English   /   Kannada   /   Nawayathi

سپریم کورٹ نے تھمادی، سرکار کے ہاتھ میں کامن سول کوڈ کی تلوار

share with us

تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    تیار ہوجائیے، اب ہندوستان کے شہریوں سے ان کے مذہبی حقوق سلب کئے جانے والے ہیں۔مسلم پرسنل لاء اور دوسرے پرسنل قوانین ختم ہونگے اور کامن سول کوڈکا نفاذ ہوگا۔ یہ روز اول سے سنگھ پریوارکے ایجنڈے کا حصہ تھا اور بی جے پی اپنے تمام انتخابی منشور میں اسے شامل رکھتی آئی ہے۔مودی حکومت کے کہنے پر لاء کمیشن گزشتہ چند سال سے کامن سول کوڈ کے امکان پر غور کر رہا تھامگر اس بار سپریم کورٹ نے ہی حکومت کے ہاتھ میں تلوار تھمادی ہے۔جسٹس دیپک گپتا اور جسٹس انیرودھ بوس کی بنچ کے ایک تبصرے کے بعد مودی سرکار حرکت میں آگئی ہے اور ایسے وقت میں جب کہ اس سے ملک کی اقتصادی بدحالی پر سوالات پوچھے جارہے ہیں، اسے کامن سول کوڈ کی بحث چھیڑ کراصل سوالات سے بچنے کا بہانہ مل گیا ہے۔امکان ہے کہ پارلیمنٹ کے آئندہ سشن میں اس پر بحث بھی ہو جب کہ میڈیا میں بحث شروع ہوچکی ہے اور حسب توقع اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مسلمانوں کو قرار دیا جارہا ہے،جب کہ یہ درست نہیں ہے۔ملک کے مسلمان تو بے چارے مجبور ہیں،ان سے کون پوچھتا ہے کہ قانون لائیں یا نہ لائیں؟ طلاق ثلاثہ کے قانون پر کس نے مسلمانوں سے ان کی رائے لی؟
کچھ اہم سوال
        سوال یہ ہے کہ کیا اب ایک ملک میں ایک ہی قانون نافذ ہو گا؟ کیا اب تمام پرسنل قوانین ختم کر دیئے جائیں گے؟ کیا اب ہر شخص کو اس کی مرضی، اس کے مذہبی، سماجی اور روایتی قانون کے ساتھ جینے کا حق نہیں دیا جائے گا؟ اگر ایسا ہوا تو صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ سکھ، عیسائی، پارسی، جینی، بدھسٹ بلکہ خود ہندو بھی اس کی زد میں آ جائیں گے۔ کیا سرکار چاہے گی کہ کیرل کے ہندوؤں کو یوپی کے ہندوؤں کے طریقے سے جینے پر مجبور کیا جائے؟ کیا یہ درست ہو گا کہ جنوب کے لوگوں کو شمال یا شمال کے عوام کو جنوب کے لوگوں کو طریقے پر رکھا جائے اور انھیں اپنے ان تمام سماجی اور روایتی اصول و ضوابط کو چھوڑنے پر مجبور کیا جائے جن پر وہ صدیوں سے عمل کرتے آ رہے ہیں؟ کیا ہندوستان کے آدیباسیوں کو سرکار ڈنڈے کے زور پر مجبور کرے گی کہ وہ اپنے طریقے کو چھوڑ کر اس کے بنائے ہوئے ضابطے پر عمل کریں؟ کیا اسے نہیں لگتا کہ یہ پورے ملک پر ظلم ہو گا اور اس سے ہمارے ملک کا شیرازہ بکھر جائے گا؟ اگر آر ایس ایس مرکزی سرکار کو کامن سول کوڈ کے نفاذ سے نہیں روکتاتو یہ اس کی وطن دوستی نہیں ہو گی جس کا وہ دعویٰ کرتا آیا ہے، یہ تو اس ملک پر ظلم ہو گا۔ کامن سول کوڈ کا نفاذ سرکار کی ذمہ داری ہے، یہ بات ہمارے دستور میں کہی گئی ہے مگر اس کا کوئی وقت متعین نہیں نہیں کیا گیا ہے کہ وہ کب تک اس کا نفاذ کرے گی۔ 
کامن سول کوڈ کیا ہے؟
    بھارت مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کا ملک ہے۔ یہاں بہت سے مذاہب کے ماننے والے رہتے سہتے ہیں۔ سبھی کے اپنے روایتی اصول اور ضابطے ہیں۔ یہاں اگر ایک طرف مسلم پرسنل لاء ہے تو دوسری طرف ہندو کوڈ بل بھی ہے۔ یہاں اگر عیسائیوں کے اپنے مذہبی دستور ہیں تو سکھوں اور بدھسٹوں کے بھی اپنے کچھ طریقے ہیں۔ یہاں کے آدیباسی پرانے زمانے سے کچھ ضابطوں کی پیروی کرتے آئے ہیں تو پارسیوں کے بھی کچھ الگ طریقے آج کے ماڈرن دور میں جاری ہیں۔ یہیں تک محدود نہیں بلکہ خود ہندوؤں میں بہت سے ضابطے الگ الگ ہیں۔ ملک کے بعض علاقے کے ہندوؤں میں یہ دستور ہے کہ نہ صرف مرد ایک سے زیادہ شادیاں کر سکتا ہے بلکہ عورتیں بھی ایک سے زیادہ شادیاں کر سکتی ہیں۔ یہ تمام حقائق اپنی جگہ پر مگر ملک کے دستور میں یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ سرکار پورے ملک کے لئے ایسا قانون لائے گی جو تمام پرسنل قوانین کو ختم کر کے ایک ہی قانون نافذ کرے گی اور اسی کو کامن سول کوڈ کا نام دیا گیا ہے۔
کامن سول کوڈ، کانگریس کا شوشہ
    ملک کا جو دستور بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر کی قیادت میں بنایا گیا تھا، اسی میں کامن سول کوڈ کی بات رکھی گئی تھی۔ تب کانگریس کی مرکز میں سرکار تھی اور پنڈت جواہر لعل نہرو ملک کے وزیر اعظم ہوا کرتے تھے۔ سرکار کی طرف سے بار بار کہا گیا کہ مناسب وقت پر تمام پرسنل قوانین کو ختم کر کے سب کے لئے ایک ہی دستور نافذ کیا جائے گا مگر آج تک یہ ممکن نہیں ہوا۔ متعدد بار سپریم کورٹ نے مرکزی سرکار سے پوچھا بھی کہ جب ہمارے دستور میں کامن سول کوڈ کا وعدہ کیا گیا ہے تو اب تک اس کا نفاذ کیوں نہیں کیا گیا؟ کورٹ کا سوال اپنی جگہ پر مگر اس سے بڑی بات یہ ہے کہ جب ہمارے ملک میں مختلف مذاہب اور طریقے کے ماننے والے لوگ رہتے ہیں تو اس قسم کی دفعہ ہی کیوں آئین کے اندر رکھی گئی؟ آج اگر بی جے پی اسے بہانہ بنا کر عوام کے ایک بڑے طبقے کو ذہنی طور پر دہشت زدہ کر رہی ہے تو کیا اس کے لئے خود کانگریس ذمہ دار نہیں ہے؟ کانگریس کے اعلیٰ لیڈروں اور منتریوں کی طرف سے یہ بات بار بار کہی گئی ہے کہ ہندو کوڈ بل کو ہی وسیع کر کے اسے پورے ملک کے عوام پر لاگو کیا جائے گا۔ اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ملک کے اقلیتی طبقات سرکار کی نظر میں کس طرح کھٹکتے رہے ہیں کہ انھیں اپنی مذہبی حقوق سے محروم کر کے ہندو کوڈ بل نافذ کرنے کی بات کہی جاتی رہی ہے۔
ہندو کوڈ بل کی بات کیوں نہیں؟
    بھارت میں جس طرح سے مسلم پرسنل لاء ہے، اسی طرح یہاں ہندو کوڈ بل بھی ہے مگر کچھ لوگوں کی آنکھ میں صرف مسلم پرسنل لاء ہی کھٹکتا ہے ہندو کوڈ بل نہیں کھٹکتا۔ کبھی یہ نہیں کہا جاتا کہ ہندو کوڈ بل کو ختم کیا جائے گا، ہر بار حملہ مسلم پرسنل لاء پر ہی کیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ بات صرف مسلمانوں کو ان کے مذہبی حقوق سے محروم کرنے کی کیوں کی جاتی ہے؟ ہندوؤں کو ان کے حق سے محروم کرنے کی بات کیوں نہیں کی جاتی؟ کیا اس کا مقصد مسلمانوں کو ذہنی طور پر پریشان کرنا ہے یا ہندوؤں کو یہ بتانا کہ مسلمانوں کو اس ملک میں اسپیشل حیثیت حاصل ہے؟ حالانکہ بھارت میں صرف مسلم پرسنل لاء ہی نہیں ہے جو مسلمانوں کو ان کے مذہبی حقوق دینے کی بات کرتا ہے، اس ملک میں دوسرے طبقوں کے بھی پرسنل قوانین ہیں بلکہ ہمارے آئین کی روح ہی ہے ”کثرت میں وحدت“ اور اسی لئے ملک کا آئین سب کو اپنے مذہب اور دستور کے مطابق جینے کی آزادی دیتا ہے۔ یہ بات دستور میں بار بار دہرائی گئی ہے۔
مسلم پرسنل لاء کیا ہے؟
    ملک میں جب بھی کامن سول کوڈ کی بات آتی ہے تو یہی کہا جاتا ہے کہ مسلمان اسے قبول نہیں کریں گے۔ نام نہاد سیکولر پارٹیاں بھی اس بہانے مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ سادہ لوح مسلمان،اسے ہمدردی سمجھتے ہیں اور انھیں لگتا ہے کہ مسلم پرسنل لاء  کی حفاظت کر کے انھوں نے اسلام کے تحفظ کا فریضہ اداکر لیا ہے، حالانکہ سچ پوچھا جائے تو آئین ہند میں مسلم پرسنل لاء کی بات انگریزوں کے بنائے قانون میں رکھی گئی تھی جس میں اسلامی قوانین کے جانکار سیدامیر علی کا مشورہ شامل کیا گیا تھا۔ اصل میں اسلام تو ایک مکمل ضابطہئ حیات ہے جس نے پیدائش سے لے کر موت تک انسان کی رہنمائی کے لئے دستور بنا دیئے ہیں مگر ان تمام دستوروں سے محروم کر کے صرف نکاح، طلاق، وراثت، ہبہ اور وقف جیسے چند قوانین پر ہی مسلمانوں کو عمل کرنے کی چھوٹ مسلم پرسنل لاء میں دی گئی ہے اور ہمیں یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ تمہیں اپنے مذہب پر عمل کرنے کی پوری آزادی دے دی گئی ہے۔ ضرورت توا س بات کی تھی کہ جب آئین کے اندر پوری مذہبی آزادی حاصل ہے تو مسلمانوں کو ہر معاملے میں اسلام پر عمل کرنے کی چھوٹ ملتی مگر ایسا ہوا نہیں۔ یہی سبب ہے کہ بار بار کورٹ کی جانب سے اس میں مداخلت کی بات سامنے آتی ہے۔
مسلمانوں کے لئے لمحہ فکریہ
    بھارت کے مسلمانوں کے لئے بھی کچھ باتیں ایسی ہیں جن پر انھیں غور کرنا چاہئے۔ اس میں پہلی بات تو یہ ہے جب کامن سول کوڈ کی بات ہو تو انھیں شدید رد عمل کا اظہار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو ان کے مخالفین کو انھیں پریشان کرنے کا بہانہ مل جائے گا اور انھیں ذہنی اذیت میں مبتلا کرنے کی کوشش ہو گی۔ سول کوڈ سے سکھوں، بدھسٹوں، پارسیوں، جینیوں اور خود ہندوؤں کے بڑے طبقے کو پریشانی ہو گی لہٰذا اسے لاگو کرنا آسان نہیں ہو گا۔ اگر اس سے صرف مسلمانوں کو پریشانی ہوتی تو اب تک یہ نافذ ہو چکا ہوتا۔ آدیباسی جو ہمیشہ سے اپنے طریقے سے جیتے رہے ہیں اور انھیں اس کی دستوری آزادی حاصل ہے وہ بھی اسکے خلاف جائیں گے اور آج اگر آدھے ملک میں نکسل ازم ہے تو اس کے بعد پورے ملک میں یہ پھیل جائے گا اور اس بات کا احساس سرکار میں بیٹھے لوگوں کو بھی ہے۔ اس سلسلے میں دوسری بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو خود بھی کچھ مسائل پر غور کرنا چاہئے اور دوسرے مسلم ملکوں اور دوسرے ملکوں کے علماء سے سبق لینا چاہئے۔ ہمارے کئی مسائل صرف اس لئے ہمیں مشکلوں میں مبتلا کرتے ہیں کیوں کہ ہم نہ تو پوری طرح سے اسلامی احکام پر عمل کرتے ہیں اور نہ ہی ملکی قانون کو لاگو کرتے ہیں۔ ایک ہمارے ہاں ایک مجلس میں تین طلاق کا مسئلہ اکثر مشکلات پیدا کرتا ہے، ایسا اسلام پر عمل نہ کرنے کے سبب ہوتا ہے یعنی غیر شرعی طریقے طلاق دینے کے سبب ہوتا ہے۔ پہلے تو غلط طریقے سے طلاق دیا اور اسے حنفی علماء نے تین مان لیا، اس کے بعد پورے خاندان اور بچوں کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔ مطلقہ کو پوری زندگی کا نفقہ کون اٹھائے؟یہ سوال بھی اہم ہو جاتا ہے۔ مطلقہ کا باپ رہا نہیں، بھائی اس کے لئے تیار نہیں، سابق شوہر سے لینا اس کا حق نہیں، ایسے میں اس کے سامنے سوائے اس کے راستہ نہیں رہ جاتا کہ خود کشی کر لے یا گلیوں میں بھیک مانگتی پھرے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس قسم کے مسائل جب کورٹ کے سامنے جاتے ہیں تب ہی وہ شاہ بانو کیس جیسے فیصلے صادر کرتا ہے۔ مسلم مطلقہ کے سامنے جو بے سمتی بھارت میں ہے کسی دوسرے ملک میں نہیں ہے۔ یونہی ایک سے زیادہ شادی کا مسئلہ بھی ہے۔ بھارت میں مسلمان ایک سے زیادہ شادی، جب چاہے، جیسے چاہے کر سکتا ہے، مگر ایسا وہ دنیا کے کسی دوسرے مسلم ملک میں نہیں کر سکتا۔ اس کے لئے اسے کورٹ سے اجازت لینی پڑتی ہے۔ اسلام نے بھی ایک سے زیادہ شادی کی اجازت شرطوں کے ساتھ دی ہے مگر جو مسلمان ایسا کرتے ہیں انھیں شرطیں یاد نہیں رہتیں، صرف اسلام کی اجازت یاد رہتی ہے۔ اب ایسے میں کورٹ یا سرکار کی طرف سے کوئی قدم اٹھایا جاتا ہے تو مسلمان کو کیا حق ہے کہ وہ کہے کہ یہ ہمارے مذہب میں مداخلت ہے؟

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

15ستمبر2019(فکروخبر)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا