English   /   Kannada   /   Nawayathi

کشمیر کے حالات میں کوئی سدھار نہیں ،کشمیر سے لوٹےویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے وفد نے سنائی آںکھوں دیکھی صورتحال

share with us

نئی دہلی (فکروخبر/پریس ریلیز)ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے ایک وفد نے جس کی قیادت پارٹی کے قومی صدر ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے کی تھی اور جس میں پارٹی کے جنرل سیکریٹریز محترمہ شیما محسن اور محترم جناب سبرامنی ارموگم شامل تھے، نے 11اور 12ستمبر 2019 کو کشمیر کا دو روزہ دورہ کیا اور آرٹیکل 370اور 35Aکے ہٹنے کے بعد پیدا ہوئے صورتحال میں کشمیری عوام سے حالات جاننے کی کوشش کی۔ وفد نے سری نگر اور بارہ مولہ کے مختلف محلوں، شاہراہوں اور تجارتی مراکز کا دورہ کیا اور بڑے میمانے پر سماج کے ہر آبادی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی۔ وفد نے سماجی کارکن، تجار، صنعت کاروں، اساتذہ، طلباء، خواتین مزدور پیشہ افراد سے ملاقاتیں کیں اور ان کے تاثرات جاننے کی کوشش کی۔ وفد کے مشاہدات پر مبنی رپورٹ کے مطابق کشمیر میں انتظامیہ نے کئی علاقوں سے کرفیو ہٹا دیا ہے البتہ دفعہ 144لاگو ہے تاہم سوائے کچھ حساس علاقوں کے سڑکوں پر چلت پھرت کم ہے اور گنتی کی سواریاں چل رہی ہیں۔ لوگ، پردہ نشیں خواتین، بزرگ اور بچے سڑکوں پر صبح سے لے کر دیر رات گئے تک چلتے پھرتے رہے ہیں لیکن چہروں پز معدگی اور نجم و عنصر کے آثار نمایاں ہیں۔ جب ان سے بات کی جاتی تو اندر کا لاوا ابل پڑتا۔ بظاہر کرفیو نہیں ہے لیکن تمام دکانیں اور مارکیٹ بند ہیں۔ انتظامیہ چاہتی ہے کہ لوگ دوکانیں کھولیں لیکن لوگوں نے احتجاج میں دوکانیں بند رکھی ہیں اور اس طرح وہ اپنے غصہ کا اظہار کر رہے ہیں تاہم لوگوں کو ضروریات زندگی مل رہی ہے اس کے لئے صبح اور شام میں ایک گھنٹے کے لئے دوکانیں کھول دی جاتی ہیں۔ کئی جگہ سڑکوں کے کنارے پر ٹھیلے اور پھیری والے پھل اور سبزیاں فروخت کرتے ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ انھیں حکومت کی طرف سے ایسا کرنے کے لئے باضابطہ رقم دی جاتی ہے۔
5اگست سے اسکول اور کالجز بند ہیں۔ انتطامیہ چاہتی ہے کہ اب اسکول کھل ئیں اور معمول پر کلاسیں چلنے لگیں لیکن طلبا اسکول تک جانے کے لئے ٹراسپورٹ کی سہولت مہیا نہیں ہیں۔ اساتذہ نے بتایا کہ ہم روز اسکول آتے ہیں لیکن طلبا ور طالبات موجود نہین ہیں کس کو پڑھائیں۔ نومبر میں سالانہ امتحانات ہونے ہیں اور ابھی نصاب مکمل نہیں ہو پایا ہے ایسا لگتا ہے کہ یہ طلبا کا تعلیمی سال ضائع ہو جائے گا۔
ستمبر اور اکتو بر میں سیب کی فصلیں کٹنے کا وقت ہوتا ہے کئی کسانوں نے بتایا نہ کٹائی کے لئے مزدور مل رہے ہیں اور نہ ہی باہر سے خریداری کے پیو پاری آ رہے ہیں، ایسا لگتا ہے کشمیر کے باہر جو مزدور آتے تھے وہ موجود نہیں ہیں ایسا لگتا ہے کہ اگر کچھ دن یونہی چلتا رہا تو یہ یہ فصل برباد ہو جائے گی،اس لئے بھی کہ اتنی بڑی تعداد مین سیبوں کو رکھنے کے لئے کولڈ اسٹوریج کی سہولت مہیا نہیں ہے۔ کشمیر میں لوگوں کی معیشت کا بڑا دارو مدار سیب کی فصل پر ہی ہوتا ہے جس سے سالانہ آٹھ ہزار کروڑ روپیہ کی آمدنی ہوتی ہے۔ اس سے پہلے ناشپاتی کی فصل برباد ہو گئی ہے۔ ہوٹلیں اور ہاؤس بوٹ سنسان پڑے ہیں اس لئے کہ سیاح ندارد ہیں۔ ڈل لیک سے حضرت بل جاتے ہوئے رکشا والے نے بتایا کہ اس کا اصل کاروبار ہارڈ بورٹ کا ہے لیکن سیاہ موجود نہیں ہے بورٹس سنسان پڑے ہیں۔ پیٹ پالنے کے لئے آٹو رکشا چلا رہا ہوں۔
پولس اور سیکورٹی فورسز کے موجودگی سے بے نیاز اور بے خوف طلبا و طالبات سے جب ہم نے لال چوک میں بات کی تو وہ پھٹ پڑے۔ ہندوستان کی مرکزی حکومت نے کس طرح ہمارے ساتھ برتاؤ کیا۔ ہمارے سیاسی رہنما سماجی کارکن، اساتذہ، وکلا، علیحدگی پسند رہنما سب کو گرفتار کیا گیا سیاہوں اور امرناتھ یاتریوں سے کشمیر کو خالی کرا لیا گیا، فون اور مراسلات کی سہولیات سے محروم کر دیا گیا۔ اور پوری طرح ریاست میں کرفیو لگا کر ہم لوگوں کو گھروں میں محصور کر دیا گیا۔ اور اسی سے قبل ریاستی اسمبلی میں کو تحلیل کر دیا گیا اور پھر اچانک 5اگست کو پارلیمنٹ سے دفعہ370 اور 35A کو ختم کر دیا گیا۔ ہمارے مستقبل کا فیصلہ ہم سے رائے تک نہیں لی گئی۔ کیسی جمہوریت ہے، کیا آئنن ہند کی بدترین خلاف ورزی نہیں ہے۔ ہم پچھلے 40دنوں سے پوری دنیا سے کٹ گئے ہیں ہمارے بچے اور طلبا جو ہندوستان کے مختلف شہروں میں تعلیم کی غرض سے گئے ہوئے ہیں ان کی کوئی خبر و خیریت معلوم ہو رہی ہے اور نہ ہی وہ ہم سے رابطہ کر سکتے ہیں اور نہ ہم ان کو رقم بھیج سکتے ہیں۔ یہ کیسی بے بسی اور بے رہمانہ طرز عمل ہے۔
سرینگر میں ڈاون ٹاؤن اور کئی گنجان آبادیاں آج بھی پوری محصور ہیں۔ بڑی تعدا میں پولس اور سیکورٹی فورسز کی موجودگی کی وجہ سے تقریباً وہ جیل جیسی کیفیت میں ہیں۔ پولس اور سیکوریٹی فورسز محلوں میں داخل ہو کر نوجوانوں کو گرفتار نہ کریں اس لئے نوجوانوں نے از خود سڑکیں کھود کر رکاوٹ کھڑی کر دی ہیں۔ سڑکوں پر بڑے بڑے گڈھے کھود دئے ہیں تاکہ پولس کی گاڑیاں اندر داخل نہ ہو سکیں۔
بارامولا میں ایک نوجوان نے کہا ہمارے اور ہندوستان کے بیچ ایک تعلق تھا دفعہ 370کے ذریعہ آپ نے خود اس تعلق کو از خود توڑ لیا ہے۔

سیاست دان اور دیگر رہنماؤں کی گرفتاری کی وجہ سے خود اپنے مستقبل کے بارے میں پریشان ہیں۔ کئی لوگوں نے کہا ہندوستان نے ہمیں دھوکا دیا ہے۔ دفعہ 370 کی منسوخی سے دو دن قبل ریاست کے گورنر صاحب ہمارے سیاسی رہنماوں کو یہ یقین دہانی کر رہے تھے کہ دفعہ 370اور 35Aپر آنچ تک نہیں آئی لیکن پھر اس یقین دہانی کا کیا ہوا۔ کانسٹی ٹیوٹ اسمبلی اور ریاستی اسمبلی کے بغیر یہ پورا عمل غیر قانونی اور غیر دستوری ہے۔
بعض افراد کا خیال تھا کہ حکومت ان کی آبادی کے تناسب کو بدلنا چاہتی ہے، ان کی علاقائیت، ان کی کلچر، شناخت اور ان کے علاقائی مفادات پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں۔
متعدد لوگوں نے حکومت کے اس دعوے کو مسترد کر دیا کہ اس سے علاقہ مین ترقی ہوگی، صنعت اور کاروبار پھلے پھولیں گے۔ انڈسٹرلائیزیشن ہوگا وغیرہ۔ ان کا کہنا تھا کہ آخر دفعہ 370 اس میں کیا رکاوٹ تھی۔ آج بھی ہماری روز مرہ کی زندگی ہماری صحت وغیرہ ہندوستان سے کافی بہتر ہے۔
ملکی میڈیا بالخصوص الیکٹرونک میڈیا کے روئے سے کئی نوجوان شدید ناراض ہین۔ میڈیا ہمارے بارے میں بالکل جھوٹ دکھا رہا ہے۔ یہاں حالات بالکل بھی نارمل نہین ہے۔ کیا ہندو کیا مسلمان، کیا پنڈت یا سکھ اور ڈوگرے ہر ایک خود کو ٹھگا ہوا محسوس کر رہا ہے۔ بعض لوگوں نے بی جے پی کی سرکردہ افراد کے بیانات پر شدید اعتراضات کئے۔ یہ کہنا کہ اب ہم کشمیری لڑکیوں کو بیاہ کر لائیں گے۔ یہاں آکر زمین خریدیں گے وغیرہ، یہ ہماری بے عزتی ہے۔ ہماری عزت نفس پر حملہ ہے۔ ہندوستان کے لوگوں کو اس خام خیالی سے باہر آ جانا چاہئے۔ کئی لوگوں کا یہ خیال تھا کہ تقریباً 35سے 40ہزار لوگوں کو اس دوران حراست میں لیا گیا ہے اور انھیں کہاں رکھا گیا یہ ہم بھی نہیں جانتے۔
ہمارے مطالبات
ویلفیئر پارٹی آف انڈیا مطالبہ کرتی ہے ہے کہ:
۱۔ حکومت کشمیریوں سے سنجیدہ مذاکرات کی اپیل کرے تاکہ انھیں اعتماد دی جاس کے اور عوام کی طرف سے عائد کردہ کرفیو ختم ہو سکے اور کشمیر مین نارمل حالات واپس آ سکیں۔
۲۔ فوری طور پر موبائل فون اور انٹرنیٹ کی سروس کو بحال کیا جائے۔
۳۔ وہ تمام لوگ جنہیں مکتلف دفعات کے تحت گرفتار کیا گیا ہے انھیں فی الفور رہا کیا جائے۔
۴۔ کشمیر کی عوام کو یہ یقین دلایا جائے کہ ان کی انفرادیت۔ مذہبی و ثقافتی تشخص، ان کی آبادی اور بزنس کو ہر حال میں محفوظ رکھا جائے گا۔ اس کے لئے انھیں قانونی تحفظ فراہم کیا جائے۔
۵۔ بنیادی حقوق کی پامالی پر فی الفور قدغن لگایا جائے۔
۶۔ ریاست کے باہر سیاسی رہنماؤں اور دیگر افراد کو اشتعال انگیز اور ہتک آمیز بیان بازیوں سے روکا جائے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا