English   /   Kannada   /   Nawayathi

امید اور نا امیدی کے بیچ مودی حکومت کے 100 دن

share with us


ڈاکٹر مظفر حسین غزالی 

نریندرمودی کی سربراہی میں بی جے پی حکومت نے دوسری میقات کے سو دن پورے کر لئے ہیں۔ اس دوران لئے گئے تاریخی فیصلوں نے دیش اور دنیا پر اثر ڈالا ہے۔ عالمی حمایت نے ملک کا پرچم بلند کیا ہے۔ حالانکہ اب بھی حکومت کے سامنے کئی چیلنج ہیں، جن سے نبٹنے کیلئے اس نے اگلے سو دن کے منصوبہ پر کام شروع کر دیا ہے۔ آئیے حکومت کے اہم فیصلوں اور منصوبوں کا جائزہ لیں۔ 

دفعہ 370 اور A35 کو پہلے سو دن میں ہٹایا جانا ملک کے مفاد میں سب سے اہم فیصلہ مانا جا رہا ہے۔ بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں ان دفعات کو ہٹانے کا وعدہ کیا تھا۔ 5 اگست کو مرکزی حکومت نے جموں۔کشمیر سے نہ صرف ان دفعات کو ختم کیا بلکہ ریاست کو بھی مرکز کے زیر تحویل دو ریاستوں میں تقسیم کر دیا۔ جموں۔ کشمیر میں دہلی کی طرح اسمبلی ہوگی جبکہ لداخ کی حیثیت چنڈی گڑھ جیسی رہے گی۔ دفعہ 370 اور A35 کی نوعیت اپنے نفاذ کے وقت عارضی تھی۔ انہیں ختم کئے بغیر آئین ساز اسمبلی تحلیل ہو گئی۔ اس لئے ان دفعات کو مستقل تصور کر لیا گیا۔ اپوزیشن اور ملک کے جمہوریت پسند عوام و دانشوروں کو حکومت کے ان دفعات کو ختم کرنے کے طریقہ سے اختلاف ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ کشمیری عوام کو اعتماد میں لے کر یہ قدم اٹھانا چاہئے تھا۔ ایک ماہ سے زیادہ وقت گزرنے کے بعد بھی وہاں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔ وادی کے حالات کو جلد معمول پر لانا حکومت کے لئے بڑا چیلنج ہے۔ دوسری طرف این آر سی میں چھوٹے لاکھوں لوگوں کو بھی سرکار کے اگلے قدم کا انتظار ہے۔ 

پہلی میقات میں ہی مودی حکومت نے تین طلاق کے خاتمے کی شروعات کر دی تھی، لیکن اپوزیشن کی مخالفت کی وجہ سے اسے کامیابی نہیں ملی۔ دوسری میقات میں ترجیحی بنیاد پر حکومت نے مسلم میرج پروٹیکشن بل کو دونوں ایوانوں سے پاس کرا کر قانون بنا دیا۔ یکم اگست 2019 سے ایک نشست میں تین طلاق دینا قانوناً جرم بن گیا ہے۔ طلاق ثلاثہ قانون بننے میں مسلم پرسنل لاء  بورڈ کی نا اہلی کا دخل بھی کم نہیں ہے۔ اس کی ناعاقبت اندیشی شاہ بانو معاملہ میں بھی سامنے آئی تھی۔ 

انتخابات سے ٹھیک پہلے مودی حکومت نے کسان سمان یوجنا کے تحت 6000 روپے سالانہ دینے کا اعلان کیا تھا۔ الیکشن کے بعد کابینہ کی پہلی میٹنگ میں اس اسکیم کو منظور کر لیا گیا۔ اس سے 14 کروڑ کسانوں کو 6.37 کروڑ روپے کی مالی مدد ملے گی۔ وزیراعظم کسان مان دھن اسکیم کے تحت پانچ کروڑ چھوٹے و مجھولے کسانوں کو تین ہزار روپے ماہانہ پینشن دینے کا منصوبہ ہے۔ حکومت نے کسان کریڈٹ کارڈ پر بھی بڑا فیصلہ لیا ہے، تاکہ وہ سستی شرح پر بنکوں سے پیسہ لے کر کھیتی کو آگے بڑھا سکیں۔ کابینہ نے تین کروڑ خودرہ تاجروں اور غیر منظم مزدوروں کو 60 سال کی عمر کے بعد ماہانہ پینشن دینے کا فیصلہ لیا ہے۔ 

یکم ستمبر سے نیا موٹر قانون لاگو کیا گیا ہے۔ اس میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں سے بھاری جرمانہ وصولنے کا التزام ہے۔ مرکزی وزیر ن?تن گڈکری نے کہا کہ اس سے سڑک حادثات میں کمی آئے گی اور لوگ لاپرواہی سے گاڑی چلانے سے بچیں گے۔ اس فیصلہ کی عوام میں مخالفت شروع ہو گئی ہے۔ عوام کے غصہ کو دیکھتے ہوئے گجرات، مہا راشٹر، اتراکھنڈ اور گوا کی حکومتوں نے جرمانہ کے سلیب میں کمی کی ہے۔ جلد ہی کچھ اور ریاستیں بھی اس میں تخفیف کر سکتی ہیں۔ نئے موٹر قانون کے لاگو ہونے سے انشورنس کمپنیوں اور پولیوشن جانچ سینٹرز کی چاندی ہو گئی ہے۔ اس کا فائیدہ حکومت کے ساتھ کارپوریٹ سیکٹر کو ہی ہوگا۔ 

یوم کھیل کے موقع پر وزیراعظم نے کلین انڈیا کی طرز پر فٹ انڈیا مہم شروع کی ہے۔ اس مہم کو اسکول، کالج، ضلع، بلاک کی سطح پر مشن کی طرح چلایا جائے گا۔ ان سو دنوں کے درمیان ہر گھر کو صاف پانی مہیا کرانے اور سنگل یوز پلاسٹک کچرے سے نجات کا بھی منصوبہ بنایا گیا ہے۔ عالمی مندی کی آہٹ کے باوجود یوم آزادی کے موقع پر وزیراعظم نے ملک کی معیشت کو پانچ ٹریلین ڈالر کرنے کا مشکل ہدف طے کیا ہے۔ وہ انڈیا کو دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت والا ملک بنانا چاہتے ہیں۔ اس کے لئے سرمایہ کاری بڑھانے، ٹیکس سرچارج کو واپس لینے، سستا لون فراہم کرنے، بنکوں کو ضم کر ان کا این پی اے کم کرنے، انفراسٹرکچر میں سو کروڑ کی سرمایہ کاری کر روزگار بڑھانے جیسے قدم اٹھائے گئے ہیں۔

 وزیراعظم نریندرمودی نے ریاستوں سے اپنی خاص صلاحیتوں کو پہچاننے کی صلاح دیتے ہوئے کہا ہے کہ جی ڈی پی بڑھانے کی پہل ضلع کی سطح سے ہونی چاہئے۔ سوال یہ ہے کہ اس وقت ملک جس اقتصادی بحران سے گزر رہا ہے، اور لوگوں کی نوکریاں جا رہی ہیں۔ اس سے نبٹنے کے لئے سرکار کیا کر رہی ہے۔ سبرامنیم سوامی کا کہنا ہے کہ ہماری معیشت میں ایسا بحران 1947 کے بعد کبھی نہیں آیا۔ حکومت اس سے نبٹنے کی تدابیر تلاش نے کے بجائے میڈیا کو مینیج کرنے میں لگی ہے۔ سو دنوں کے دوران سرمایہ کاروں کے اسٹاک مارکیٹ میں 24 لاکھ کروڑ ڈوب چکے ہیں۔ جی ڈی پی پانچ سے بھی نیچے ہے۔ آٹو سیکٹر مندی کی مار جھیل رہا ہے۔ پچاس ہزار سے زیادہ لوگوں کی نوکری جا چکی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ پارلے جی کو بھی اپنے دس ہزار ملازمین کی چھٹی کرنے کے لئے مجبور ہونا پڑا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دیہی معیشت کی حالت اور زیادہ نازک ہے۔ 

ہیلتھ ایجوکیشن اور سہولیات میں اصلاح کے لئے میڈیکل کونسل ترمیمی بل 2019 پاس کرایا گیا ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی کا ڈرافٹ بھی حکومت کو انہیں ایام میں ملا ہے۔ سیکورٹی فورسز کو مضبوط کرنے کے لئے سرکار نے چیف آف ڈیفنس اسٹاف (سی ڈی ایس) کی تقرری کا فیصلہ لیا ہے۔ اس سے فورسز کی کارکردگی اور بہتر ہونے کی امید جتائی جا رہی ہے۔ غیر مقیم ہندوستانیوں کے حق میں بھی بڑا فیصلہ لیا گیا ہے۔ پہلے انہیں آدھار کے لئے 180 دن انتظار کرنا پڑتا تھا۔ اب 180 دن انتظار کی پابندی کو ختم کر دیا گیا ہے۔ 

پہلے کے مقابلہ وزیراعظم نے ان سو دنوں میں زیادہ بیرونی دورے کئے ہیں۔ انہیں متحدہ عرب امارات، بحرین اور روس کے ذریعہ سب سے بڑے شہری اعزاز سے نوازا گیا ہے۔ بھارت اپنے خارجہ تعلقات اور عمدہ سفارت کاری کے ذریعہ ہی پاکستان کو الگ تھلگ کرنے میں کامیاب ہوا ہے، اور امریکہ جیسے ملک کو کشمیر معاملہ میں ثالثی کے لئے نہ کہہ سکا۔ اسے سیکورٹی کونسل کے ذریعہ مسعود اظہر کو عالمی دہشت گرد قرار دلانے میں بھی کامیابی ملی۔ حکومت نے غیر قانونی سرگرمی کی روک تھام کے لئے UAPA میں ترمیم کر کافی سخت کر دیا ہے۔ اب ادارہ ہی نہیں کسی خاص شخص کو بھی دہشت گرد قرار دیا جا سکتا ہے۔ پارلیمنٹ میں بحث کے دوران اس کے غلط استعمال کو لے کر کئی طرح کے شک و شبہات کا اظہار کیا جا چکا ہے۔ اب یہ آنے والا وقت بتائے گا کہ اس کا استعمال کیسے ہوتا ہے۔

اس سال کے آخر تک چار ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں اپنی کارکردگی کی بنیاد پر کامیابی دلانے کا نریندر مودی جی کے سامنے چیلنج ہے۔ انہوں نے عوام سے سیدھے مکالمہ شروع کر دیا ہے۔ روہتک ہریانہ کی ریلی میں انہوں نے کہا کہ حکومت عوامی حمایت سے ہی بڑے فیصلے لے پائی ہے۔ پھر چاہے جموں کشمیر لداخ کا معاملہ ہو یا پھر سنگین ہوتا پانی کا بحران۔ انہوں نے کہا کہ چندریان 2 نے پورے ملک کو جوڑ دیا ہے۔ اب ملک کامیابی اور ناکامی سے پرے نظر آتا ہے۔ پارلیمنٹ کا مزاج بھی بدلا ہے۔ 17 ویں لوک سبھا کا پہلا اجلاس 1952 کے بعد سب سے کامیاب رہا۔ اس کی 37 نشستوں میں 36 بل پاس ہوئے۔ ایوان میں ہر روز اوسطاً 8 گھنٹہ اور کل 280 گھنٹے کام ہوا۔ سو دنوں میں لئے گئے فیصلے امید اور نا امیدی کے بیچ دکھائی دیتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عوام ان سے کتنے مطمئن ہوتے ہیں اور ان کی زندگی میں کوئی بدلاؤ آتا بھی ہے یا نہیں۔ 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کامتفق ہوناضروری نہیں ہے

18ستمبر2019(فکروخبر)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا