English   /   Kannada   /   Nawayathi

رشیدیت و ندویت کا عطر مجموعہ

share with us

تحریر: مولانا شاہ اجمل فاروق ندوی

۷/اگست ۲۰۱۹ کو مغرب کے قریب موبائل پر یہ خبر پڑھی کہ جامعہ اشرف العلوم رشیدی، گنگوہ میں تفسیر و حدیث کے استاد اور جامعہ کے ماہانہ ترجمان صدائے حق کے معاون مدیربرادرِ محترم مولانا عبدالواجد رشیدی ندوی کا انتقال ہوگیا۔ خبر پڑھ کر دل دھک سے رہ گیا۔ دو تین بار پڑھا۔ ہوسکتا ہے کوئی اور عبدالواجد ہوں۔ لیکن خبر اتنی واضح تھی کہ کسی ادنیٰ شبہے کی گنجائش نہ رہی۔ اناللہ و انا الیہ راجعون پڑھ کر حسب توفیق ایصال ثواب کیا۔ بعد میں برادر گرامی قدر مولانا محمد ساجد کھجناوری سے حادثے کی تفصیلات بھی معلوم ہوئیں۔

    مولانا عبدالواجد رشیدی ندوی (۱۹۸۰۔ ۲۰۱۹) جب گنگوہ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ پہنچے، تو حسب ضابطہ عالیہ ثالثہ میں داخلہ ہوا، یعنی عالمیت سے پہلے والے سال میں۔ اُس وقت ہم بھی اسی درجے میں تھے۔ البتہ سیکشن الگ تھے۔ پھر اُن کو دارالاقامہ بھی رواق سلیمانی ملا۔ ہم بھی چند دن پہلے اسی دارالاقامہ میں منتقل ہوئے تھے۔ تیسرا نکتۂ اتحاد یہ پیدا ہوا کہ وہ بھی استاد گرامی مرتبت مولانا عبدالعزیز بھٹکلی ندوی (نائب مہتمم دارالعلوم ندوۃ العلماء) کے دامن گرفتہ تھے اور ہم بھی۔ ان تینوں وجہوں سے واجد بھائی سے اکثر ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں اور بڑی اپنائیت کے ماحول میں ہوتی تھیں۔ کبھی دارالاقامہ میں، کبھی لائبریری میں، کبھی دارالعلوم میں اور کبھی کینٹین میں۔ اس وقت ذہن پر بہت زور ڈالنے کے باوجود بھی ایک مرتبہ بھی اُن کا چہرہ مرجھایا ہوا اور روکھا پھیکا یاد نہیں آرہا ہے۔ ہر وقت ہشاش بشاش، چہکتے چمکتے۔ کوئی فحش اور نازیبا لفظ تو بہت دور کی بات ہے، کبھی اُن کی زبان سے کوئی منفی انداز کا ہلکا پھلکا تبصرہ بھی نہیں سنا۔ حالاں کہ آج کل دینی حلقوں میں بھی اس طرح کی تبصرے بازی بڑی ذہانت کی دلیل سمجھی جاتی ہے ، لیکن جو لوگ ماحول کے بجائے سیرت نبوی (علی صاحبہا صلاۃ و سلاما) سے متاثر ہوتے ہیں، اُن کے نزدیک یہ چیز ذہانت کے بجائے فطری رکاکت کی دلیل ہوتی ہے۔ ہم دو سالہ رفاقت کی بنیاد پر اس بات کی گواہی دے سکتے ہیں کہ بھائی عبدالواجد بھی ایسے ہی پاکیزہ صفت لوگوں میں تھے، جنھوں نے اپنے کردار اور بالخصوص زبان کو سنت نبوی کے رنگ میں رنگنے کی کام یاب کوشش کی تھی۔

          مولانا عبدالواجد رشیدی ندوی سے میری دانت کانٹے کی دوستی نہیں تھی۔ بلکہ ہم اُن کے ساتھ کسی قدر ادب و احترام ہی کا معاملہ کرتے تھے۔ ایک محترم ادارے سے فارغ ہونے کی وجہ سے بھی اور عمر میں ہم سے بڑے ہونے کی وجہ سے بھی۔ اس لیے اُن کے ساتھ ہماری رفاقت کی کوئی طویل داستان نہیں ہے۔ البتہ جو بھی یادیں ہیں، وہ سب بہت بے تکلفانہ اور دوستانہ انداز کی ہیں۔ ذاتی طور پر مجھے اُن کے جس وصف نے سب سے زیادہ متاثر کیا، وہ ہے اُن کا جمع بین المشربین۔

          بدقسمتی سے اِدھر ایک ڈیڑھ صدی کے اندر برصغیر میں اہل سنت و الجماعت نے خود کو بانٹ بانٹ کر اپنے درمیان ہی نئے نئے فرقے تراش لیے۔ دعویٰ سب کو اپنے حق پر ہونے کا رہا۔ آگے چل کر نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ جماعتوں اور تنظیموں کو بھی فرقہ کہا جانے لگا۔ یہ سلسلہ صرف تقسیم در تقسیم پر ہی رُک جاتا تو غنیمت تھا۔ تفسیق و تضلیل، حتیٰ کہ کھلے عام تکفیر بھی ہونے لگی۔ موجودہ صورت حال یہ ہے کہ ایک مسلک سے تعلق رکھنے والے دو مختلف مشربوں کے افراد بھی آپس میں شادی بیاہ تو بہت دور کی بات ہے، سلام کلام بھی نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے کفار و مشرکین سے بھی جتنی دوری اختیار کرنے کا حکم نہیں دیا ہے، اُس سے زیادہ دوری مشارب و مسالک کے درمیان پیدا ہو گئی ہے۔ اس دوری کا ہی نتیجہ ہے کہ ہم لوگ دوسرے مزاج و ذوق کے حامل جلیل القدر علماء سے استفادے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اُن کے اداروں میں داخلہ لینا تو عملی طور پر دائرۂ حرمت ہی میں آتا ہے۔ اللہ کا فضل و احسان ہے کہ اب ہر طرف کچھ برف پگھلنے لگی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ دیوبندی، بریلوی، سلفی اور جماعت اسلامی کے مدارس سے فارغ ہونے والے کچھ نہ کچھ طلبہ ایک دوسرے کے ہاں داخلہ لینے لگے ہیں۔ لیکن دوری کے اثرات ابھی خاصی مقدار میں باقی ہیں۔ اسی لیے عام مشاہدہ ہے کہ جو طلبہ کسی دوسرے مزاج و ذوق کے ادارے میں داخلہ لیتے ہیں، وہ اپنا سارا وقت لڑ بھڑ کر ہی گزار دیتے ہیں۔ وہ استفادے کے بجائے افادہ شروع کر دیتے ہیں اور پورا زور اپنی سابقہ مادرِ علمی کا تفوق ثابت کرنے میں گزار دیتے ہیں۔ اس ناپسندیدہ عادت میں کسی ادارے کے فارغین کو الگ نہیں کیا جاسکتا۔ مولانا عبدالواجد رشیدی ندوی کا سب سے مؤثر وصف مجھے یہی لگتا ہے کہ انھوں نے دو مشربوں کو نہایت خوبی کے ساتھ جمع کرکے دکھایا۔ ہم نے بارہا دیکھا کہ وہ ندوے میں زیر تعلیم اپنے ہم مشرب طلبہ کو سمجھاتے بھی تھے اور کبھی کبھی بڑے سنجیدہ اور ہلکے پھلکے انداز میں محاذ آراء بھی ہو جاتے تھے۔ گویا وہ گنگوہ میں سچے رشیدی بن کر رہے اور لکھنؤ میں پکے ندوی۔ اس کے بعد اپنے وطن پہنچے تو وہ علم دین کے پاکیزہ عطر مجموعہ کی طرح سچے پکے رشیدی ندوی بن کر سامنے آئے۔ سچ یہ ہے کہ اپنے جن بزرگوں کا نام ہم دن رات لیتے ہیں، اُن کا رویہ بھی یہی تھا۔ مثال کے طور پر امام محمد بن حسن شیبانی راویِ فقہِ ابو حنیفہ بھی ہیں اور راویِ موطا بھی۔ واجد بھائی نے بھی اسلاف کے اس مبارک رویے کو اختیار کر کے دکھایا تھا۔ اشرف العلوم کے علماء سے بھی استفادہ کیا اور ندوۃ العلماء کے بھی۔ گنگوہ اور اُس کے اطراف کے بزرگوں کی خدمت میں بھی نیازمندانہ حاضر ہوئے اور لکھنؤ کے علماء و مشائخ کی بھی صحبتیں اٹھائیں۔ اسی لیے اُن کے انتقال پر علمائے سہارن پور بھی غم زدہ ہیں اور علمائے لکھنؤ بھی ۔ ماہ نامہ صدائے حق بھی انھیں خراج پیش کر رہا ہے اور ماہ نامہ البعث الاسلامی بھی۔ میرا احساس ہے کہ مولانا عبدالواجد رشیدی ندوی کے تلامذہ اور خُردوں کے لیے اُن کی زندگی کا سب سے بڑا پیغام یہی ہے۔ انھیں اپنے استاد و مربی کو سچا خراج پیش کرنا ہے، تو اسی وصف کو اختیار کرنا ہوگا۔ 

          دارالعلوم ندوۃ العلماء میں وہ استاد محترم مولانا عبدالعزیز بھٹکلی ندوی کے بہت منظور نظر ہوگئے تھے۔ مولانا بھی اُن سے محبت کرتے تھے اور وہ بھی مولانا کے لیے سینہ سپر ہونے کو تیار رہتے تھے۔ جو لوگ استاد محترم کے مزاج اور انداز تربیت سے واقف ہیں، وہ جانتے ہیں کہ ندوۃ العلماء یا اُس سے ملحقہ مدارس کے فارغین مولانا محترم سے وابستہ ہوں، تو زیادہ تعجب کی بات نہیں ہوتی، لیکن ندوے کے نظام کے علاوہ کسی دوسرے نظام سے وابستہ عالم دین اگر ہمارے مولانا سے وابستہ ہوتا ہے، تو یہ بڑے تعجب کی بات ہوتی ہے۔ کیوں کہ ایک تو استاد گرامی کو چاپلوسی، تملق، لفاظی اور بے سر پیر کی منصوبہ سازیوں سے انتہائی نفرت ہے۔ وہ خالص عملی(پریکٹیکل)  انسان ہیں۔ دوسرے یہ کہ وہ اس بات کا شدید اہتمام کرتے ہیں کہ دوسرے تعلیمی نظاموں سے وابستہ رہ چکے طلبہ کو جتنی جلدی ہوسکے اعتدال و توازن اور قدیم صالح و جدید نافع کا درس پڑھا دیں، بلکہ اُن کا بس چلے تو گھول کر پلا دیں۔ خدا نہ خواستہ ایسا کسی عصبیت کی بناء پر نہیں ہوتا، بلکہ اس لیے ہوتا ہے کہ دو سال کے لیے ندوے آنے والے اِن طلبہ کو یہاں کے ماحول میں نامانوسیت نہ لگے۔ جتنی جلدی ہوسکے وہ یہاں کے ماحول کو سمجھ لیں اور خود کو اس میں فٹ کرلیں۔ نماز کے لیے فرادیٰ فرادیٰ تکبیر، آمین بالجہر، رفع یدین اور شافعی طلبہ کے ساتھ اُن کے  اعزہ کے لیے ہونے والی غائبانہ نماز جنازہ میں حنفی اساتذہ و طلبہ کو دیکھ کر وہ وحشت نہ محسوس کرے۔ اس مقصد کے لیے استاد محترم جو گھونٹ پلاتے ہیں، اُسے نگلنا اکثر کے لیے بہت دشوار ہوتا ہے۔ کوئی اگل کر بھاگ لیتا ہے۔ کوئی ایک بار نگل تو لیتا ہے لیکن پھر کبھی اُس فکری شفاخانے کا رخ نہیں کرتا۔ بعض سعادت مند ایسے ہوتے ہیں جو خود بھی مخلص ہوتے ہیں اور طبیب کو بھی مخلص سمجھتے ہیں۔ اپنے اندر بھی بیماری کا امکان رکھتے ہیں۔ وہ کڑوا گھونٹ نگلتے ہیں، افادیت یا عدم افادیت کا جائزہ لیتے ہیں، مرض ختم ہوتا محسوس کرتے ہیں اور اُس وقت تک نہیں ٹلتے جب تک مرض کا خاتمہ نہ ہو جائے۔ پھر زندگی بھر اپنے محسن کو محسن سمجھتے رہتے ہیں۔ ایسے ہی سعادت مند اور سراپا اخلاص علماء میں ہمارے بھائی عبدالواجد صاحب بھی تھے۔ استاد محترم مولانا عبدالعزیز بھٹکلی ندوی سے اُن کی بے لوث وابستگی اُن کے اخلاص اور خود کو محتاج اصلاح سمجھنے کی دلیل ہے۔ ایسا انسان کبھی عملی و فکری طور پر کجی کا شکار نہیں ہوسکتا۔ اپنی ذات میں موجود ان ہی مبارک جذبات کی وجہ سے انھوں نے آگے چل کر ضرورت محسوس کی تو وقت کے معروف مرشدِ روحانی پیر ذوالفقار احمد نقشبندی سے وابستہ ہوگئے۔ میرا مدت سے اُن سے رابطہ نہ تھا، اس لیے نہیں معلوم کہ انھوں نے پیرِ نقش بند سے کیا کچھ حاصل کیا۔ لیکن معرفت کا وہ مے خانہ آج کل ایسا بافیض ثابت ہو رہا ہے کہ ہم بلا تکلف کہہ سکتے ہیں:

ع       مے خانے کا محروم بھی محروم نہیں ہے

          جامعہ اشرف العلوم رشیدی اور اُس کے سربراہِ اعلیٰ مولانا مفتی خالد سیف اللہ قاسمی کا تذکرہ ہم نے سب سے پہلے بھائی عبدالواجد صاحب ہی کی زبانی سنا تھا۔ غالباً ندوے کے حلقے میں اس ادارے کے تعارف کی بڑی وجہ وہی تھے۔اداروں کی تاریخ میں ایسے لوگ بڑی بنیادی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں، جو اپنے اور دوسرے اداروں کے درمیان پل کا کام کرتے ہیں۔ اشرف العلوم کے لیے اُن کی حیثیت ایسے ہی قیمتی فرد کی تھی۔جن دنوں ہمیں اُن کے ذریعے اشرف العلوم کا تعارف حاصل ہوا، انھی دنوں ندوے میں زیر تعلیم دارالعلوم دیوبند کے ایک فاضل نے یہ بھی بتایا کہ واجد بھائی مفتی خالد سیف اللہ قاسمی کے خاندان کے داماد ہونے والے ہیں۔ بس ہمارے ہاتھ تفریح کا ایک موضوع لگ گیا۔ اس حوالے سے بھی اُن سے ہنسی مزاق ہونے لگا۔ ہم کہتے کہ بھائی ہم تو فارغ ہوکر واجد بھائی کے پاس پہنچ جائیں گے، وہ اشرف العلوم میں کہیں لگا لیں گے۔ کوئی کہتا کہ حضرت آپ تو بس ہمیں اپنا خادمِ خاص بنا لیجیے گا۔ ایک دن میں نے کہا : واجد بھائی ! مجھے ناظم مطبخ بنادیجیے گا۔ کیوں کہ یہ ذمے داری سنبھالنے والا مہتمم سے زیادہ مال دار ہوجاتا ہے۔ واجد بھائی نے قہقہہ لگایا اور کہا : بات تو بڑے پتے کی کہہ رہے ہو۔ غرض یہ کہ ہمارے اس ہنسی مزاق میں وہ کبھی حاشیہ لگا دیتے اور کبھی صرف ہنس کر آگے بڑھ جاتے۔

          کافی عرصے پہلے مجھے کہیں سے اُن کا موبائل نمبر مل گیا۔ فون کیا تو بہت خوش ہوئے۔ آواز میں وہی چہک اور کھنک۔ میں نے سب سے پہلے پوچھا کہ آپ کی شادی ہوئی یا نہیں؟ ہنس کر کہا: ہاں ہوگئی۔ میں نے پوچھا: وہیں یا کہیں اور؟ کہنے لگے: وہیں۔ میں نے کہا تو بس ناظم مطبخ کی جگہ خالی رکھیے، میں آرہا ہوں۔ یہ سن کر خوب ہنسے۔ پھر حسب معمول بڑے مخلصانہ انداز میں اپنے علاقے کے مسائل اور اپنے مدرسے کے احوال سنانے لگے۔ زور دے کر کہا کہ گنگوہ آنے کا نظام بناؤ، دو تین دن یہاں رکو اور طلبہ سے بات چیت کرو۔ میں نے تعمیل حکم میںہامی تو بھرلی، لیکن کبھی سفر نہ کرسکا۔ گنگوہ کی عقیدت کی وجہ سے جب بھی سفر کا خیال آتا تو یہ سوچ کر بہت اطمینان ہوتا کہ وہاں، واجد بھائی تو ہیں ہی۔ افسوس! اَب جب بھی گنگوہ کا سفر ہوگا تو سب کچھ ہوگا، بس وہی نہ ہوں گے۔ مولانا محمد ساجدکھجناوری نے بتایا کہ وفات سے کچھ دن پہلے ہی وہ میرا ذکرِ خیر کر رہے تھے۔ خوشی ہوئی کہ ہماری محبت یک طرفہ نہیں تھی۔ میں تو انھیں ہمیشہ یاد کرتا ہی تھا، انھیں بھی میرا خیال آجاتا تھا۔

           امید ہے کہ جس طرح ذمے داران مدرسہ اور اہل خانہ اُن کے بچوں کی پرورش و پرداخت کا نظم کریں گے، اُسی طرح اُن کی مطبوعہ و غیر مطبوعہ تحریروں کی اشاعت کا بھی انتظام کیا جائے گا۔ تاکہ انھیں اولاد صالح اور نافع اعمال، دونوں طرح کے صدقۂ جاریہ کا اجر پہنچتا رہے۔ عشرۂ ذی الحجہ میں بارگاہ ایزدی میں اُن کی حاضری سے قوی امید ہے کہ خالق کائنات نے اُن کو اپنی رحمت کی چھاؤں میں لے لیا ہو گا۔ جس طرح دنیا میں وہ ہمیشہ شاداں و فرحاں رہتے تھے، ان شاء اللہ اُسی طرح وفات کے بعد بھی رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے کس کو کتنی عمر دی ہے، کوئی نہیں جانتا۔ عمر کم زیادہ، چھوٹی لمبی کچھ نہیں ہوتی۔ جتنی پروردگار دیتا ہے، بس اُتنی ہوتی ہے۔ اصل مائی کا لال وہ ہے، جو کم جیے اور اپنے کردار سے زیادہ لوگوں کو متأثر کر جائے۔ مولانا عبدالواجد رشیدی ندوی کے اکثر ملنے جلنے والے میری طرح اس بات کی گواہی دیں گے کہ وہ ایسے ہی مائی کے لال تھے۔ رحمہ اللہ تعالیٰ رحمۃ واسعۃ۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا