English   /   Kannada   /   Nawayathi

 میڈیا کی شفافیت ملک کی طاقت ہے

share with us

خوف و ہراس کا سایہ حکومت کی کمزوری کی علامت ہے 



 عبدالعزیز
    خدا کا شکر ہے کہ کشمیر کے علاوہ ملک میں ایک حد تک اظہارِ رائے کی آزادی باقی ہے، لیکن ایک خطہ میں جسے جموں و کشمیر کہا جاتا تھا اور اب وہ دو حصوں میں منقسم ہوگیا ہے وہاں مکمل طور پر خاموشی طاری ہے۔ لوگ اپنے گھروں میں بند ہیں۔ 5 اگست 2019ء سے یہ سلسلہ شروع ہوا اور اب تک جاری ہے۔ ’ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا‘ نے چند دنوں پہلے نہایت فخر کے ساتھ ایک اعلانیہ جاری کیا ہے کہ میڈیا کی شفافیت ہمیشہ ملک کی طاقت رہی ہے اور رہنا چاہئے۔ اس کے برعکس خوف و ہراس ملک کی کمزوری کی علامت ہے۔ یہ اعلانیہ جموں و کشمیر کے پس منظر میں جاری کیا گیا ہے۔ مواصلات سے لے کر انٹرنیٹ تک پر پابندی سے میڈیا کیلئے رپورٹنگ ناممکن ہوگئی ہے۔ ملک کے کچھ ہی صحافیوں کو جموں و کشمیر کی محدود جگہوں پر جانے کی اجازت ہے تاکہ وہ محدود رپورٹنگ کرسکیں۔
     افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ جموں و کشمیر کی میڈیا سب سے زیادہ متاثر ہے۔ انٹرنیٹ کی عدم موجودگی سے صحافت گونگی اور بہری ہوگئی ہے۔ گلڈس کے اعلانیہ میں حکومت ہند کو یاد دلایا گیا ہے کہ سارے صحافی اور سارے ہندستانی شہری برابر کی آزادی کا حق رکھتے ہیں۔ میڈیا کی آزادی پر قدغن در اصل جمہوریت پر ضرب کاری ہے۔ حکومت ہند نے اعلان کیا ہے کہ مواصلات میں ڈھیلائی آہستہ آہستہ دی جائے گی۔ کچھ پرائمری اسکول بھی کھولے جائیں گے۔ 15 دنوں کی مکمل تالا بندی سے جمہوری حقوق کے سلسلے میں حکومت ہند کا رویہ بے نقاب ہوجاتا ہے۔ قومی سلامتی کے نام پر میڈیا بلیک آؤٹ سے عوام کی زندگی مفلوج ہوگئی ہے اور جمہوریت بے اثر اور بے معنی ہوکر رہ گئی ہے۔ اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ اس کا اقدام درست ہے تو پھر میڈیا پر قدغن لگانے کی کیا ضرورت ہے؟ 
    ایڈیٹرس گلڈ نے خوف کی طرف اشارہ کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت ہند کو ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ایسے وقت میں جبکہ جموں و کشمیر کی حیثیت میں تبدیلی آئی ہے تو حکومت کا اعلیٰ اخلاق اور قوم پرستانہ کردار سے جو ماحول جموں و کشمیر میں دکھائی دے رہا ہے اسے ملک کے دوسرے حصوں کے باشندوں اور شہریوں کو معلوم ہونا چاہئے۔ اس شفافیت سے حکومت کی قدر و قیمت میں اضافہ ہوگا۔ اور جب شفافیت نہیں ہوگی تو حکومت خود بتاتی ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ حکومت یہ بھی جانتی ہے کہ بہت دنوں تک کسی خطے، کسی فرد یا جماعت کو خاموش نہیں رکھا جاسکتا۔ اضطراب و بے چینی جب بڑھتی ہے تو جماعت ہو یا افراد ہوں وہ پھٹ پڑتے ہیں۔ حقوق انسانی کو سلب کرنے اور میڈیا کی آزادی پر پابندی عائد کرنے سے حکومت کی نام آوری پر سوال اٹھنے لگتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ دنوں تک سوالوں کو یا آوازوں کو دبایا جائے لیکن بہت دنوں تک آوازوں کو دبانا اور جواب دہی سے بچنا حکومت کی بدنامی کا سبب ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے حکومت کے آمرانہ ذہن کی عکاسی ہوتی ہے۔
     پوری دنیا میں اور خود ہمارے ملک میں جمہوری طرزِ حکمرانی کو پسند کیا جاتا ہے۔ سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی نے ایمرجنسی لگائی تھی جس سے اندرا گاندھی بھی بدنام ہوئی تھی اور ان کی حکومت کی نام وری بھی ختم ہوگئی تھی۔ جب انتخاب ہوا تو ان کو شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ملک کے لوگ آزادی کیلئے پچاسوں سال تک لڑتے رہے۔ بہت سے لوگوں نے آزادی اور جمہوریت کے حصول کیلئے اپنی زندگیاں نچھاور کی ہیں۔ آج جو آزادی ملی ہے بہت بڑی قربانیوں اور جدوجہد کے بعد ملی ہے۔ ہندستان کو دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک سمجھا جاتا ہے لیکن جموں و کشمیر میں بہت دنوں تک اظہارِ رائے کی آزادی نہیں رہتی، لوگ گھروں میں مقید رہتے ہیں، لیڈران جیلوں میں یا گھروں میں نظر بند رہتے ہیں تو ملک جو جمہوریت کیلئے جانا جاتا ہے اس پر بٹہ لگ سکتا ہے اور حکومت بھی بدنام ہوسکتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ جموں و کشمیر میں جمہوریت بحال کر دی جائے اور لوگوں کے دل و دماغ پر پابندی عائد نہ ہو۔ انھیں اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کرنے کا پورا پورا موقع دیا جائے۔
     فوجی طاقت کے بل بوتے پر عوام کے حقوق کو سلب کرنے کی کوشش غیر جمہوری اور غیر دستوری ہے۔ جارحانہ قوم پرستی کے نشے میں بہت سے لوگوں کی زبانیں خاموش ہیں یا حالیہ اقدام پر رطب اللسان ہیں۔ اس اندھیرے میں روشنی کی کرن یہ ہے کہ کچھ لوگ خاص طور پر بایاں بازو کے لوگ اور کانگریس پارٹی کے بہت سے لیڈران حکومت کی غلطیوں کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ اگر چہ ان کی تعداد کم ہے لیکن سچائی اور حق کا معیار تعداد کی کمی اور بیشی نہیں ہے۔ جو لوگ بھی حق گوئی اور بے باکی کا مظاہرہ کر رہے ہیں وہ حقیقت میں جمہوری قدروں، دستوری قدروں کی غیر معمولی پاسبانی کر رہے ہیں۔ ایسے لوگ زمین کے نمک ہوتے ہیں۔ اور ایسے ہی لوگوں سے ملک کی زندگی اور قوم کی ترقی وابستہ ہے۔ ان کی تعداد میں جیسے جیسے اضافہ ہوگا ملک کی جمہوریت اور آزادی کی جڑیں مضبوط سے مضبوط تر ہوں گی۔ 

مضمون نگارکی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

20اگست2019

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا