English   /   Kannada   /   Nawayathi

بندشوں کے باعث جموں و کشمیر میں ایک ارب ڈالر کا نقصان

share with us

سری نگر:09اکتوبر2019(فکروخبر/ذرائع)بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والی دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد وادی میں بندشوں اور قدغنوں کی وجہ سے اب تک ایک ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے۔
کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے تخمینے کے مطابق بندشوں کی وجہ سے اب تک علاقے میں کاروبار کی مد میں 1.4 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے اور ہزاروں نوکریاں ختم ہو چکی ہیں۔

مشتاق چائی ایک معروف تاجر اور کشمیر میں کئی ہوٹلوں کے مالک ہیں۔ وہ دو اگست کی دوپہر کو یاد کرتے ہیں جب انھیں انتظامیہ کی طرف سے ایک ’سکیورٹی ایڈوائزری‘ ملی۔

مشتاق چائی کہتے ہیں کہ ’وادی میں تین ہزار ہوٹل ہیں اور سبھی خالی پڑے ہیں۔ انھوں نے قرضے چکانے ہیں اور روزانہ کے اخراجات پورے کرنے ہیں۔‘

ان کے 125 افراد پر مشتمل عملے میں سے کچھ ہی لوگ کام پر موجود ہیں۔ اکثر عملہ ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی اور خوف کی وجہ سے نہیں آ سکا۔ علاقے میں کشیدگی ہے اور شہر میں کئی احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔

ایڈوائزری میں عسکریت پسندی کے خطرے کا ذکر کیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ ہندو یاتری اپنے دورے کو ختم کرکے جتنی جلدی ہو سکے واپس چلے جائیں۔

انہوں نے بتایا کہ جلد ہی سرکاری حکم کو لاگو کرنے کے لیے اہلکار آ گئے اور فوری طور پر مہمانوں کے جانے کا انتظام کیاگیا۔

تین دن بعد پانچ اگست کو مرکزی حکومت نے وادی کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی اور یہاں ہر قسم کا مواصلاتی رابطہ منقطع کر دیا۔ اس بند کے دوران چھوٹے بڑے تمام کاروبار بند ہوگئے۔ ان میں سے کچھ تو حکومت کے خلاف احتجاج کے طور پر بند ہیں جبکہ کچھ بھارت کی حکمرانی کے مخالف شدت پسندوں کے حملوں کے خطرے کی وجہ سے بند ہیں۔

بندش کی وجہ سے ہنر مند مزدوروں کی سخت کمی کا سامنا ہے کیونکہ جب سے بندشیں شروع ہوئی ہیں یہاں سے چار لاکھ افراد نقل مکانی کرچکے ہیں۔ گلیاں ویران ہیں اور وہ سیاحتی کاروبار بند ہیں جن سے تقریباً سات لاکھ لوگوں کا روزگار وابستہ تھا۔

تاہم حکومت کے اس اعلان کے بعد کہ جمعرات سے سیاحوں کو آنے کی اجازت دے دی جائے گی شاید آنے والے دنوں میں حالات بہتر ہو جائیں۔

بندش کی وجہ سے سری نگر کے مشہور ڈل جھیل میں تقریباً ایک ہزارے شکارے بھی خالی پڑے ہیں۔کشمیر ہاؤس بوٹس ایسوسی ایشن کے حامد وانگنو نے کہا کہ ’ہر شکارے کی دیکھ بھال کے لیے ہر سال تقریباً سات ہزار ڈالر چاہییں اور بہت سے لوگوں کے لیے یہ واحد ذریعہ معاش ہے۔‘

وہیں چیمبر آف انڈسٹری کے صدر شیخ عاشق کہتے ہیں کہ ’صرف قالینوں کی صنعت میں پچاس ہزار سے زیادہ نوکریاں ختم ہو چکی ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ عام طور پر جولائی سے ستمبر تک قالین بنانے والے آرڈر لیتے ہیں، خصوصاً بیرون ممالک سے، تاکہ وہ کرسمس تک قالین بنا کر آرڈر مکمل کر سکیں۔

ان کے مطابق مواصلاتی رابطے منقطع ہونے کی وجہ سے وہ درآمد کرنے والوں سے دور کی بات اپنے ہی ملازمین سے رابطے نہیں کر سکے ہیں۔

جنوبی کشمیر کے مشہور سیب ابھی تک درختوں پر لٹک رہے ہیں اور ان کو درختوں سے توڑنے والے موجود نہیں۔ دکانیں اور کولڈ اسٹور بند ہیں اور مرکزی منڈی خالی پڑی ہے۔ مقامی کسان کے مطابق گذشتہ سال اس نے 197 ملین ڈالر کا کاروبار کیا تھا۔

ایک مقامی کسان نے اپنا نام ظاہر کیے بغیر کہا: ’درختوں پر لٹکتے سیب دیکھ کر مجھے اتنی تکلیف ہوتی ہے کہ میں نے اپنے باغ میں جانا چھوڑ دیا ہے۔‘

صحافی مسعود حسین کے مطابق سیب کشمیر کی معیشت کا 12 سے 15 فیصد حصہ ہیں لیکن اس سال آدھی سے زیادہ پیداوار درختوں سے اتاری ہی نہیں گئی۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا