English   /   Kannada   /   Nawayathi

اسمبلی انتخابات: کیا کیا ہو سکتا ہے مہاراشٹر اور ہریانہ میں؟

share with us

سید خرم رضا

21 اکتوبر کو ہریانہ اور مہاراشٹر میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں اور ان کے نتائج 24 اکتوبر کو آ جائیں گے۔ اس وقت دونوں ریاستوں میں بی جے پی بر سراقتدار ہے اور اگر عام انتخابات کے نتائج کو نظر میں رکھا جائے تو کوئی بھی فوری طور پر یہ کہہ سکتا ہے کہ بی جے پی کے لئے ان انتخابات میں کوئی مشکل نہیں ہے، لیکن کیا یہ صحیح تجزیہ ہوگا۔ نریندر مودی کے علاوہ بی جے پی ان انتخابات میں اپنے وزراء اعلی کے چہروں کو ہی آگے رکھے گی۔

ہریانہ میں کل 90 نشستوں کے لئے جبکہ مہاراشٹر میں 288 نشستوں کے لئے انتخابات ہونے ہیں۔ ابھی دونوں ریاستوں میں کل 378 نشستوں میں سے کانگریس کے پاس صرف 51 سیٹیں ہیں، جبکہ اس سے پہلے دونوں ریاستوں میں کانگریس کی حکومت تھی لیکن 2014 کی مودی لہر میں ان ریاستوں میں بی جے پی کا دبدبہ رہا تھا۔ دونوں ریاستوں میں موجودہ حکومت کی ساکھ اچھی نہیں ہے اور اگر بی جے پی یہاں دوبارہ اقتدار میں آتی ہے تو اس کی وجہ تنظیمی طور پر حزب اختلاف کا کمزور ہونا اور وزیر اعظم نریندر مودی کی شاندار مارکیٹنگ۔

ویسے بی جے پی کے لئے ان ریاستوں میں سب کچھ اچھا نہیں ہے۔ ان ریاستوں میں جہاں ریاستی حکومت سے ناراضگی ہے وہیں ملک میں جو اقتصادی مندی کے بادل چھائے ہوئے ہیں اس کو لے کر عوام میں حکومت کے خلاف زبردست بے چینی ہے۔ مرکزی وزیر خزانہ نے کارپوریٹ گھرانوں کے لئے ضرور راحت کے کچھ اعلانات کیے ہیں، لیکن ان اعلانات سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام کے پاس پیسہ نہیں ہے، نوجوانوں کو روزگار مل نہیں رہے، بر سر روزگار کے اوپر چھٹنی کی تلوار لٹکی ہوئی ہے، کسانوں میں زبردست ناراضگی ہے اس لئے ان دونوں ریاستوں میں بی جے پی کو دو حکومتوں کی ناراضگی جھیلنی پڑے گی، ایک ناراضگی ریاستی حکومت کی دوسری ناراضگی مرکزی حکومت کی۔

مہاراشٹر میں بی جے پی اور شیو سینا کے جو نرم گرم رشتے ہیں اس کا بھی ان کو نقصان ہو سکتا ہے کیونکہ ابھی حال ہی میں اقتصادی حالات کو لے کر شیو سینا نے مرکزی حکومت کی کافی تنقید کی تھی۔ یہ تنقید چاہے سیٹوں کی سودے بازی کو لے کر ہی کیوں نہ ہو مگر اس سے حزب اختلاف کو تقویت ملتی ہے اور عوام میں اتحاد کو لے کر ناراضگی بڑھتی ہے۔ ادھر ہریانہ میں چوٹالہ کا سیاست سے تقریباً ختم ہونے کی وجہ سے جاٹ ووٹوں میں تقسیم نہیں ہوگی اور جاٹوں کا بڑی تعداد میں ووٹ کانگریس کو مل سکتا ہے جبکہ بی جے پی کے غیر جاٹ ووٹوں میں تقسیم ہو سکتی ہے، کیونکہ ہریانہ کانگریس کا صدر شیلجہ چودھری کو بنا دیا ہے اور ان کا تعلق دلت سماج سے ہے۔

ان سارے آنکڑوں کو نظر میں رکھا جائے تو ان دونوں ریاستوں میں بی جے پی کے لئے راہ اتنی آسان نہیں ہے جتنی تجزیہ نگار سمجھ رہے ہیں اور اس بات کو دھیان میں رکھنا ضروری ہے کہ یہ انتخابات مودی کے لئے نہیں ہیں۔
 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

21ستمبر2019(فکروخبر)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا