English   /   Kannada   /   Nawayathi

جب میرا سوگ منایا گیا

share with us

جاوید ائیکری ندوی 

جوانی کے دہلیز پر قدم رکھتے ہی ذریعہ معاش کی فکر ستانے لگی، پھر شادی کی خوشیاں ہو یا کسی کے موت کا غم، اکثر یہ خبریں تیلیفون کے ذریعہ ہی موصول ہوئی،  اب تو ایسا محسوس ہوتا ہے فاصلے نے ہر طرح سے جینے کے طریقے سکھا دئے.

بقر عید کے موقع پر کچھ عرصہ اپنے وطن عزیز میں رہنے کا موقع ملا، اچانک عشاء کے کچھ دیر بعد خالہ زاد بہن کے اک تیلیفون نے عجیب سی بےچینی پیدا کردی، کہنے لگی،  خالہ زاد بھائی کو علاج کے لیے فورا مینگور  لے جایا جارہے ہیں ، اک لمحہ کی سستی کئے بنا گھر والوں سے تیار ہونے کہا،  گہری بارش کے باوجود انکی تیمارداری کے لیے نکل پڑا. راستے میں یہی سوچ رہا تھا، بیرون ملک کا سفر اگلے کچھ دنوں ہے، تو بہتر ہے ابھی ملاقات کر آؤں، کچھ ہی منٹوں میں ہسپتال کی سیڑھیوں پر خالہ سے ملاقات ہوئی، انکے چہرے پر آنسو اور رونا میرے دل میں عجیب کشمکش پیدا کرگئی، میرے اصرار پر جب کمرے میں داخل ہوا، تب احساس ہوا روح پرواز ہو چکی ہے، اور ڈاکٹر اپنی ناکام کوشش گھر والوں کو دلاسہ دینے کے لیے کررہے ہیں، میرے اندر اتنی ہمت نہ تھی کہ ڈاکٹروں کو روک دوں یا اچانک ہوئ انکی موت کا اعلان کروں، کمرے میں موجود ہر شخص کو پتہ تھا کہ وہ اس دار فانی سے کوچ کر گئے ہیں، پھر بھی کسی کرامت کی امید میں تھے، کچھ دیر بعد ڈاکٹر نے اپنے ہاتھ اٹھالئے،ہسپتال کے کمرے سے  نکلتے ہی ماتم کا ماحول بن چکا تھا، میں اس درد کو محسوس کر رہا جو بچہ اپنے والد کو، زوجہ اپنے شوہر کے فراق میں روتا ہے، خدا خدا کرکے انکو بھائیوں نے سمجھایا، موت کے سامنے ہم انسان کتنے لاچار کھڑے تھے، حکم خداوندی کے اگے سر جھکانے اور صبر کی تلقین کے سوا اور کوئی چارہ نہیں، کچھ دیر پہلے تک پینسٹھ سال سے  پکارے جانے والا اک *نام* اچانک *میت* میں تبدیل ہو کر رہ گیا.

رات دیر ہوگئی تھی، کچھ خاص رشتہ داروں کا دور دراز علاقوں سے واپس آنا تھا، پوری رات بے چینی میں گذاری، انکے کچھ احسانات اک اک کر کے یاد آرے تھے، صبح میت کو غسل دینا تھا، پہلی بار اس کا موقع ملا، میں اپنے آپ کو اس غسل کے پلنگ پر  بےبس لاچار سویا دیکھ رہا تھا، مجھے پہلے ٹھنڈے اور نیم گرم پانی سے نہلایا جارہا تھا، مجھے  گہری بارش میں ٹھنڈے پانی سے غسل دیا جارہا تھا، جسم کی تکلیف کا احساس کسی کو نہ تھا، مجھے لاچار و بے یارو مددگار نہلایا گیا اور پھر سنت کے مطابق میرا آخری لباس کفن پہنا گیا، میں اپنے آخری سفر کے لیے تیار تھا، مجھے آخری دیدار کے طور پر کچھ دیر کے لیے کمرے میں رکھا گیا، عطر خوب برسی گئی، کچھ اپنوں نے بہت رویا، میرے غسل کے بعد میرے اپنے ہی گھر  میں زیادہ دیر رکھنے کوئی تیار نہ تھا، کل تک میں اپنی گاڑی سے جانے والا آج مجھے کس اور گاڑی میں مسجد لے جایا گیا، بارش خوب ہورہی تھی، تیز رفتار بارش جس میں خود باہر نکلنے سے باز آتے ہیں، جس بارش اور کڑکتی گرج کی وجہ سے گھنٹوں گھر میں دبکے رہتے تھے، آج مجھ سے اتنی بے زاری کیوں کہ خود بھیگ کر مجھے منزل مقصود تک پہنچانے میں اتنی جلدی؟ 

میری نماز جنازہ پڑھائی گئی، پھر مجھے کندھا دیا اور *لا إله إلا الله محمد رسول الله* کی تلقین کے ساتھ قبرستان روانہ ہوے، بارش رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی، لیکن میرے اپنوں کے قدم ذرا بھی نہیں ڈگمگائے، بھیگتے بھیگتے میری لحد لگائی اور مجھے مٹی میں  *من ربک، ما دینک......* کے سوال و جواب کے لیے چھوڑ دیا.

اسی قبرستان میں بارش سے بچنے کے لئے سایہ میں کھڑے کچھ افراد باتوں میں لگ گئے، کوئی تیز رفتار بارش مشروم (الف، ب) کی پیداوار کی  بات کر رہا تھا اور بڑھتی مہنگائی سے پریشان لگ رہا تھا، بجائے میت کے لیے دعائے مغفرت کرتا اسے فضول باتوں کی پڑی تھی، میں اسی خیال میں گھر واپس لوٹا. جمعہ کی نماز بعد مجھے اسی میت کے گھر ظہرانہ کے لئے مدعو کیا، میں قطعی مناسب نہیں سمجھا، عصر بعد میں تعزیتی طور پر خالہ زاد بھائی کے گھر پہنچا، گھر کا ماحول بالکل بدل چکا تھا، سچ کہوں تو انکی بیٹیوں اور پردہ نشین بیوی کے علاوہ بہت کم لوگوں کو غم زدہ دیکھا، میرے لیے یہ سب بالکل نیا تھا، والد صاحب کے انتقال کے گیارہ سال بعد کس قریبی کا انتقال دیکھ رہا تھا، کچھ ہی دیر بعد میرے رشتہ داروں میں سے اک نے شکایتا دوپہر کھانے پر نہ آنے کی وجہ دریافت کی،  میرے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا، پھر انہی کی زبانی دوپہر کے کھانے کی تعریف سننے لگا،  جن کو کل رات اور آج صبح روتے دیکھا تھا، کچھ گھنٹے بعد انکے منہ سے یہ  سب سننا میرے لئے کوئی آسان نہ تھا، میت کے دوسرے دن ماحول کچھ خوشگوار نظر آیا، کوئی دوپہر کے کھانے کا میت کے دوست کے گھر سے آنے کی تاکیدا کہہ رہا تھا اور کسی کو عشائیہ کی فکر تھی، تیسرے دن کا سوگ نہ پوچھو، گھر پر شاید دعوت کا ماحول تھا، عصر بعد تیسرے دن کے نام پر سموسے اور شربت بانٹنا تو شاید عام بات ہے.

 

ان سب باتوں کو ذہن میں رکھ کر میں اپنی موت کی فکر کر رہا تھا، یہ سب باتیں نہ صرف میرے رشتہ داروں میں بلکہ قارئین کے اکثر گھر کا ماحول بھی اس سے زیادہ یا کچھ کم ہی ہوگا. سوچنے کی بات یہ م ہے کہ میں اور آپ نے کیا اس موت کی تیاری کی ہے؟ میری بعد میری قریبی کو کچھ عرصہ کے لیے تکلیف ہوگی، وقت کے ساتھ وہ بھی میری اور آپکے موت کی حقیقت تسلیم کریں گے، کچھ صدقہ جاریہ کریں گے تو کوئی میرے اور آپ کے حق میں دعا بھی نہ کریں، میرے مال اور موت کے درمیان کچھ ملی گرام وزنی کا جسم سے نکلنے کی دیری ہے، جسے ہم *روح* کے نام سے جانتے، پھر وہی مال جسے حاصل کرنے کے میں اپنی پڑھائی کے بعد سے اب تک لگا ہوں وہ کسی اور کی جائداد بن جاتی ہے، سالوں کی محنت بعد میرا اور اپکا ٹکھانہ وہی دوگز زمین، اگر اللہ نے کچھ زیادہ دیا ہے تو دنیا میں مسجد تعمیر کرکے قبر کی کشادگی کا سودا کرلیں، صدقہ خیرات کرتے رہیں، میں گھر واپس اسی سوچ میں جارہا تھا کہ اس تلخ حقیقت کو میں جتنی جلد قبول کروں اتنی ہی آنے والی لا فانی دنیا میرے لیے اچھی ہوگی.

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا