English   /   Kannada   /   Nawayathi

ونچت بہوجن اگھاڑی: اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟  

share with us


ظہیر الدین صدیقی اورنگ آباد    

    مہاراشٹرا اسمبلی انتخابات سر پر ہیں، کسی وقت بھی نو ٹیفکیشن جاری ہو سکتا ہے، ایسے میں ونچت بہوجن اگھاڑی اور مجلس اتحاد المسلمین کا نو مولود اتحاد ٹوٹنے کی خبروں سے ریاست کے دلت، پسماندہ طبقات اور مسلمانوں میں بے چینی کا ماحول ہو گیا ہے۔ صرف پانچ ماہ قبل منعقدہ پارلیمانی انتخابات کے وقت ریاست کی سیاست میں نمایا اُبھر کر آنے والی ونچت بہوجن اگھاڑی میں اتنی جلدی  بگاڑ پیدا ہو جائے گا یہ کسی کہ وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ پارلیمانی انتخابات کے نتائج کے بعد ایک طبقہ یہ سوچ رہا تھا کہ چونکہ اس الیکشن میں دلت اور دیگر پسماندہ طبقات نے پوری ایمانداری سے ایم آئی ایم کے امیدوارکو ووٹ دیا جس کی وجہ سے اسے غیر متوقع عظیم الشان کامیابی نصیب ہوئی لیکن مسلمانوں کے ووٹ ونچت بہوجن اگھاڑی کے صدر پرکاش امبیڈکر کو نہیں ملے جس کی وجہ سے ان کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا، اس لئے ممکن ہے کہ پرکاش امبیڈکر اس اتحاد کو ختم کر دیں گے۔ لیکن پرکاش امبیڈکر نے مسلم ووٹ نہ ملنے کی شکایت کے باوجود بار بار یہ یقین دلا یا کہ یہ اتحاد قائم رہے گا۔ اس لئے عوام میں اعتماد کی فضا بحال ہوئی اور لوگ جوق در جوق ونچت بہوجن اگھاڑی اور ایم آئی ایم کی طرف راغب ہو نے لگے۔ ہر دو جماعتوں کے پاس سیاست میں قسمت آزمائی کرنے والے خواہشمندوں کی قطاریں لگنا شروع ہو گئیں۔ ہر خواہشمند امیدوار کو یہ لگ رہا تھا کہ بس اُسے ٹکٹ مل جائے تو اس کی جیت یقینی ہے۔ کچھ حلقے تو ایسے ہیں جہاں تیس تیس پینتیس پینتیس افراد ایک ہی حلقہ سے امیدواری حاصل کرنے کیلئے بے تاب تھے۔ان کی یہ تڑپ فطری اس لئے تھی کہ جمہوریت میں سر گنے جاتے ہیں اوریہ گنتی ونچت بہوجن اگھاڑی کی صورت میں ہیمکمل ہو سکتی ہے۔ ریاست میں کچھ حلقے ایسے ہیں جہاں یہ گنتی  پچاس فیصد سے اوپر پہنچ جاتی ہے تو باقی حلقوں میں یہ کسی بھی طرح چالیس فیصد سے کم نہیں۔ کہیں مسلمان اکثریت میں ہیں تو کہیں بہوجنوں کی اکثریت ہے۔ دلت مسلم اور پسماندہ طبقات کی یہ سوشل انجینئرنگ کسی بھی جماعت کو اقتدارکی مسند تک پہنچانے کے لئے کافی ہے اگر اس کا سلیقہ سے استعمال کیا جائے۔ اسی سلیقہ کا ایک تقاضہ یہ بھی ہے کہ یہ اتحاد بہر حال قائم رہے۔ لیکن کسی مسئلہ کے حل میں جب ذاتی انا اور تکبر در آتا ہے تو مسئلہ حل نہیں ہوتا بلکہ مسائل بڑھ جاتے ہیں۔ شائد ونچت اگھاڑی بھی اسی بیماری کا شکار ہو گئی ہے۔وجوہات چاہے جو کچھ بھی ہو یہ بات طئے ہے کہ ونچت اگھاڑی کے ٹوٹنے کی خبروں سے عوام میں بے چینی پیدا ہوگئی ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے تاثرات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ بے چینی ہر دو طبقات میں برابر پائی جارہی ہے۔ دلت اور پسماندہ طبقات ایم آئی ایم کواس کا ذمہ دار ٹہرا رہے ہیں، ایم آئی ایم کو پارلیمانی الیکشن کے دوران دلتوں کا احسان یاد دلا رہے ہیں، اور ایم آئی ایم سے درخواست کر رہے ہیں کہ کسی طرح اس اتحاد کو قائم رکھا جائے، تو دوسری طرف مسلمانوں کا ایک طبقہ پرکاش امبیڈکر کے اڑیل رویہ کو اس کا ذمہ دار سمجھ رہا ہے، اور اسی بہانے پرکاش امبیڈکر کے سابقہ تجربات کی روشنی میں گڑھے مردے اکھاڑ ے جارہے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ ماضی کی لغزشیں تا عمر پیچھا کر تی رہتیں ہیں،لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ صبح کا بھولا شام کو گھر واپس نہیں آسکتا۔ انسان کی خوبی یہی ہے کہ وہ وقت اور حالات کے تحت اپنے رویہ میں سدھار کرتا رہے۔ اور سیاست میں تو کوئی کسی کا مستقل دوست ہوتا ہے اور نہ ہی مستقل دشمن۔ تو پھر بہتر یہی ہے کہ سیاسی قائدین اپنے دوست اور دشمن کے تعین میں نہ جلد بازی کریں اور نہ ہی اس کو اپنی انا کا مسئلہ بنائیں۔بقول بشیر بدرؔ  ”دشمنی جم کرکرو لیکن یہ گنجائش رہے :: جب کبھی ہم دوست ہوجائیں تو شرمندہ نہ ہوں“یہ فلسفہ اگر ہمارے قائدین کی سمجھ میں آجائے تو مسائل پیدا ہی نہیں ہوں گے۔ پرکاش امبیڈکر نے صرف آٹھ نشستوں کی پیشکش کرکے ایک تو مجلس کی توہین کی ہے اور دوسرے مجلس کے قائد کو چپراسی اور گنگو تیلی کہہ کر اپنے اہنکار کا گھٹیا مظاہرہ کیا ہے، وہ اگر گنگو تیلی ہے تو تم بھی تو راجہ بھوج نہیں ہو، کیا یہ بات عوام نہیں جانتی؟دوسری طرف اگر مجلس قائد یہ کہتے ہیں کہ ونچت اگھاڑی کے فیصلوں پر  آر ایس ایس  اثر انداز ہو رہی ہے تو ونچت کے ذمہ دار یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ پارلیمنٹ الیکشن کے وقت اُنہیں یہ بات کیوں نظر نہیں آئی؟ بہتر ہو تا کہ یہ بات زبان پر نہ لائی جاتی،ورنہ پوچھنے والے یہ بھی پوچھ سکتے ہیں کہ لوکل باڈیز اسمبلی حلقہ کے انتخابات میں شیو شینا کے امیدوار کو وو ٹ کیوں دیے گئے؟مسلم امیدوارکو کیوں نہیں؟ بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی۔ونچت کے ساتھ اگر بی جے پی کے افراد شامل ہورہے  ہیں تو مجلس میں بھی ایسے لوگ نورِ نظر بنے ہوئے ہیں جو پارلیمانی الیکشن کے وقت مجلس کے مخالف رہے ہیں۔ چنانچہ بہتر یہ ہوگا کہ ایک دوجے پر کیچڑ اچھالنے کے بجائے اس بات کی کوشش کی جائے کہ اس اتحاد کو کیسے بر قرار رکھا جاسکتا ہے اور اسے کیسے مضبوط کیا جائے۔ کچھ جوشیلے نوجوان یہ کہہ رہے ہیں کہ مجلس کو کسی کے ساتھ کی ضرورت نہیں ہم اپنے حوصلوں سے الیکشن جیت جائیں گے۔ ان کی نظر میں صرف وہ حلقے ہیں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، کیا کبھی انہوں نے ان علاقوں کے بارے میں سوچا ہے جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں، پورے گاؤں میں دس بیس گھر یا سو پچاس مسلمان رہتے ہیں، اُن بے چاروں کا کون پرسان حال ہے؟ وہ کس خوف اور احساس عدم تحفظ میں زندگی گزار رہے ہیں؟ اُن کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا کہ اسی امیدوار کو ووٹ کریں جسے پورا گاؤں ووٹ کر رہا ہے، اس لئے وہ چاہتے ہوئے بھی مجلس کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ مگر ہاں ونچت کے ساتھ اتحاد قائم رہتا ہے تو وہ بلا خوف مجلس اور ونچت بہوجن اگھاڑی کو ووٹ ڈال سکیں گے کیونکہ ایسی صورت میں ان پر فرقہ پرستی کا لیبل نہیں لگے گا، کیوں کہ گاؤں کے دلت، او بی سی بھی ان کی پشت پناہی کے لئیموجود ہوں گے۔ دوسرے یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ گذشتہ ۴۱۰۲ء کے اسمبلی انتخابات میں ساٹھ لاکھ مسلمانوں نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا تھا جس میں سے مجلس کے حصہ میں صرف پانچ لاکھ ووٹ آئے تھے۔ اسی طرح یہ بھی صحیح ہے کہ پورا دلت سماج پرکاش امبیڈکر کے ساتھ نہیں ہے، ان میں بھی بے شمار گٹ ہیں اس کے باوجود اگر دیگر پسماندہ طبقات ونچت بہوجن اگھاڑی کی طرف راغب ہو رہے ہیں تو اس کی بڑی وجہہ ایم آئی ایم کی اس میں شمولیت ہے۔ محروم طبقات کو یوں لگ رہا تھا کہ دلت مسلم اور دیگر پسماندہ طبقات اگر یکجا ہوجائیں تو پوری قوت سے فرقہ پرستوں کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ اگر ایم آئی ایم ونچت بہوجن اگھاڑی سے علحدہ ہو جاتی ہے تو دیگر پسماندہ طبقات واپس سینا بی جے پی کے ساتھ رہنا پسند کریں گے اور مسلمان پھر ایکبار کانگریس این سی پی کے ساتھ جانے پر مجبور ہو جائے گا، ایسی صورت میں ونچت اور مجلس دونوں کو نقصان ہوگا اور ونچت کا خواب ونچت ہی رہ جائیگا۔اس کے بر خلاف یہ اتحادریاست کی سیاست کو ایک نیا رخ دے سکتا ہے جس کے اثرات بہت دیر پا ہوں گے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ عوامی احساسات،جذبات، توقعات اور اعداد و شمار کے حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے ونچت بہوجن اگھاڑی اور مجلس کے ذمہ دار حکمت و دانائی، بصیرت و بصارت کے ساتھ کچھ ایسا حل تلاش کریں کہ عوام کا اعتماد مجروح نہ ہواور مہاراشٹرا میں ونچت بہوجن اگھاڑی ایک سیکولر متبادل کے طور پرعوام میں مقبول ہو

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے

15ستمبر2019(فکروخبر)

 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا