English   /   Kannada   /   Nawayathi

حد قذف(احکام و شرائط)

share with us

ایسی سزاؤں کو’’حد‘‘ یا ’’حدود‘‘اس لیے بھی کہتے ہیں کہ اﷲ تعالی نے خود سے ایسے جرائم اور انکی سزائیں متعین کردیں ہیں اور کسی کو ان میں کمی بیشی یاتجاوزکااختیارحاصل نہیں ،چنانچہ یہ ’’حدود‘‘اﷲ تعالی کی مقرر کردہ ہیں اور ان کو عبور کرجانا گناہ کبیرہ ہے۔قرآن س سنت میں کم و بیش دس ایسے جرائم گنوائے گئے ہیں جو ’’حدوداﷲ‘‘کے زمرے میں آتے ہیں اورشریعت اسلامیہ نے انکی سخت سزائیں مقرر کی ہیں۔
قرآن مجید کے اٹھارویں سپارے کی سورہ نور میں احکامات قذف صراحت کے ساتھ بیان ہوئے ہیں:
’’اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں پھرچارگواہ لے کر نہ آئیں ان کو اسی(80)کوڑے مارو اور انکی شہادت کبھی قبول نہ کرواور وہ خود ہی فاسق ہیں سوائے ان لوگوں کے جو اس حرکت کے بعد تائب ہوجائیں اور اصلاح کرلیں کہ اﷲ تعالی ضرور(انکے حق میں )غفورالرحیم ہے۔‘‘(سورۃنورآیات4,5)
’’بے شک جو لوگ پاک دامن ،بے خبر،مومن عورتوں پر تہمتیں لگاتے ہیں ان پر دنیااورآخرت میں لعنت کی گئی اورانکے لیے بڑاعذاب ہے ۔وہ اس دن کو بھول جائیں جبکہ انکی اپنی زبانیں اورانکے ہاتھ پاؤں انکے اپنے کرتوتوں کی گواہی دیں گے ۔اس دن اﷲ تعالی وہ بدلہ انہیں بھرپور دے دے گا جس کے وہ مستحق ہیں اور انہیں معلوم ہوجائے گا کہ اﷲ تعالی ہی حق ہے اور سچ کو سچ کر دکھانے والا ہے۔‘‘(سورۃ نور آیات23-25)
قرآن مجید کے لیے ’’قذف‘‘کے لیے ’’رمی ‘‘کا لفظ استعمال کیا ہے جو کہ قذف کے مترادفات میں سے ہے۔لفظ ’’رمی‘‘کا مطلب نشانہ لگانا یا تیر چلانا ہے۔حج کے موقع پر شیطان کو کنکریاں مارنے کے لیے بھی یہی لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ان آیات سے پہلے حد زنا کا حکم ہے اور بعد میں قانون لعان کی وضاحت کی گئی ہے۔قانون لعان سے مراد میاں اور بیوی کا ایک دوسرے پرزناکا الزام دھرنا ہے۔آیت کے سیاق و سباق سے یہ پختہ وضاحت ہو جاتی ہے کہ یہاں تہمت سے مراد ’’زناکاری‘‘کی تہمت مراد ہے۔
قاذف یعنی بدکاری کا الزام لگانے والا کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتاہو اس پر بہرصورت حد جاری کی جائے گی،تاہم فقہا نے یعنی اسلامی قوانین کے ماہرین نے تین عمومی شرائط بتائی ہیں جو قاذف میں ہونا ضروری ہیں 
1۔عقل و بلوغ:یہ بنیادی شرط ہے ہر اس فرد کے لیے جس پر کسی بھی قانون کا اطلاق کیاجاناہو۔
2۔آزادی رائے:قاذف نے بحوش و حواس اپنی مرضی سے اور آزادی سے یہ الزام دھرا ہو۔
3۔صریح الفاظ:قاذف کے الفاظ صریح اورواضع ہونے چاہییں،ذو معنی الفاظ یا شکوک و شبہات حدود کو ساقط کر دیتے ہیں۔
ان کے علاوہ قاذف کے لیے کوئی شرط مقرر نہیں کی گئی،وہ آزاد ہو ،غلام ہو،مسلمان ہو کافر ہو،عورت ہو مرد ہویامعاشرے کے کسی بھی طبقے یا رنگ نسل یا کسی بھی علاقے سے تعلق رکھتا ہو اس پر حد جاری کی جائے گی۔
مقذوف یعنی جس پر بدکاری کاالزام دھراگیاہواسکے لیے قرآن مجید نے جو اولین شرط رکھی ہے کہ وہ’’محصن‘‘ہو۔’’محصن‘‘ وہ ہوتا ہے جو ’’احصان‘‘کی شرائط پوری کرتاہویا’’احصان‘‘کے معیارپر پورااترے۔’’احصان‘‘کالفظی مطلب قلعے کی دیوار ہے جوآبادی کی حفاظت کرتی ہے۔یہاں ’’احصان‘‘سے مراد شخصیت کے گرد پاکدامی کا حصار ہے جسے قاذف نے چھلنی کیا اور ’’محصن‘‘کی شخصیت اور عزت نفس مجروح ہوئی۔یہ قرآن مجید کی فصاحت و بلاغت کا اعجاز ہے کہ اس کتاب میں کس کس طرح کی اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں کہ گویا دریاکو کوزے میں سما دیا گیاہو۔
شریعت اسلامیہ نے ’’احصان فی القذف‘‘کی پانچ شرائط مقرر کی ہیں ،یعنی جس میں یہ پانچ شرائط پائی جائیں گی وہ ’’محصن‘‘شمار ہوگا اور اسکے قاذف پر حد جاری کی جائے گی :
1۔عقل و بلوغ:یہ جملہ احکامات شریعت کے عائد ہونے کی بنیادی شرط ہے،آپ ﷺ نے فرمایا کہ تین افراد پر سے قلم اٹھالیاگیا ہے بچہ،مجنون اور سویاہواشخص۔چنانچہ ایسے افراد’’محصن‘‘نہیں ہوسکتے۔
2۔پاکدامنی:یہ بنیادی شرط ہے۔ایسے افرادجوپہلے سے زناکار مشہور ہوں یازناکی سزاپاچکے ہوںیااس معاملے میں بری شہرت رکھتے ہوں تو وہ ’’محصن‘‘ شمار نہ کیے جائیں گے۔
3حریت:لونڈی غلام ’’محصن‘‘نہیں ہوتے اس کے لیے آزادی ایک اور شرط ہے،قرآن مجید نے’’ محصنات ‘‘اور لونڈیوں کو الگ الگ بتایاہے۔
4۔اسلام:آپﷺ کاارشاد ہے کہ جو شخص اﷲ تعالی کے ساتھ شرک کرتا ہے وہ ’’محصن‘‘نہیں چنانچہ غیرمسلم ’’محصن‘‘نہیں ہوتا۔
5۔’’احصان‘‘کے لیے قابل وطی ہونا بھی ضروری ہے یعنی جس پر زناکاالزام لگایا جارہا ہے وہ اس الزام کے قابل بھی ہے،بصورت دیگر یہ الزام لغو ہوگا۔
قرآن مجید کا بیان ہے کہ ’’ہم نے بنی آدام کو عزت والا بنایاہے‘‘۔اس آیت کے مصداق ہر وہ شخص جو ’’محصن‘‘نہیں بھی ہے تب بھی وہ عزت والاہے۔تب شریعت اسلامیہ حاکم کو پابند کرتی ہے کہ غیر محصن پر بھی اگرکوئی زناکا الزام لگائے تواس کوبہرصورت سزا دی جائے،لیکن یہ سزا’’ حد ‘‘نہیں ہو گی بلکہ تعزیر ہوگی۔تعزیر اس سزا کو کہتے ہیں جس کی کمیت اور حجم حاکم پر چھوڑدیے گئے ہوں۔’’حدوداﷲ‘‘کے قوانین چونکہ مقررومتعین ہیں اور ان میں کسی کمی بیشی یا تغیروتبدل کا کسی کو اختیار نہیں اس لیے ’’غیرمحصن ‘‘کے قاذف پر ’’حد‘‘جاری نہ ہوگی۔
’’محصن‘‘کے لیے ضروری ہے کہ ’’احصان‘‘ کی تمام شرائط پوری کرتاہو،کسی ایک شرط کے ساقط ہونے سے ’’حد‘‘بھی ساقط ہوجائے گی ۔اگر کسی ’’محصن‘‘پر ایسے وقت میں الزام لگایاگیا جب وہ ’’محصن‘‘نہیں تھایعنی اس وقت وہ حالت کفر میں تھا ،یا غلام تھاوغیرہ توبھی قاذف پر حد جاری نہ ہوگی ۔تاہم ’’محصن‘‘کے فوت ہو جانے کے بعد اسکے قاذف پر حد جاری ہوگی کیونکہ ’’احصان‘‘ کی شرائط میں ’’زندگی‘‘شامل نہیں ۔’’محصن‘‘ مرنے کے بعد بھی ’’محصن‘‘رہتاہے تاہم کچھ فقہا کے نزدیک ورثاکودعوی قذف کا حق حاصل ہے جبکہ بعض اس موقف کی تردیدکرتے ہیں۔گونگے کے اشاروں سے اس پرحد جاری نہ ہو گی کیونکہ اشاروں میں شک کی گنجائش موجود رہتی ہے اور شک سے حد ساقط ہوجاتی ہے۔تاہم اشارہ اتنا واضع ہوکہ شک کی گنجائش نہ رہے تو حد جاری ہوگی۔
حد قذف کے لیے ضروری ہے کہ الزام کے الفاظ صریحاََ’’عمل زنا‘‘ کی نشاندہی کرتے ہوں۔اشارۃََ یا کنایۃََ یا شبھۃََ لگنے والے ’’الزام زنا‘‘کے باعث حد جاری نہ ہوگی۔باپ دادا یا ماں نانی وغیرہ اپنی اولاد پر قذف کے مرتکب ہوں تو ان پر حد جاری نہ ہوگی کیونکہ قرآن مجید نے والدین سے حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔الزام کا مرتکب اس وقت حد کا مستوجب ہوگا جب وہ خود قاذف کی شرائط پوری کرتا ہو اور اس نے جس پر ’’الزام زنا‘‘چسپاں کیا ہے وہ ’’محصن‘‘ کی شرائط پوری کرتا ہواور’’الزام زنا‘‘میں صراحۃََ ’’عمل زنا‘‘کاذکرہو،تاہم ایک بات پیش نظر رہے کہ جھگڑے کے دوران گالم گلوچ پر ان معاملات کا اطلاق نہ ہوگا۔(یو این این)

بسم اﷲ الرحمن الرحیم
حد قذف(حصہ دوم)
(سزااور اسکے ثمرات)
ڈاکٹر ساجد خاکوانی 
sajid_islamabad@yahoo.com
قاذف حد کی سزاسے بچ سکتا ہے مگر تین صورتوں میں:
1۔مقذوف اسے معاف کر دے ،مگر یہ معافی عدالت پہنچنے سے پہلے ہونی چاہیے ۔ عدالت میں پہنچ جانے کے بعد یہ معاملہ حقوق العبادکی بجائے حقوق اﷲکی طرف مڑ جائے گا اور حقوق اﷲ میں معافی یاکمی بیشی کا اختیار کسی کو نہیں۔آپ ﷺ نے فرمایا’’حدودکو آپس میں معاف کر دیا کرو مگر جب معاملہ مجھ تک پہنچ جائے گا تو حد ضرور جاری ہو گی‘‘۔
2۔قاذف اگر اپنے الزام کے ثبوت میں چار گواہ پیش کر دے تو بھی اس پر سے حد ساقط ہو جائے گی کیونکہ قرآن مجید نے خود اس کی صراحت کی ہے۔اس صورت میں الزام سچا ثابت ہو جائے گااور قاذف کی بجائے زانی پر حد جاری ہوگی۔
3۔قاذف کی معافی کی تیسری صورت یہ ہے کہ مقذوف اقرار جرم کر لے،اس صورت میں بھی الزام ثابت ہو جائے گااور قاذف کی کمر بچ جائے گی۔
قرآن مجید نے جرم قذف کی درج ذیل سزائیں گنوائیں ہیں:
1۔قذف کے مجرم کو اسی(80)درے لگائے جائیں۔ 2۔اسکی گواہی کبھی قبول نہ کی جائے۔
3۔اسکا شمار فاسقوں،مجرموں اور کبیرہ گناہوں کے مرتکب لوگوں میں کیاجائے۔
4۔اﷲ تعالی کے بزدیک وہ دروغ گو یعنی بلاکاجھوٹا شخص ہے۔
5۔دنیا و آخرت میں اس پر لعنت ہے۔ 6۔قیامت میں دوزخ کاعذاب
7۔روزمحشر اسکے اپنے اعضا اسکے خلاف شہادت دیں گے۔
قاذف کو اس طرح سزا دی جائے گی:
1۔قاذف کو گرمیوں میں ٹھنڈے وقت میں اور سردیوں میں گرم وقت ،سرعام درے لگائے جائیں گے۔
2۔سر ،منہ۔چہرہ اور نازک اعضا پر درے نہیں لگائے جائیں گے،اسے باندھا نہیں جائیگا۔
3۔درے اس طرح لگائے جائیں گے کہ انکے اثرات صرف جلد تک رہیں گے،گوشت تک نہیں پہنچ پائیں گے۔
4۔درہ ہلکی ضرب والا ہوگا،قرین قیاس ہے کہ ٹانگے والے جوچھانٹا استعمال کرتے ہیں وہ کافی ہے۔
5۔اگر جرم کا اثبات گواہوں سے ہوا ہے تو دروں کا آغاز گواہ کریں گے پھر قاضی اور پھر جلاد سزا کی تکمیل کرے گا۔
6۔اگرجرم کا اثبات اقرارجرم سے ہوا ہے توسزاکاآغازقاضی کرے گا اور پھر جلاد اسے پایہ تکمیل تک پہنچائے گا۔
7۔قاذف کی شہادت کسی معاملے بھی کبھی قبول نہ کی جائے گی لیکن بعض فقہا کے نزدیک توبہ کر چکنے کے بعد یہ سزا ختم ہوجائے گی۔
حد قذف جاری ہونے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ اﷲ تعالی کی حدود اور اسکے قوانین اس مملکت میں جاری و ساری ہوں گے،جو کہ پاکستان کے قیام کا مقصد تھا۔جب زمین اﷲ تعالی کی ہے،مخلوق اﷲ تعالی کی ہے اور جب حکم صرف اﷲ تعالی کاہی ہے تو قوانین بھی اﷲ تعالی کے ہی ہونے چاہییں۔خود کش حملوں پر اسلام سے رائے لینا،خواتین کی تعلیم پر اسلام سے رائے لینا،تفریحی سرگرمیوں پر اسلام سے رائے لینا اور یہودی و عیسائی خواتین سے نکاح کے بارے میں اسلام سے رائے لینا اور جب اپنی مرضی کے خلاف قوانین آنے لگیں تو اسلام سے روگردانی کر جانا اور غیراسلام پر چلنا شروع کر دیناگویایہودوالی روش ہے جس پر قرآن نے یوں تبصرہ کیاہے کہ ’’تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہواور ایک حصے کا انکار کرتے ہو؟‘‘
ایک روایت کے مطابق کوئی ایک حد جاری ہونے سے اتنی برکت ہوجاتی ہے جتنی چالیس سال کی بارشوں سے بھی نہیں ہوتی،یہ حدود کے نفاذ کا دوسرا فائدہ ہوگا۔حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے زمانے میں ایک شخص میلوں دور سے زکوۃ لے کر امیرالمومنین کے پاس آیا،حضرت نے فرمایاراستے میں بانٹ دی ہوتی ،اس نے جواب دیا اے امیر محترم سارے راستے آواز لگاتا آیا ہوں کہ زکوۃ کی رقم ہے کوئی تو لے لوخدا کی قسم کوئی زکوۃ لینے والا نہ تھا۔جس زمین پر اﷲ تعالی کی حدود نافذ ہونگی وہ زمین آسمانی آفات و بلیات اوربدامنی و بے چارگی سے محفوظ کر دی جائے گی اور اﷲ تعالی وہاں ایسے ایسے ذرائع سے فراوانی رزق عطا کرے گا کہ انسان حیران رہ جائے گا۔
خصوصاََحد قذف کے نفاذ سے معاشرہ زناکارانہ ماحول سے پاک ہوجائے گا۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے برائی ختم نہیں ہوسکتی کیونکہ ابلیس کو قیامت تک کی مہلت میسر ہے ،تب صرف یہ ممکن ہے کہ برائی کو دبا دیاجائے اور اسکے پھیلنے کے ذرائع مسدودکر دیے جائیں۔حد قذف اسی طرح کا ایک انتظام ہے۔فرض کریں ایک شخص نے اپنی آنکھوں سے زنا ہوتے دیکھ بھی لیا ہے تب بھی اگر وہ زبان کھولتا ہے تو چار گواہ کہاں سے لائے؟اور اگر چار گواہ میسر نہیں آتے تو اسکی دروں سے مرمت کی جائے گی اور بدنامی الگ گلے پڑے گی تب اس عینی گواہ کی خیریت اسی میں ہے کہ چپ رہے جو حدقذف کا ایک اہم مقصد ہے۔
کوئی بھی معاشرہ ناجائز آشنائیوں سے خالی نہیں ہوسکتاکیونکہ شراور حق کا مقابلہ جاری ہے اور جاری رہے گا۔عورت اور مرد کے درمیان جو فطری کشش ہے وہ ہمیشہ نئے نئے چاند چڑھاتی رہے گی اور بات کا بتنگڑبننے میں اور انڈے کا جھنڈ بننے میں دیر نہیں لگے گی۔تب کیا ان آشنائیوں کے چرچوں کو کھلا چھوڑ دیا جائے ؟تاکہ برائی کو پھلنے پھولنے کے مواقع میسر آتے رہیں۔اس طرح تو وہ لوگ بھی آلودہ ہو جائیں گے جو اس گندگی سے بچنا چاہتے ہوں کیونکہ برائی کامادہ تو ہر نفس میں رکھ دیاگیاہے۔حد قذف کے ذریعے سے برائی کا اس محاذ پر سختی سے مقابلہ کیاجائے گا اور جنس مخالف کے حوالے سے لوگوں کی سوچ صرف نکاح تک ہی محدود رہ جائے گی۔
حدقذف شہریوں کی عزت و ناموس کی محافظ رہے گی،ایسا نہیں ہوگاکہ مجبوری کے تحت گھر سے نکلنے والی خاتون اور دکاندار سے یاسواری والے سے بات کرتی ہوئی خاتون کو گردونواح کی فکر کھائے جا رہی ہو کہ لوگ کیاکہیں گے؟زمانہ کیا سوچے گا؟ہائے کسی نے دیکھ لیاتوجیناعذاب ہو جائے گا اور فلاں کو پتہ چل گیاتوقیامت آجائے گی۔حدقذف کے نفاذ سے خواتین کو آسمانی تحفظ میسر رہے گاخواتین کی آزادی کو حفاظت میسر آجائے گی اوروہ کھل کر اپنی صلاحیتوں کا اظہار کر پائیں گی کیونکہ انہیں پختہ یقین ہوگا کہ کسی نے بھی ان پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کی تووہ کیچڑخود اسی اچھالنے والے پر ہی اس شدت سے گرے گا کہ الامان و الحفیظ۔
غلط افواہیں آج کے معاشرے کا کلچر بن چکی ہیں ،یہ افواہیں سیاست،حکومت اور بین الاقوامی معاملات سے لے کر ذاتیات تک میں دخیل ہو گئی ہیں۔حدقذف اگرچہ صرف بدکاری کی افواہیں روکنے کاباعث بنے گی لیکن یہ قوم کی تربیت ہوگی جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ آہستہ آہستہ قوم کے افراد میں ذمہ داری کا عنصر آنا شروع ہو جائے گا اور غلط افواہیں جو معاشرے کی نفسیاتی توجہ اپنی طرف مبذول کر کے توبعض اوقات بہت خطرناک نتائج کاباعث بن جاتی ہیں ان کاتدارک ہو سکے گا۔
بعض جرائم صرف جنسی محرومیوں سے اورجنسی تشدد سے ہی جنم لیتے ہیں۔یہ جنسی محرومیاں اور جنسی تشدددراصل کسی غلط کاراور بدکار کے بارے میں مسلسل سن سن کر یااسے دیکھ دیکھ کریااس سے باتیں کرکرکے نوجوانوں میں پیداہوتارہتاہے اورپھر جب کبھی انہیں موقع ملتا ہے تو وہ اس شدت سے اپنی محرومیاں پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ جنسی عمل اپنی کمیت و حجم میں ایک جرم بن جاتا ہے جس سے فردکی عزت تارتارہوتی ہے اورانسانی معاشرہ آلودہ ہوتارہتا ہے۔آج کل کی بننے والی فلمیں اسی طرح کی بے شمارکہانیاں لیے ہوئے پردہ سکرین پر موجود ہیں جہاں ہر لڑائی اورہر نزاع کے پیچھے ناجائزجنسیت سے بھرے ہوئے جذبات موجود ہوتے ہیں ،حدقذف ایسے ماحول میں اﷲ تعالی کی رحمت بے پایاں کے سوا کچھ نہیں کہ جس کے قدآور پیڑ کے نیچے انسانیت کو عام طور پر اور نسوانیت خاص طور پر آسودگی،راحت اور امن و سکون و آشتی میسر آئے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا