی کا اندازہ اس کی ان تصنیفات سے لگایا جا سکتا ہے جو انہوں نے فقہ مالکی پہ تصنیف کی ہیں۔ پھر بھی ملحدین اور سیکولر طبقے کے مفکرین اسے ملحد قرار دیتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ فقہ مالکی کا فقیہ،عظیم مسلم سائنسدان اور فلسفی تھا۔ ابن رشد کی اہم ترین فلسفیانہ تصنیف تہافتہ التہافہ ہے جسے انگریزی میں  incoherence  of the The incoherence کہتے ہیں۔ ابن رشد کی دوسری تصنیف فصل الاعقال تھی جس نے اسلامی قانون کے تحت فلسفیانہ تحقیقات کے قابل عمل ہونے کی توجیہ بیان کی۔ ابن رشد نے اسلامی فتاویٰ کے جو خلاصے تیار کیے وہ آج تک اسلامی علماء پر گہرا اثر رکھتے ہیں۔ابن رشد اسلامی معاشیاتی فقہ اور سود کے حرام ہونے پر بھی بحث کی۔ انہوں نے شراب نوشی کی شرعی سزا پر بھی لکھا۔ ابن رشد فقہ مالکی کا انتہائی معزز عالم تھے، اس میدان میں اس کی بہترین تصنیف بدایۃ المجتہد و النہایۃ ہے جو کہ مالکی فقہ کی نصابی کتاب ہے۔ ابن رشد کے مطابق مذہب اور فلسفہ ایک دوسرے سے متصادم نہیں ہیں بلکہ وہ ایک ہی سچائی تک پہنچنے کے دو مختلف راستے ہیں۔ سچائی کے علم کی دو قسمیں ہیں۔پہلی قسم عقیدے پر مبنی مذہب کی سچائی کا علم ہے اور سچائی کی دوسری قسم فلسفہ ہے جو ان اعلیٰ دماغوں کیلئے ہے جن کے پاس اس کے سمجھنے کی دانشورانہ صلاحیت ہے۔
    4-عمر خیام کی بنیادی دلچسپی اور کارنامے فارسی، فارسی شاعری، فارسی فلسفہ، فلکیات طبیب (فزیشن)، حرکیات(میکینک)، ارضیات (جیولوجی گرافی) اور موسیقی الجبرا، لیپ سال۔ لیپ ایئر کا موجد، ماہر موسمیات ہیں۔عمر خیام 10485 ء کو ایران کے شہر نیشاپور میں پیدا ہوئے۔ انہیں اسلامی (600-1600) کا بنیادی ماہرین ریاضی اور ماہرین فلکیات میں شمار کیا جاتا ہے اسے الجبرا ء پر اہم ترین مقالے کا مصنف سمجھا جاتا ہے۔
    خیام کی شاعری میں شراب و شباب کے تذکرے کی وجہ سے بعض اوقات اسے ارتدادی اور خدا کا منکر سمجھا جاتا ہے۔یہ خیالات رابرٹسن بیان کرتا ہے لیکن در حقیقت کچھ اشعار اس کی طرف غلط منسوب کیے گئے ہیں۔خیام نے اپنی شاعری میں یہ بھی کہا ہے کہ شراب سے لطف اندوش ہو لو کیونکہ خدا مہربان ہے۔ یہ الفاظ ثابت کرتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے وجود کا منکر نہیں تھا۔مشہور اسکالرسید حسین نصر کا بھی یہی کہنا ہے۔ خیام نے ایک مقالہ لکھا جس کا نام خطبۃ الغرہ تھا جو کہ اللہ تعالیٰ کی تعریف میں تھا۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خیام پختہ مذہبی عقائد رکھتا تھا اور وحدت خداوندی کا قائل تھا۔سید حسین نصر اس کی ایک مثال دیتے ہیں جس میں خیام اللہ کی ذات کوجانئے کے مختلف طریقوں پر تنقید کے بعد اپنے آپ کو صوفی قرار دیتا ہے۔ سید نصر حسین خیام کے ایک اور فلسفیانہ مقالے کا بھی حوالہ دیتے ہیں جس کا نام، رسالہ فی الوجود ہے۔یہ رسالہ قرآنی آیات سے شروع ہوتا ہے اور اس کے مطابق تمام چیزوں کا تعلق خدائے تعالیٰ سے ہے اور ان چیزوں میں ایک ربط ہے۔ ایک اور مقالے،رسالہ جواب الثلاث المسائل میں وہ موت کے بعد روح کے بارے میں لکھتا ہے جو کہ اس بات کو رد کرتا ہے کہ خیام قیامت کا منکر تھا۔اس کی حقیقی شاعری بھی اسلام کے مطابق ہے مثلاً:تو نے کہا ہے کہ تو مجھے عذاب دے گا، لیکن اے اللہ! میں اس سے نہیں ڈروں گا،کیونکہ جہاں تو ہے وہاں عذاب نہیں اور جہاں تو نہ ہو،وہ جگہ ہو نہیں سکتی۔
    سید حسین نصر لکھتے ہیں:اگر خیام کی مستند رباعیات اور اس کے فلسفیانہ خیالات اور روحانی سوانح حیات،سیر و سلوک کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ انسان(خیام) نہ ایک ہندستانی شراب خور ہے اور نہ ہی ایک دہریہ؛ بلکہ وہ ایک دانشور اور سائنسدان ہے جس کی شخصیت مشکوک رباعیات سے بالاتر ہے۔
    سی ایچ اے جیری گارڈ نے تو اس سے پہلے کہا تھا: خیام کی تصنیفات تصوف کے اچھے نمونے ہیں لیکن مغرب میں کوئی ان کو اہمیت نہیں دیتا کیو نکہ اہل مغرب بد قسمتی سے خیام کو جیرالڈ کے ترجموں سے جانتے ہیں اور یہ بد قسمتی ہے کہ جیرالڈ اپنے آقا خیام کا وفادار نہیں اور بعض اوقات وہ اس صوفی کی زبان پر نا شائستہ الفاظ ڈالتا ہے۔اس نے خیام کی رباعیات میں بے ہودہ زبان استعمال کی ہے۔ جیرالڈ دوہرا مجرم ہے کیونکہ خیام اس سے زیادہ صوفی تھا جتنا وہ اپنے بارے میں کہا کرتا تھا۔
    5- الفارابی بابائے اسلامی نیو افلاطونی نظریات (نیوپلاٹونزم)، میٹا فزکس (فلسفہ ماورء الطبیعیات)، سیاسی فلسفہ، منطق، فزکس، اخلاقیات، تصوف، میڈیسن (طب)۔ فارابی کا خیال تھا کہ میٹا فزکس کا نظریہ بذات خود موجود ہونے سے متعلق ہے اور اس کا تعلق خدا سے اتنا ہے کہ خدا مطلق وجود کا سربراہ ہے۔ فارابی کے مطابق مذہب سچائی کا علامتی اظہار ہے۔افلاطون کے برعکس فارابی کی مثالی ریاست کی سربراہی پیغمبر کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ اس کے مطابق مثالی ریاست مدینہ منورہ تھی، جس کے حکمران حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور رہنما کسی فلسفی کی بجائے اللہ تعالیٰ تھے۔ فارابی کے مطابق جمہوریت یا ڈیموکریسی مثالی ریاست کے قریب ترین ہے۔ وہ خلفائے راشدین کی طرح کے طرز حکومت کو حقیقی جمہوریت قرار دیتا ہے مکیلویا کوبو وچ کے مطابق: فارابی کا مذہب اور فلسفہ نیک اقدار رکھتے ہیں۔فارابی لوگوں کے اس خیال کی تردید کرتا ہے کہ مکمل اسلامی معاشرہ قائم نہیں کیا جا سکتا اور یہ انسانیت کیلئے موزوں نہیں ہے۔ فارابی نے اپنی کتاب مدینۃالفضیلۃ میں کہا کہ فلسفہ اور وحی ایک ہی سچائی تک پہنچنے کے دو راستے ہیں۔ اس کے یہ خیالات ظاہر کرتے ہیں کہ وہ پکا سنی مسلمان تھا۔ فارابی اور بوعلی سینا اپنے طور کے مسلم ماڈرنسٹ ہیں۔ انہوں نے یونانی فلسفے اور اسلامی میں مطابقت کی کوششیں کیں لیکن انہوں نے خدا کا انکار کبھی نہیں کیا۔
    6- علی الحسین بن عبد اللہ بن الحسن بن علی بن سینا فلسفی، طبیب اور عالم تھے، اسلام کے عظیم تر مفکرین میں سے تھے اور مشرق کے مشہور ترین فلاسفروں اور اطباء میں سے تھے۔ بو علی سیناکی بنیادی دلچسپیاں اسلامی طب (اسلامک میڈیسن)، الکیمی اور کیمیا، اسلامی فلکیا ت، اسلامی اخلاقیات، ابتدائی اسلامی فلسفہ، اسلامی مطالعہ جات، جغرافیہ، ریاضی، اسلامی علمِ نفسیات، فزکس (طبعیات)، فارسی شاعری، سائنس، حجری علوم (Palaoentology) تھے۔وہ بانی جدید علم طب (مارڈرن میڈیسن) اور مومنٹم،بانی سینائی منطق(ایوی سینن لاجک)، بانی نفسیاتی یا نفسیاتی تحلیلPsychoanalysis) (اور علم اعصابی نفسیات (Neuropsychiatry) اور اہم شخصیت برائے علم جغرافیہ، انجینئرنگ تھے۔
    ابن سینا کی فلسفیانہ کوششوں کا مقصد اللہ کے وجود اور اس کی کائنات کی تخلیق کو وجہ اور منطق سے سائنسی طور پر ثابت کرنا تھا۔ سینا نے اسلامی علم الکلام پر کئی مقالے لکھے۔ ان میں پیغمبروں پر بھی مقالے ہیں جنہیں سینا پر جوش فلاسفرز سمجھتے تھے۔سینا نے مختلف سائنسی اور فلسفیانہ تشریحات بھی کیں مثلاکس طرح قرآنی علم کائنات فلسفیانہ نظام کے عین مطابق ہے اور فلسفہ قرآن سے الگ کوئی چیز نہیں۔سینا نے سات سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کر لیا تھا۔انہوں نے قرآنی سورتوں پر پانچ مقالے لکھیان میں سے ایک میں انہوں نے پیشین گوئیوں کو بھی ثابت کیا۔ابن سینا نے قرآن کریم کی چند فلسفیانہ تفسیریں لکھی تھیں اور آیت نور کی تفسیر پر خاص توجہ دی اور اس آیت مبارکہ پر پہلی حکیمانہ اور فلسفیانہ تفسیر سپرد قلم کی جس سے اس روایت کا آغاز ہوا جو ہمیں بعد میں غزالی، ملا صدرا اور بہت سے دوسرے مسلمان مفکرین میں جاری نظر آتی ہے۔ البتہ آیہئ مذکورہ کی جو تفسیر غزالی نے مشکوۃ الانوار میں کی ہے وہ اگرچہ ابن سینا کی اشارات میں بیان کردہ تفسیر سے بہت مختلف ہے مگر اس سے بے تعلق نہیں۔سینا کے مطابق اسلامی پیغمبر فلسفیوں سے کئی گنازیادہ اعلیٰ حیثیت رکھتے ہیں۔بستر مرگ پر انہوں نے غرباء پر صدقے کیے،غلاموں کو آزاد کیا اور اپنی موت تک ہر تیسرے دن قرآن پاک سنتے، یہاں تک کہ وہ جون 1037ء کو انتقال کر گئے۔اس وقت اس کی عمر پچاسی سال تھی۔ انہیں ہمدان(ایران) میں دفن کیا گیا۔
    7-محمد بن موسی الخوارزمی کی وجہ شہرت ریاضیاتی تحقیق، فلکیات، جغرافیہ اور علم نجوم ہے۔اس کی مشہور تصنیف:الجبرو المقابلہ (خطی یا لائینر اور مربعی Quadratic) (مساواتوں کا پہلا منظم حل) یا لکتاب المختصر فی حساب الجبر والمقابلہ اس کا مشہور کارنامہ بنیاد الجبرا ہے (اس میں وہ دیو فنطس یا (Disphantus) کا شریک ہے۔ وہ پہلے سائنسدان تھے جنہوں نے علمِ حساب اور علمِ جبر کو الگ الگ کیا، اور جبر کو علمی اور منطقی انداز میں پیش کیا۔ وہ نہ صرف عرب کے نمایاں سائنسدانوں میں شامل ہیں بلکہ دنیا میں سائنس کا ایک اہم نام ہیں، انہوں نے نہ صرف جدید الجبر اکی بنیاد رکھی، بلکہ علمِ فلک میں بھی اہم دریافتیں کیں، ان کا زیچ علمِ فلک کے طالبین کیلئے ایک طویل عرصہ تک ریفرنس رہا، ریاضیاتی علوم میں یورپ کبھی بھی ترقی نہ کرپاتا اگر اس کے ریاضی دان خوارزمی سے نقل نہ کرتے، ان کے بغیر آج کے زمانے کی تہذیب، تمدن اور ترقی بہت زیادہ تاخیر کا شکار ہو جاتی۔ ان کا الجبرا کا صوفیانہ پیش لفظ ظاہر کرتا ہے کہ وہ پکا مسلمان تھا۔ (جاری)

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا