English   /   Kannada   /   Nawayathi

کشمیر کی موجودہ آنکھوں دیکھی صورت حال

share with us



مولانا محمد ابراہیم قاسمی شولاپوری
صدر: جمعیت العلماء، شولاپور


گزشتہ ستر سالوں سے مسئلہ کشمیر کو جتنا سلجھانے کی کوشش کی گئی، یہ مسئلہ دن بدن اتنا ہی الجھتا گیا۔ اب موجودہ  فرقہ پرست حکومت کی نادانی نے اس کو اتنا الجھا دیا کہ دور دور تک حل بھی نظر نہیں آتا۔ یہ مسئلہ اتنا پیچیدہ ہے کہ چند سطروں اور چند صفحات میں اس کی وضاحت بھی ناممکن معلوم ہوتی ہے۔

اس بات کا شدید افسوس ہوتا ہے کہ آج سوشل میڈیا اکثر ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جو علم اور شعور کی پختگی سے محروم ہیں۔وہ ہر مسئلے میں اپنی رائے بغیر سوچے سمجھے پیش کردیتے ہیں یا جو جذباتی تحریریں سامنے آتی ہیں، انہیں بغیر کسی تجزیہ اور تحقیق کے آگے بڑھانے میں لگ جاتے ہیں۔یہ کام کم از کم ایک ایک مومن کے لیے تو کسی بھی صورت میں درست نہیں؛ کیوں کہ قرآن کریم میں مومن کی پہچان یہ بتائی گئی ہے کہ جب بھی ان کے پاس کوئی امن یا خوف کا معاملہ آتا ہے؛ تو وہ اپنے معاملہ کی گہرائی تک پہنچنے والوں سے رجوع کرتے ہیں؛ جب کہ منافقین ہر بات کو بغیر کسی تحقیق کے پھیلانا شروع کرتے ہیں۔ اسی طرح حدیث پاک میں کہا گیا ہے کہ آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا کافی ہے کہ وہ ہر سنی بات کو دوسروں کے سامنے بیان کرنے لگے۔آج کی تاریخ میں کشمیر پوری قوم وملت کا اہم مسئلہ ہے۔  اتنے اہم مسئلہ کو اگر کوئی سوشل میڈیا سے سمجھنے کی کوشش کرے؛ تو میرا یقین ہے کہ وہ ضرور لغزش کرے گا اور اپنی رائے میں اعتدال سے محروم ہوگا۔

ان چند تمہیدی سطروں کے بعد، آج صرف ایک بات کی طرف آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ کشمیر کے موجودہ صورت حال کیا ہے؟ اس کولے کر بھی سوشل میڈیا پر افراط تفریط دیکھنے کو مل رہی ہے۔  حکومت کا کہنا ہے کہ سب کچھ حسب معمول کے مطابق چل رہا ہے؛ جب کہ دوسری طرف سوشل میڈیا پر ایسے مضامین دیکھنے کوملے جس میں عورتوں کی عزتیں پامال ہورہی ہیں، جنازے گھر میں دفن کرنے کی نوبت آگئی ہے، گھر سے کوئی باہر نکل نہیں سکتا، لوگ بھوک سے مررہے ہیں، ہر طرف لاک ڈاؤن ہے، مسجدوں میں جمعہ کی نماز نہیں ہورہی ہے وغیرہ وغیرہ۔ان متضاد خبروں سے پریشان ہوکر، میں نے ارادہ کرلیا کہ حالات کا جائزہ لینے اور لوگوں کے احوال کا اپنی کھلی آنکھوں مشاہدہ کرنے لیے میں خود کشمیر کا سفر کروں؛ تاکہ صحیح صورت حال کا علم ہوسکے۔ اپنے سفر کے بارے میں اپنے بزرگوں کو بھی اطلاع دینے سے گریز کرتا رہا؛ تاکہ وہ کہیں منع نا کردے یا پھر وہاں پہنچ کر میرے ساتھ کچھ ہوتا ہے؛ تو ان پر حرف نہ آئے۔ یہ بھی ممکن تھا کہ یہ سفر پریشانی کا بھی ہوسکتاتھا؛ اس لیے کسی کو ساتھ لینا بھی مناسب نہیں سمجھا اور اکیلا ہی چل پڑا۔ ذیل میں کچھ اسی سفر کی روداد مختصرا قلم بند کی جسے آپ قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہ رہا ہوں۔

سوشل میڈیا پر کشمیر کے حالات سن سن کر ایسا احساس ہونے لگا تھا کہ شاید کشمیر اب کوئی آتا جاتا نہیں ہوگا۔ میں بھی کچھ سہما ہوا تھا لیکن ایئرپورٹ پر کافی لوگ تھے اوریہ علم میں آکر حیرانی ہوئی کہ تمام فلائٹس برابر جا آرہے ہیں۔ بہرحال ایک عجیب سا خوف مجھ پر طاری تھا۔ ہوائی جہاز  مقررہ وقت سے تقریبا آدھا گھنٹہ پہلے ہی پہنچ گیا۔ میں ائیر پورٹ سے باہر آگیا۔  فوج اور پولس کے نوجوانوں کی چہل پہل تھی۔ پری پیڈٹیکسی کا کاؤنٹر کھلا دکھائی دیا۔لوگ کی آمد ورفت دیکھ کر کچھ اطمینان ہوا۔لینڈ لائن پر ایک صاحب کو میری آمد کا وقت بتا دیا گیا تھا اور وہی میرے میزبان ہونے والے تھے۔میں ایئر پورٹ سے باہر اپنے میزبان کے انتظار میں کھڑا رہا۔ موبائل فون پوری طرح سے بند ہیں۔ میں نے اپنا موبائل چیک کیااور اس کی تصدیق کی۔ لوگ حسب معمول گھوم پھیر رہے تھے۔ بہرحال میرے میزبان تشریف لائے۔ان کی کار میں سوار ہوکر، میں شہر کی طرف روانہ ہوا۔

ہر گلی کوچے کے سرے پر فوجی پہرا دیتے ہوئے دکھائی دیے۔ دکانیں بند تھیں۔ میں نے اپنے میزبان سے معلوم کیا؛ تو انہوں نے بتایا کہ دکانیں حکومت کے خلاف احتجاج میں بند ہیں۔صرف صبح میں کچھ وقت کے لیے کھلتی ہیں تاکہ ضروریات زندگی خرید سکیں۔ اسی طرح اسکول کالجیس بھی احتجاجی طور پر بند ہیں۔

مہاراشٹراور دہلی میں گرمی پڑرہی تھی، یہان سری نگر میں درجہء حرارت دس تھا اور مجھے کافی سردی لگ رہی تھی۔ میزبان نے فورا ایک جیکیٹ اور یہاں کے سردی کا خاص پہناوا جسے کشمیری زبان میں پھیرن کہا جاتا ہے دیا۔ ظہر کی نماز محلہ کی مسجد میں ادا کی۔ گھروں کے احاطہ میں سیب کا درخت تھا، جس پر سیب لگے ہوئے تھے۔ اسی طرح اخروٹ کا درخت بھی دیکھا۔

کھانے سے فارغ ہوکر، ہم فوری طور پر شہر کا جائزہ لینے کے لیے نکل پڑے۔ہر پچاس قدم پر ملٹری پہرا دیتی ہوئی دکھائی دی۔ ہم لوگ شہر کے بڑے بڑے ہسپتالوں کا دورہ کرتے رہے۔ سری نگر کا تاریخی لال چوک، مہاراجہ مارکیٹ،نہایت ہی حساس علاقہ ڈاؤن ٹاؤن وغیرہ دیکھتے ہوئے ہم دل جھیل کے قریب آئے۔ یہاں منظر کافی پرکشش تھا۔اس کے کنارے پر چلتے رہے، میزبان نے بتایا کہ آگے بہت سی خوبصورت جگہیں ہیں۔ اسی طرح شاہی چشمہ بھی ہے؛ لیکن اس سفر کا مقصد صورت حال کا جائزہ تھا۔ میں نے گاڑی واپس موڑنے کے لیے کہی اور شہر کے دوسرے حصوں کا جائزہ لینے کے لیے نکل پڑے۔

سری نگر کی جامع مسجد جہاں گزشتہ دوماہ سے جمعہ ادا نہیں کی گئی ہے، جب ہم وہاں پہنچے تو ملٹری کا پہرا تھا۔ میزبان نے انہیں بتایا کہ یہ مہمان ہیں اور مسجد کو اندر سے دیکھنا چاہتے ہیں؛ تو اس نے وہاں موجود پولس اہلکار سے بات کرنے کے لیے کہا۔ میں ان کے پاس گیا تو انہوں نے بتایا کہ مسجد کو تالا لگا ہوا ہے اور اندر جانا ممکن نہیں۔ میں نے تصویر لینے کی اجازت چاہی؛ تو انہوں نے اجازت دی۔جامع مسجد میں جمعہ نہ ہونے کی وجہ دریافت کرنے پر بتایا گیا کہ یہاں تقریبا ایک لاکھ لوگ نماز پڑھتے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد اگر ایک جگہ جمع ہوتی ہے؛ تو احتجاج اور حالات خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔
اس جائزہ کے بعد،میں عشاء کے وقت جائے قیام پر پہنچ کر، کھانا تناول کیا۔محلہ کے کچھااحباب ملنے کے لیے آئے۔ ان سے کشمیر کے حالات،مقامی لوگوں کا ردعمل اور ہندوستانی لوگوں سے ان کی امیدیں کیا ہیں، اس تعلق سے کافی دیر تک گفتگو ہوئی۔ موجودہ دور میں ہمیں موبائل کے بغیر زندہ رہنا ناممکن لگتا ہے؛ لیکن یہاں کشمیر میں لوگ موبائل کے بغیر بھی زندہ ہیں اور اسی وجہ سے عشاء کے بعد لوگوں کے ساتھ گفتگو کرنے میں جان تھی اور ہر ایک پوری طرح متوجہ ہوکر بات کررہا تھا۔

دوسرے روز فجر کی نماز علاقہ کی مسجد میں ادا کرکے، ناشتے وغیرہ سے فارغ ہوکر، مزید دو انتہائی حساس علاقے پلوامہ اور شوپیان کا دورہ کرنا تھا، چونکہ دہلی میں قیام کے دوران مجھے یہ تک معلوم نہیں تھا کہ کشمیر پہنچ کر کہاں رکنا ہے اور کیا صورت حال ہوگی، اس لیے میں نے دوسرے ہی دن کی ممبئی کے لیے فلائٹ میں سیٹ محفوظ کرالی تھی۔ راستے میں ایک صاحب جو کشمیر کی تاریخ اور حالات حاضرہ پر کافی معلومات رکھتے ہیں، اسی طرح کچھ رفاہی کاموں میں اپنا وقت دیتے ہیں سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ آپ کو آج کی فلائٹ سے جانا ضروری ہوتو پھر پلوامہ اور شوپیان کا دورہ ترک کردیجئے کہ وہاں بعض مرتبہ تفتیش کے لیے روک بھی سکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے اطلاع دیتے تو میں وہاں کے لیے پہلے سے انتظامات کرتا۔ دوسرا کام یہ کرسکتے کہ ہم تما م تعلیمی اداروں کا دورہ کریں گے اور وہاں کی صورت حال دیکھ لیجئے۔ میں نے سوچا کہ اگر کشمیر کے مسئلہ میں سنجیدگی سے کچھ کرنا ہے تو پھر یہاں زیادہ وقت دینا ہوگا اور زمینی سطح پر رہ کر ہر چیز کو سمجھنا ہوگا؛ لیکن اس مرتبہ میں خود بھی تیاری کے ساتھ نہیں آیا ہوں؛ اس لئے اس کو آئندہ قریب پر ڈالتے ہیں اور کشمیر کا مستقبل کیا ہوگا اس پر سنجیدگی سے سوچتے ہیں اور بقیہ وقت میں تعلیمی اداروں کا دورہ کریں گے۔

ہم نے تقریبا تین گھنٹے کشمیر کا حال اورمستقبل کو لیکر گفتگو کی۔ سب میں اہم چیز جو مجھے اس گفتگو سے حاصل ہوئی، وہ یہ تھی کہ کشمیری عوام کے احساسات کو نظر انداز کرکے کشمیر کا قضیہ کبھی حل نہیں ہوسکتا۔ جمعیۃ علماء ہند اس بات کو بار بار کہتی چلی آئی ہے کہ کشمیریوں کو چھوڑکر، کشمیرکی بات غیر معقول ہے۔ اگر کشمیری ہمارا نہیں تو پھر کشمیر بھی ہمارا نہیں۔پچاس سو لوگوں کو بھی جبر کے ساتھ ہمیشہ کے لیے اپنے ماتحت رکھنا ناممکن ہے؛ جب کہ یہاں تو زندہ دل، زندہ ضمیر آخرت پر ایمان رکھنے والے اسی لاکھ سے زیادہ لوگوں پران کے مرضی کے خلاف، کوئی بھی قانون نافذکرنے کا خواب دیکھنا، بالکل غیر اخلاقی اور غیر جمہوریت کی علامت ہے۔

بہر حال میٹنگ کے بعد، ہم لوگ شہر کے تعلیمی اداروں کاجائز ہ لینے کے لیے نکلے۔تمام ہی اداروں میں پانچ اگست کے بعد سے تعلیم بندہے۔ تمام ہی کالجیس اور اسکولوں میں طلبہ حاضر نہیں تھے۔دوران  جائزہ جھیلم ندی اور دودھ گنگا کے پاس سے بھی گزرنا ہوا۔دوپہر کا کھانا کھاکر، میں ایئرپورٹ کے لیے روانہ ہوگیا۔  سیکوریٹی کی وجہ سے، مجھے راستے پر جگہ جگہ پر رکنا پڑا۔ایئرپورٹ پر بھی عا م ایئرپورٹ کے مقابلے زیادہ سیکوریٹی تھی۔ تمام حفاظتی مراحل سے گزرکر بورڈنگ پاس حاصل کیا اور واپسی کے سفر کے دوران دل ودماغ پر کشمیر ہی کشمیر تھا۔
میری عقل وسوچ کے مطابق خلاصہ یہ ہے کہ   ”حکومت کا یہ کہنا کہ سب کچھ نارمل ہے، یہ درست نہیں ہے؛ کیوں کہ لوگ طرح طرح کی پریشانیوں سے دوچار ہیں۔ پھر سب کچھ نارمل کیسے کہا جاسکتا ہے۔ اسی طرح لوگوں کا یہ کہنا کہ وہاں گھروں سے نکلنے نہیں دیاجارہا ہے، عورتوں کی عزت لوٹی جارہی ہے، مردوں کو گھروں میں دفن کرنے کی نوبت آئی ہے، لوگ بھوک سے مررہے ہیں، ان باتوں میں بھی سچائی نہیں ہے۔“

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا