English   /   Kannada   /   Nawayathi

اہل سیمانچل کی پستی اور اس کے اسباب!

share with us

تحریر: محمد انتخاب ندوی

تاریخ شاہد ہے کہ سرزمین بہار نے پورے ہندوستان بلکہ پورے عالم کی تہزیب و تثقیف اور اصلاح معاشرہ کیلئے ایسی ایسی بے نظیر شخصیات کو جنم دیا ہے جنہوں نے قلمی؛ لسانی؛ تقریری اور انشائی ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے پرخطر حالات سے بے باکی کے ساتھ نبرد آزما ہوے جنہوں نے سرزمین لکھنؤ میں ایشیاء کے مشہور و معروف ادارہ ندوۃ العلماء کی بنیاد ڈالی کر منتشر شیرازہ کو جمع کرنے؛ ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنے اور آپسی ناچاقیوں اور نااتفاقیوں کو مٹانے کا مہتم بالشان فریضہ انجام دیا ہے جنہوں نے مجمع الفقہ الاسلامی اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی بنیاد ڈال کر شریعت اسلامیہ کے محرفین کو دندان شکن جواب دیا ہے اس طرح ایسے بہت سے زندہ و جاوید نقوش ہیں جو صدیوں تک زمانے کو معطر کرتے رہیں گے اور جو حداحصا سے متجاوز  ہیں۔ لیکن ان تمام قربانیوں کے باوجود آج ہمارے بہار بالخصوص سیمانچل کے بچے تعلیمی میدان میں در در کی ٹھوکریں کھاتے ہوئے نظر آتے ہیں اپنے چمن کو ویران سمجھ کر دوسروں کے دیدہ زیب اور معطر چمن کی خوشبوؤں کو کشید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اپنے دستر خوان شیراز کو چھوڑ کر دوسروں کے دسترخوان کے پس خوردہ پر اکتفا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اپنے وطن کی محبت سے بیگانہ ہو کر دوسروں کے عصائے عصبیت اور تعصب پرستی کا نشانہ بننے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ایسے لمحہ فکریہ کے موقع پر اگر ان سے پوچھا جائے کہ آخر اپنے وطن کو داغ مفارقت دے کر دوسروں کے وطن کے جزء لازم کیوں بنتے ہو؟ کیوں آپ میکدہ وطن کو چھوڑ کر دوسروں کے میکدوں سے جام بھرنے کی کوشش کرتے ہو ؟تو ان کا جواب صرف اور صرف یہ ہوتا ہے کہ اب ہماری سرزمین وہ سرزمین نہ رہی جہاں علم وفضل کا چشمہ پھوٹتا تھا، ہماری سرزمین تو قحط العلماء بلکہ قحط المدارس کا شکارہوچکی ہے، فرعونیت رقص کرنے لگی ہے، قارونیت دندناتی پھر رہی ہے،مدارس اسلامیہ اختلاف و انتشار کے باعث ویرانی کے شکار ہو رہے ہیں، باصلاحیت ولیاقت اساتذہ ذہنی تناؤ اور فکری الجھن کی بنیاد پر اپنے وطن محبوب کو الوداع کہہ کر دوسرے صوبوں اور اسٹیٹ کو علمی و دینی گہوارہ بنانے کی فکر کرنے لگے ہیں، جس کا نتیجہ ہے کہ ہمارے بہار بالخصوص سیمانچل کے علاقوں میں ٩٥ فیصد مساجد ایسی ہیں جس میں امامت کے مہتم بالشان اور عالی شان فریضہ کو وہ حضرات انجام دے رہے ہیں جن میں امت کی قیادت کا پر تو بھی نظر نہیں آتا ہے، جو دینی ، علمی اور دعوتی اعتبار سے بالکل بےخبر نظر آتے ہیں جنہیں نہ قرآن کی صحیح ادایگی کا طریقہ معلوم ہے اور نہ ہی مقتدی حضرات کے سامنے اسلامی و دینی موضوعات پر دو چار بول بولنے کا ڈھنگ جس کی وجہ سے جہاں ایک طرف بیچارے عوام دنیا وما فیہما کے سنگین حالات اور اسلام کے خلاف مسلسل رچی جانے والی سازشوں کے سلسلہ میں بہرے اور گونگے نظر آرہے ہیں؛ تو وہیں دوسری طرف مسجدوں میں دینی مکاتب کے فقدان کے سبب چھوٹے اور معصوم بچوں کی زندگی شیطانی وساوس کی نظر ہو رہی ہے اور موجودہ نسل تیزی کے ساتھ ہلاکت کے دہانے کی طرف پیش قدمی کر رہی ہے جسکی طرف اشارہ کرتے ہوئے سر زمین بہار کے"النور ایجوکیشنل"کے کنوینر حضرت مولانا ذوالفقار صاحب ندوی دامت برکاتہم یوں رقم طراز ہیں بہار خصوصاً سیمانچل کے علاقوں میں جو تعلیمی بحران ہے کوی مخفی امر نہیں؛ یہاں کی عوام خصوصاً غریب طبقہ میں تعلیم کا نہ کوئی صحیح رجحان ہے اور نہ ہی اس کی طرف پوری توجہ؛ جس کا نتیجہ ہے کہ ہمارے معاشرہ میں بچوں کی ایک بڑی کھیپ کھیل کود میں اپنا وقت ضائع کرتے نظر آتی ہے؛ جو بڑے ہو کر ہمارے معاشرہ کا فاسد جز بن جاتے ہیں؛ نتیجتاً یہ خطہ پسماندہ سمجھا جانے لگا ہے ہاں! اس حقیقت سے بھی ان کار نہیں کہ اس جاں بلب معاشرہ میں بھی بہت سے ایسے افراد ہیں؛ جو اپنے بچوں کو اعلی تعلیم وتربیت سے آراستہ کرکے معاشرہ کا صالح جز بنانا چاہتے ہیں؛ لیکن اس خطہ میں کوئی ایسا معیاری ادارہ انہیں دستیاب نہیں ہوتا جہاں بہتر تعلیم کے ساتھ سہولیات کا بھی خیال رکھا گیا ہو ؛ جس کی وجہ سے والدین اپنی اولاد کو آبای وطن سے دور بھیجنے پر مجبور ہوتے ہیں ؛جہاں ان کو طرح طرح کی پریشانیوں کا سامنا ہوتا ہے، اور ان سے بھید بھاؤ برتا جاتا ہے، ان میں سے بہت سے والدین اپنے جگر کے ٹکڑے کو اپنی نگاہوں سے اوجھل نہیں کرنا چاہتے ہیں اور پھر اپنے خواب کو سینہ میں دفن کر دیتے ہیں۔

عصبیت اور تعصب پرستی کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ سر زمین گجرات کے دو مشہور و معروف ادارے میں (١) فلاح دارین تر کیسر (٢) اور ڈابھیل میں داخلہ کے وقت سر زمین بہار سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی امیدوں پر پانی پھیر دیا جاتا ہے اور راقم الحروف دو ٹوک صاف لہجوں میں یہ بھی کہنے اور رقم کرنے پر مجبور ہے کہ سرزمین اترپریش جس کو نکھارنے اور سنوارنے میں اگر وہاں کے باشندگان نے قربانی دی ہے؛ تو ہم نے بھی اپنا خون بہایا ہے ؛ اس کے باوجود ہمارے طلبہ بہار کے ساتھ اکثر مدارس میں بھید بھاؤ کا سلوک کیا جاتا ہے؛ ان کی پوزیشن اور مقام کو گرانے کی فکر کی جاتی ہے؛ کیا ان کا جرم یہ کہ ان پر بہار کا لیبل لگا ہے؟؟ اے مؤقر قارءین کرام!  سوال یہ ہے کہ آخر ہمارے ھی ساتھ ایسا سلوک کیوں کیا جاتا ہے؟ آخر وہ کون سی خرابی ہمارے اندرون میں پنپ رہی ہے؟ جس کے برے نتائج ہمارے بچوں کے سامنے آرہے ہیں؛ جن کی بنیاد پر ہماری سیدھی عمارت بھی دوسروں کو ٹیڑھی نظر آتی ہے۔

 

جی ہاں! محترم قارئین! ہم نے اپنے بچوں کی ابتدائی زندگی سے بذات خود کھلواڑ کیا ہے؛ ان کو بے یارومددگار چھوڑ کر اپنی زندگی کو خوبصورت بنانے اور اپنی شکل وصورت کو مزین کرنے کی ہمہ وقت کوشش کی ہے؛ جس عمر میں بچوں کو نورانی قاعدہ؛ بغدادی قاعدہ؛ زبان اردو؛ اللہ اور اس کے رسول کی محبت و معرفت اور انبیاء کرام کے قصے سنا کر ان کی زندگی کو تابناک بنانا چاہئے تھا اس عمر میں ان کو ہم نے گولی؛ ڈنڈا؛ گیند؛ بلا؛ غرض تمام لغویات کو حسین گلدستہ کی شکل میں عظیم تحفہ سے نوازا؛ جس عمر میں بچوں کو قرآنی الفاظ اور آیات یاد کرانا چاہے تھا اس عمر میں ہم نے ان کو گالیوں ؛ گانوں اور فحش باتوں کی گردان رٹانے اور یاد کرانے کی کوشش کی؛ تو کیا ہمارا بچہ قوم و ملت کا قائد اور رہنما بن سکتا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں؛ کیا وہ سرزمین بہار کے مستقبل کے اندھیاروں کے لئے روشن چراغ بن سکتا ہے؟ نہیں ہر گز نہیں؛ تو اس کا ذمّے دار کون؟ کیا اس بد حالی اور تاریکی کی ذمہ داری ان نادان بچوں کے سر جائے گی یا ان احباب ثروت کے سر ؛ جنہوں نے اپنے کام و دھن کی عارضی لذت کی خاطر اپنے جسم و تن کی وقتی خوبصورتی کی خاطر شب وروز موسلا دھار بارش کی طرح لغویات اور منہیات میں دولت لٹانے میں مقابلہ کرتے ہیں اور اپنی اولاد کو انجنیئر؛ ڈاکٹر؛ پروفیسر؛ پایلیٹ بنانے کی خاطر لاکھوں اور کروڑوں کی دولت بہا کر قرآن و حدیث اور فقہ کے بنیادی مسائل سے جاہل رکھ کر فخر سے سینہ چوڑا اور متکبرانہ لب و لہجہ اختیار کرتے ہیں؛ انہیں چاہئے تھا کہ قریہ قریہ گاؤں گاؤں مسجد مسجد مکاتب کا جال قرآن و حدیث کا نغمہ سنانے کے اسباب مہیا کراتے تاکہ ان کے نونہالوں کی زندگی اس ایمان سوز؛ اخلاق سوز ؛ کردار سوز فضا سے مامون و محفوظ ہو جاتی اور عند اللہ حساب یسیر کا سامنا کرتے۔

 

بہر کیف!  جہاں ایک طرف ہماری قوم دینی تعلیم کے اعتبار سے آخری سانس لے رہی ہے؛ تو وہیں دوسری طرف اخلاقی بیماری کی وجہ سے مرگ بستر پر کراہ رہی ہے؛ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ آج ہماری قوم کے اصحاب ثروت نے اپنے عروج وترقی کی خاطر ان بیچارے اور مسکینوں سے نظریں پھیر لی ہیں؛ جنہیں نہ سر چھپانے کے لئے گھر نصیب ہے نہ پیر پھیلانے کے لئے آنگن ؛ جو کھلے آسمان کے نیچے شبنم کی آغوش میں رات گزارنے پر مجبور ہیں؛ جن کے بچے "ماں بھوک لگی ہے" ماں بھوک لگی ہے" کی صدا بلند کرتے ہوئے بھوک کی حالت میں رات کی تنہائیوں میں آنکھ بند کر لیتے ہیں۔ جن کے دُلارے سردی کے ایام میں" ماں سردی لگ رہی ہے" کی آہیں نکال نکال کر نم آنکھوں کے ساتھ ہچکیاں لیتے ہوئے موسم سرما گزار دیتے ہیں؛ لیکن اس کے باوجود ہماری سخت زمین ان کے لئے نرم نہیں ہوتی؛ ہماری مردہ حمیت ان کے تیں  بیدار نہیں ہوتی- 

بہر حال! یہ داستان دل کب تک رقم کرتا رہوں گا؛ موجودہ حقائق کا دیا کب تک روشن کرتا رہوں گا؛ اب تلک جو ہوا سو ہوا لیکن اب ہمیں عزم جواں کا پیکر، مضبوط ارادہ کا مجسم، صدق و صفا کا مرقع بن کر قوم و ملت کے ٹمٹماتے ہوئے چراغ کو روشن کرنا پڑے گا، اور جانے مالے درمے سخنے ہر اعتبار سے ہمیں تیار ہوکر قوم و ملت کا خادم بننا پڑےگا۔

مضمون نگارکی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

21ستمبر2019(فکروخبر)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا