English   /   Kannada   /   Nawayathi

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام !!!

share with us

احساس نایاب ( شیموگہ, کرناٹک )

   

ہم کو مٹاسکے یہ زمانہ میں دم نہیں 

ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں 

 

اسلم نے آج اس شعر کو سچ ثابت کرتے ہوئے مایوس مسلمانوں کے اندر امید کی ایک نئی کرن جگائی ہے ......... 

جس کے چلتے ہندوتوادی دہشتگردوں کو اس بات کا احساس دلانا بیحد ضروری ہے کہ آج تک اگر مسلمان ظلم سہہ کر بھی خاموش رہا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ بزدل یا کمزور ہیں بلکہ وہ تو اپنے ملک کی بقا و اتحاد کے خاطر صبر کے گھونٹ پی رہے ہیں لیکن جس دن صبر کے تمام پیمانے لبریز ہونگے ان شاءاللہ اُس دن وہ تمہارے حلقوں میں گھُس کر ایسا بھونچال مچائینگے کہ اُس وقت نہ تمہیں زمین میسر ہوگی نہ آسمان ........ اور الحمدللہ گذشتہ دنوں اسلم کے ہاتھوں اس کا آغاز ہوچکا ہے .............

 

 جی ہاں مدھیہ پردیش میں رہنے والے اسلم نامی اس مسلم نوجوان کو وہاں کے مقامی شرپسندوں نے ہجومی تشدد کا شکار بنانا چاہا لیکن اس دفعہ شرپسندوں کی کرنی انہیں پہ بھاری پڑ گئی جب اسلم نے اپنا دفاع کرتے ہوئے تین لوگوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا اور مارنے کے لئے آئے دہشتگرد خود مارے گئے پھر موقعہ پہ پہنچی خونی ہجوم کے آگے اسلم نے اپنے گھٹنے ٹیکنے کے بجائے جراتمندی و دلیری کے ساتھ انہیں اس انداز سے للکارا کہ قانون کو اپنی جاگیر سمجھ کر قانون ہاتھ میں لینے والوں نے قانون کی مدد لینے میں ہی عافیت جانی ..........

 اس حادثہ کی پوری حقیقت کو تفصیل سے جاننے کے لئے ہمیں کاروان امن و انصاف کے رکن مولانا شاکر حسین قاسمی کی لکھی ہوئی تحریر پڑھنی ہوگی  جس میں انہونے وہ تمام حقائق قلم بند کئے ہیں جو اسلم کے والد نے ان سے فون پر بات کرتے ہوئے دوران گفتگو حادثہ سے متعلق کئی خلاصے کئے ہیں ............ 

دراصل یہ واقعہ عیدالاضحیٰ سے ایک دن قبل کا ہے .........

" منگاولی ضلع اشوک نگر مدھیہ پردیش کا رہنے والا اسلم بقرعید سے ایک دن قبل قربانی کے اوزار لے کر اپنی پھوپھی کے گھر قربانی کے لئے گیا ہوا تھا.

وہاں سے واپسی سے قبل اپنی پھوپھی کی بیٹیوں اور دوسرے بچوں کے ساتھ قریبی راجگاٹ ڈیم پہ تفریح کے لے گیا جہاں چار لڑکوں نے ان بچیوں یعنی ( پھوپھی زاد بہنوں ) کے ساتھ نازیبا حرکتیں کیں جس پر اسلم اور ان لڑکوں میں بحث و تکرار ہوگئی. اس کے بعد اسلم اپنی بہنوں و بچوں کو لیکر گھر واپس آگیا پھر واپسی کے لئے پھوپھی سے اجازت لی جس پر پھوپھی نے کھانا کھاکر جانے کا کہا. ابھی اسلم کھانا کھا ہی رہا تھا کہ وہ چاروں لڑکے گھر پہ آگئے اور گالیاں بکنے لگے. اس کی پھوپھی نے معاملہ کو رفع دفع کرکے اسلم سے کہا کہ تم فوراً گھر چلے جاؤ یہ لڑکے غنڈے بدمعاش قسم کے ہیں. پھوپی کے کہنے پر اسلم وہاں سے نکل گیا اور بائی پاس سڑک پہ آکر بس کا انتظار کرنے لگا بس نہ ملنے کی وجہ سے وہ بڑے آٹو پر سوار ہوگیا. لیکن جب آٹو ایک دوسرے گاؤں کے قریب آیا تو یہ چاروں موٹر سائکل سے نمودار ہوئے اور آٹو کو روک لیا. پھر بنا کچھ کہے سنے اسلم پر حملہ  کردیا. اسلم نے ان سے لاکھ معافی چاہی مگر وہ ایک سننے کو تیار نہ ہوئے.جیسا کہ آئے دن ہوتا رہتا ہے جب کسی ایک اکیلے فرد کو بنا کسی غلطی کے ایک بھیڑ بے رحمی سے پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیتی ہے اور وہ بیچارہ رحم کی بھیک مانگتا ہوا زندگی کی بازی ہار جاتا ہے........

 

 بالکل اسی طرح یہ لڑکے اسلم پہ ٹوٹ پڑے جب اسلم نے دیکھا کہ ان کے ارادے اُسے جان سے مار ڈالنے کے ہیں تو پھر اسلم نے اپنے پاس موجود قربانی کرنے والے اوزار سے (جو وہ پھوپھی کے یہاں قربانی کرنے کےلئے لے کر گیا تھا) ان مآب لنچنگ کی کوشش کرنے والوں پر حملہ کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے سارا منظر بدل گیا.

وہ جو قتل کرنے کے لئے آیا تھا وہ زمین پر تڑپنے لگا. ایک بھاگ کھڑا ہوا جبکہ تین کو چاقو کے گہرے زخم آئے. دو نے وہیں دم توڑ دیا جبکہ تیسرے نے ہاسپیٹل پہنچ کر جان دی. اس ہنگامے کے بعد لوگوں کی ایک بھیڑ اکٹھی ہوگئی اور اسلم کو گھیر لیا. بھیڑ میں سے کئی طرح کی آوازیں آنے لگیں. کچھ لوگوں نے کہا کہ اس کو بھی نمٹادو جس پر اسلم نے کمال دانشمندی سے پکار کر کہا کہ اگر کسی نے مجھے ہاتھ لگانے کی کوشش کی تو اس کی بھی لاش بچھادوں گا. اسلم کی یہ بات سننے کے بعد کسی کی جرآت نہیں ہوئی کہ اسلم کو ہاتھ بھی لگا سکے .........

جب وہاں موجود بھیڑ کو لگا کہ ہم اس کو کچھ نہیں کرسکتے تو انہوں نے 100نمبر ڈائل کرکے پولس کو اطلاع دی. پولس نے آکر اسلم کو گرفتار کرلیا. اور وہاں موجود لوگوں نے اسلم کو پھنسانے کے لئے ایک نئی کہانی بناکر پولس میں ایف آئی آر درج کرائی کہ اسلم کی ان سے پرانی رنجش تھی جس کی وجہ سے یہ واقعہ پیش آیا تاکہ اسلم کو کڑی سے کڑی سزا دلوائی جاسکے. جبکہ اسلم کے والد کے مطابق اسلم ان لوگوں کو جانتا بھی نہیں تھا ...........

یہ ہے وہ خلاصہ جو اسلم کے والد نے کیا ہے اور اس حقیقت کو ساری دنیا تک پہنچانا بیحد ضروری ہے تاکہ اسلم کو انصاف ملے اور اسلم کی جرات بہادری دانشمندی کو دیکھ کر دیگر مسلم نوجوانوں کے حوصلے بلند ہوں اور وہ بزدل بن کر مرنے کے بجائے اپنی دفاع میں لڑتے ہوئے دشمنان اسلام کو دھول چٹائیں اور اسلام کے جنگجو سپاہی بن کر جام شہادت نوش کریں ...........

کیونکہ آج پولس سے لے کر قانوں ہر کوئی ہمارے نوجوانوں کو ڈرانے دھمکانے اُن کے حوصلوں کو پست کرنے کی جی توڑ کوشش کررہے ہیں تاکہ ہم  لڑنے سے پہلے ہی دشمن کے آگے اپنے ہتھیار ڈال دیں اور موت کے ڈر سے اُں کے آگے اپنے گھٹنے ٹیک کر زندگی کی بھیک مانگتے ہوئے گڑ گڑائیں پھر وہ ظالم مردود ہمیں تڑپا تڑپا کر سرعام کیڑے مکوڑوں کی طرح روندھتے ہوئے ہماری موت کا تماشہ بناسکیں جسے دیکھ کر مسلمانوں کے اندر خوف و دہشت تاری ہوجائے اور وہ ہمارے اندر خوف پیدا کر سالوں سال ہمیں اپنا غلام بناکر ہم پہ یونہی ظلم و جبر کرتے رہیں ............

اپنے اس گندے مقصد کو کامیاب کرنے کے خاطر ان فرقہ پرستوں نے اس حادثہ کو بھی قتل کا رنگ دینے کی کوشش کی ہے اور اسلم کو گرفتار کر کے ایک مرتبہ پھر سے اس بات کو سچ ثابت کردیا ہے کہ ...........

وہ قتل پہ قتل کرکے بھی منصف کہلائینگے

اور ہم ظلم سہہ کر بھی گنہگار بن جائینگے ......

 

باوجود اس کے آج اسلم کے اس جراتمندانہ اقدام نے ہمیں شاعر کا وہ شعر یاد دلادیا کہ

 

" اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ

جس دئیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا ".......

 

 فی الحال تو اسلم پولس کی گرفت میں ہے. اب دیکھنا یہ ہے کہ انصاف کی بڑی بڑی باتیں کرنے والے مسلم رہنماء و قائدین اس دلیر بہادر نوجوان کی دفاع میں کیا کرتے ہیں کیونکہ اکثر ہم مسلمان قوم میں صلاحدین ایوبی اور محمد بن قاسم جیسے دلیر  جوان مرد نہ ہونے کا اظہار افسوس کرتے ہوئے نوجوانوں کو اُن جیسا بہادر بننے کی ترغیب دلاتے ہیں اور آج جب کسی میں وہ شبیہ جھلک رہی ہے امید کی نئی کرن نمودار ہوئی ہے تو ہمارا فرض ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اُس امید کی کرن کو دبنے , بُجھنے نہ دیں ..........

 

کیونکہ طویل عرصہ کے انتظار کے بعد کسی دلیر نے انسانیت کے دشمنوں کے آگے اپنی شجاعت دکھائ ہے تو ہمیں بھی اُس کی ستائش کرنی ہوگی تاکہ ہمارے نوجوان  ایک بار پھر سے اسلام کے جنگجو سپاہی بن کر ہمارے ماتھے پہ لگے بزدلی, ذلت و رسوائی کے داغ دُھو سکیں اور زندہ قوم دوبارہ ساری دنیا کے آگے اپنے زندہ وجود کا ثبوت دے پائے. ہر میدان میں جیسے کو تیسے کا سبق سکھاتے ہوئے ہر مظلوم کا سہارا اُس کی امید بن کر ناانصافیوں کا گلا گھونٹیں,  ظالموں کو مستقل اسی طرح کیفر کردار تک پہنچائیں تاکہ پھر کسی بیبس و مجبور بہن بیٹی کو دیواروں پہ صلاح الدین ایوبی اور محمد بن قاسم کا نام لکھ کر مدد کی آس میں اپنی زندگی نہ گزارنی پڑے .........

 

 یہاں پہ ہمیں اس حادثہ کے پس منظر کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اللہ نہ کریں اگر موقعہ پر اسلم ایک پل کے لئے بھی کمزور پڑجاتا تو اُس کے ساتھ موجود پھوپی زاد نازک صنف کے ساتھ کچھ بھی ہوسکتا تھا اور اسلم کی جان بھی جاسکتی تھی جیسے پچھلے 6 سالوں سے لگاتار مسلم و دلت نوجوانوں کی جانیں گئی ہیں ........ 

ہمیں ان تمام حقائق کے سنجیدہ پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے اس بھائی اسلم کا ساتھ دینا ہوگا .........

 

 یاد رہے آج ہم نے اسلم کا ساتھ نہیں دیا تو مستقبل میں کبھی کوئی مسلم نوجوان اسلم بن کر لڑنے کے بجائے تبریز بن کر مرتا رہے گا اور ان شرپسندوں کے ہاتھوں قتل ہونا ہمارا مقدر بن جائیگا اور یہ وحشی درندے ہمارے بےگناہ نوجوانوں کو مستقل یونہی موت کے گھات اتارتے رہینگے جیسے اخلاق,  پہلو خان, افرزول, جنید ,ساحل اور 7 سالہ ننھے عظیم کو شہید کیا تھا .........

اس لئے اب صحیح وقت آچکا ہے کہ ہم آر ایس ایس کے ہندوتوادی دہشتگردوں کو  اُن کی اوقات دکھاتے ہوئے یہ بتائیں کہ ہمارا ایک اسلم جو آج دس پہ بھاری پڑا ہے ان شاءاللہ آنے والے دنوں میں وہی اپنوں کا ساتھ پاکر دس کی جگہ سو پہ بھی بھاری پڑسکتا ہے اور دیگر نوجوانوں کے لئے مشعل راہ بن کر مستقل اپنے جیسے سینکڑوں ہزاروں اسلم تیار کرسکتا ہے اور آج جو جنگلی جانوروں ( خنزیروں ) کی طرح گروہ کی شکل میں آکر تنہاء , کمزور, نہتھے و بےگناہ نوجوانوں کا ماب لنچنگ کرتے ہیں کل جب انہیں کی جان کے لالے پڑجائیں گے تو وہ کسی پہ آنکھ اٹھاکر دیکھنے کی بھی حماقت نہیں کرینگے اور اگر کوئی آئیگا بھی تو وہ بیشک میدان سے دم دبا کر بھاگنے پہ مجبور ہوجائیگا .............

جیسے حال ہی میں کئی علاقوں میں دیکھا گیا ہے کہ کیسے مآب لنچنگ کرنے آئے گاؤ رکشکوں کی ٹولی مار کھاکر موقعہ سے الٹے پیر دم دبا کر بھاگی ہے .........

 

لیکن یہ سب کچھ تبھی ممکن ہوگا جب ہم اپنے نوجوانوں کا ساتھ دینگے اُن کی ستائش کر اُن کی حوصلہ افزائی کرینگے اور وقت کا تقاضہ یہی ہے کہ تمام مسلم تنظیمیں آگے آکر اسلم کو قانونی امداد فراہم کرکے اُنہیں انصاف دلائیں ......... 

اور اس مشکل گھڑی میں اسلم کے والدین  کو یہ یقین دلائیں کہ آج ہندوستان کا ہر  مسلمان اسلم اور اُن کے اہل خانہ کے ساتھ کھڑا ہے ........

 

ویسے بھی اسلم نے کوئی گناہ نہیں کیا بلکہ اُس نے تو سیلف ڈیفنس میں پلٹ وار کیا تھا جسکی اجازت ہندوستانی آئین نے ہمیں دی ہے . آرٹیکل 96 اور 106 میں صاف صاف لکھا گیا ہے کہ جب کسی شخص پہ جان لیوا حملہ ہو اُس جان و مال خطرہ میں ہو تو وہ اپنی جان و مال کی حفاظت  کے خاطر یا کسی اور کی جان بچانے کے خاطر حملہ آور پہ پلٹ وار کرسکتا ہے ....

 اس دوران اگر حملہ آور کی موت بھی ہوجاتی ہے تو یہ قتل نہیں بلکہ حادثہ ہی کہلائیگا اور ہندوستانی آئین کے مطابق اسلم بےگناہ ہے اس لئے اسلم کو ہرحال میں انصاف ملنا چاہئے ............

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

22اگست2019(فکروخبر)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا