English   /   Kannada   /   Nawayathi

جمہوری ہندوستان میں پولس کے مظالم اور جانبداری کا مظاہرہ جاری ہے

share with us


عارف عزیز(بھوپال)
    ہندوستان میں جس جمہوری نظام کو اپنایا گیا ہے اور جس کا پوری دنیا کے سامنے نہایت فخر بلکہ طمطراق کے ساتھ اظہار کیا جاتا ہے اس میں ”حقیقی حاکم“ عوام ہیں اور سرکاری حکام سے لیکر نیچے درجہ کے ملازمان تک سبھی ”عوام کے خادم“ ہوتے ہیں، یہ باتیں آئین وقانون کی کتابوں میں ہی درج نہیں عام طور پر تقریروں اور تحریروں میں بھی خوب بیان کی جاتی ہیں، دستور اور اس کے نفاذ یا انتظامیہ وپولس کے کردار کے بارے میں جب بھی سیمینار ومذاکرے ہوتے ہیں تو وہاں بھی یاد دلایا جاتا ہے کہ سرکاری انتظامیہ کے کل پرزے بالخصوص خاکی وردی والے عام لوگوں کے نگہبان اور خادم ہیں اور ان کو اپنا یہ کردار نبھانا چاہئے۔
    لیکن جب بھی عمل کا موقع آتا ہے تو ہمارے ملک کے عام لوگ انگریزوں کے دور غلامی کو یاد کرنے لگتے ہیں کیونکہ اس زمانہ میں غلام ہندوستان کی پولس جتنی فرض شناس تھی آج آزاد ہندوستان میں اتنی ہی بے لگام ہوچکی ہے، پرانی نسل کے لوگ، بزرگ شہری اور باپ دادا کا تجربہ ہے کہ پچھلے زمانہ میں قانون وضابطہ کی پابندی آج سے کہیں زیادہ تھی، حقوقِ انسانی کو آج کی طرح پامال نہیں کیا جاتا تھا اور اگر کہیں کسی پر زد پڑتی تھی تو اسے انصاف ملنے کا یقین ہوتا تھا،ا س زمانہ کے گورے آقاؤں کی بھی یہ ہمت نہیں ہوتی تھی کہ وہ قانون وضابطہ کی خلاف ورزی کریں اور بچ جائیں۔
    جبکہ آج ایک عام آدمی اپنے گھر سے نکلتا ہے تو ہر قدم پر اسے خوف ہوتا ہے کہ کتابی قانون وضابطوں کو بالائے طاق رکھ کر کب کون خاکی وردی والا اس کے ساتھ مجرموں کا برتاؤ شروع کردے کیونکہ آج اصل قانون وضابطہ وہ ہے جو کرسی نشیں یا وردی دھاری شخص کی زبان سے نکل رہا ہے، یہ ایک ایسی تلخ سچائی ہے جس سے ہندوستان کے عام شہریوں کا قدم قدم پر واسطہ پڑتا ہے اور انہیں زبان سے نہیں تو عمل سے ضرور یہ باور کرایا جاتا ہے کہ وہ صاحبانِ اقتدار واختیار یا اس کے ماتحت عملہ کے سامنے مجبور محض ہیں، خود ہماری جمہوری سرکاریں بھی عوام کی بھلائی ان کے تحفظ اور خیر خواہی کے نام پر نت نئے قانون بناکر، ضابطے مرتب کرکے اور طریقہ کار وضع کرکے اپنی افسر شاہی کی فطرت کو تقویت پہونچاتی ہیں۔ ٹاڈا، پوٹا یا پوٹو یا اسی قسم کے دوسرے ایکٹ ان سب کا ایک ہی مقصدرہا ہے کہ ”عوامی خادموں“ یعنی سرکاری عملہ کو جوابدہی سے بالاتر ہوکر اور حقیقی حکمرانوں یعنی ”عام شہریوں“ کو نت نئی پابندیوں میں باندھنا۔
    جمہوری ہندوستان کے سرکاری افسران وملازمان خصوصیت سے پولس عملہ کے سامنے عام شہری کتنے مجبور محض ہیں اس کی مثالیں آئے دن ملتی رہتی ہیں اور بعض اوقات کچھ ایسے واقعات بھی سامنے آتے ہیں جن کو بھگت کر یا دیکھ کر ہر ہندوستانی کو خیال ہوتا ہے کہ اگر یہی آزادی ہے، یہی جمہوریت ہے تو اس سے کہیں بہتر دور غلامی تھا جس میں کم از کم خاکی وردی کا ایسا رعب وخوف تو نہ تھا کہ عام لوگ اپنی عزت خطرہ میں محسوس کرنے لگیں۔ پولس عملہ جب چاہے کسی کو بھی تشددوبربریت کا نشانہ بنادے جیسا کہ آئے دن دیکھنے میں آرہا ہے خاص طور پر اقلیتوں کو کس طرح الزامات میں پکڑا جارہا اور فرضی الزامات لگاکر مقدمات چلائے جارہے جن کا سالوں چلنے کے بعد جب فیصلہ ہوتا ہے تو بیقصور بری ہوتے ہیں لیکن خطاکار پولس عملہ کے مواخذہ کا کوئی نظام نہ ہونے سے وہ قانون کی گرفت سے باہر رہتے ہیں اور ان کی دست درازی جاری رہتی ہے۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کامتفق ہوناضروری نہیں ہے 

18ستمبر2019(فکروخبر)
 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا