English   /   Kannada   /   Nawayathi

آزادی ہند میں علماء کرام کا کردار

share with us

 

از:  مفتی صدیق احمد  جوگواڑ نوساری گجرات 
 

قدرت کا ازل ہی سے یہ دستور چلا آرہا ہے کہ اس نے کسی بھی محنت کرنے والے کی کدّو کاوش کو ضائع نہیں کیا، کیونکہ اللہ کا فرمان ہے: اللہ تعالی احسان کرنے والوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتے ہیں.
نیز یہ مقولہ بھی مشہور ہے کہ جو کوشش کرتا ہے پھل پاتا ہے،  ان ہی چیزوں کو مدّنطر رکھتے ہوئے ہمارے علمائےکرام نے ۲۰۰ سال تک انگریزوں سے نبرد آزما ہو کر بڑی بڑی قربانیاں پیش کیں، جسکے نتیجے میں ملک کو انگریزوں کے چنگل اور ناپاک قبضوں سے چھڑا کر غلامی کی زنجیرکو اکھاڑ پھیکا، بالآخر ملک کو آزاد کراکے ہی رہے، جنکا مقصد انسانوں کو انسانیت کا سبق سکھلانا تھا؛
آپ حضرات اچھی طرح جانتے ہیں کہ 15اگست 1947 ء میں ہندوستان آزاد ہوا، اور 26 جنوری  1950 ء میں جمہوریہ قانون بنا، یاد رکھیے آزادی ایک لفظ نہیں بلکہ ایک رویّہ ہے،  غلامی میں طاقتور انسان کمزور پر پابندی لگاتا ہے، اسکی کچھ تفصیل مندرجہ ذیل ہیں؛
انگریزوں کی ہندوستان آمد:
واسکو ڈی گاما کی قیادت میں پرتکال ملاحوں نے سب سے پہلے سرزمیں ہند کو اپنے ناپاک قدموں سے آلودہ کرنے کے لیے ساحل کے راستے سے بنگال آئے، اور جگہ جگہ تجارت کامرکز بنالیا، جسکی آڑمیں مذہب کی اشاعت بھی کرتے تھے، اُسوقت ہندوستان سونے کی چڑیا کہلاتا تھا،انگلستان کے تاجروں کو ادھر متوجہ کیا 30.000  پاؤنڈ سے ایسٹ انڈیا کمپنی کی بنیاد رکھی 1601ء میں پہلی مرتبہ اس کمپنی کے تجارتی جہاز ہندوستان کے ساحلوں پر لنگرانداز ہوئے،1612 ء  میں جہانگیر کے عہد حکومت میں ہندوستان کے شہنشاہوں سے اجازت لیکر سورت کو اقتصادی مرکز بنا لیا،  عالمگیر کے عہد تک یہ لوگ صرف تجارت تک ہی محدود رہیں، اورنگزیب عالمگیر کے بعد مغلیہ سلطنت کا شیرازہ منتشر ہونےلگا اسی دور میں یہ ملک طوائف الملوکی کاشکار ہوگیا، بہت سے صوبوں نے اپنی خودمختاری کااعلان کردیا؛
جنگ آزادی کا آغاز:
عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ انگریزوں کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز 1857 ء سے ہوا لیکن یہ ایک غلط بات ہے جو جان بوجھ کر عام کی گئی ہے، تاکہ 100برس قبل جس تحریک کا آغاز ہوا،
اورجس کے نتیجے میں بنگال میں سراج الدولہ نے 1757ء میں مجنوں شاہ نے 1776ء  میں حیدر علی نے1780ء میں ان کے بیٹے ٹیپوسلطان نے1767 ء میں مولوی شریعت اللہ نے1791ء میں انکے بیٹےدادو میاں نے1812 ء میں سید احمد شہید نے 1831 ء میں انگریزوں کے خلاف جو باقاعدہ جنگیں لڑی ہے، وہ سب تاریخ غبار میں ڈوب جائےگی،حالانکہ وہ سب مسلمان انگریزوں کے خلاف لڑتے رہیں، انگریز سارے ملک کے خزانے کو لوٹ کر اپنے ملک لے جاتے رہیں، مسلمان لڑائی لڑتے رہیں، حتّٰی کہ 10 مئی 1857 ء کو تحریک آزادی کا دوسرا دور شروع ہوا،
سراج الدولہ وہ پہلا شخص ہے جس نے انگریزوں کے خطرے کو محسوس کیا، اور ان کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنے کی کوشش کی، پلاسی کے میدان میں جنگ کی، اگر انکا وزیر میر جعفر غدّاری نہ کرتا تو انگریز دُم دبا کر بھاگ جاتے، لیکن1764 ء میں بہار اور بنگال پر قابض ہو گئے.
حیدرعلی اورٹیپوسلطان کاکردار: 
مولانا ابوالحسن علی لکھتے ہیں کہ پہلا شخص جس نے اس خطرے کو محسوس کر کے بالغ نظری اور بلند ہمتی سے کام لیا وہ یہی ہے، حیدر علی اور ٹیپو سلطان نے انگریزوں سے چار جنگیں کی، ٹیپوسلطان میں حکمراں ہوئے، اور 1783 ء میں پہلی جنگ کی، انگریزوں کو شکست ہوئی، اسی طرح 1784 ء میں یہ جنگ ختم ہوئی، یہ میسور کی دوسری جنگ کہلاتی ہے،1792 ء  میں انگریزوں نے انتقام لینے کے لئے جنگ کی، 1792 ء میں ہی حملہ کیا مگر اپنے وزراء افسران خصوصا میر صادق کی بےوفائی، اور اپنی ہی فوج کی غدّاری کی وجہ سے ٹیپوسلطان ان سے معاہدہ کرنے پر مجبور ہو گئے، لیکن خط و کتابت کے ذریعے ترکی کے سلطان سلیم عثمانی نیز ہند کے راجا ؤں کو انگریزوں کے خلاف جنگ پر آمادہ کرنے کی کوشش کی، اور زندگی بھر انگریزوں سے سخت معرکہ آرائی میں مشغول رہیں، انگریزوں کے سارے منصوبوں پر پانی پھیر دیا، 4 مئی 1799 ءمیں سرنگاپٹنم کے معرکہ میں شہید ہو کر سرخرو ہوگئے،  انہوں نے کہا تھا کہ آج سے ہندوستان ہمارا ہے.
جنگ آزادی میں شاہ ولی اللہ اورانکے شاگردوں کاکردار:
یہ وہ دور تھا جب انگریزوں کے ساتھ دیگر ممالک ایران، افغانستان، سے تعلق رکھنے والے حکمران ہندوستان کو اپنے زیر نگیں کرنے کے لئے حملہ آور ہوئے،  1738ءمیں نادر شاہ نے دہلی کو تباہ و برباد کر دیا1757 ء میں احمد شاہ ابدالی نے دو ماہ تک مسلسل اس شہر کو یرغمال بنائے رکھا، دوسری طرف انگریز فوجیں مرہٹوں سے ٹکرائی،  ابھی پوری طرح دہلی کا اقتدار حاصل نہیں ہوا تھا کہ امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے 1762 ء میں مستقبل کا ادراک کر لیا، اور دہلی پر قبضہ سے 50برس قبل اپنی جدوجہد کا آغاز کر دیا، آپ پر ج

ان لیوا حملے کیے گئے، لیکن آپ ڈٹے رہے، تحریر و تقریر میں اپنا نظریہ پیش کیا، اور فرمایا کہ ظلم و بربریت انسان کے لیے کینسر کی حیثیت رکھتا ہے، اس کو ختم کیا جائے، افسوس کے شاہ صاحب 1765 ءمیں وفات پاگئے، اور ان کا خواب تشنئہ تعبیر رہ گیا،  تاہم اپنی کتابوں فکروں کی ذریعے نصب العین متعین کر چکے تھے، لہٰذا ان کے چھوڑے ہوئے کام کو پورا کرنے کے لئے شاہ عبدالعزیز صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے حوصلہ دکھایا، حالانکہ وہ 17 سال کے تھے، اس میں ان کے تینوں بھائی شاہ عبدالقادر، شاہ رفیع الدین، شاہ عبدالغنی صاحب ان کے علاوہ عبدالحی، شاہ اسماعیل شہید، سید احمد شہید، مفتی الہی بخش کاندھلوی نے ان کا ساتھ دیا،1803 ء میں لارڈلیک نے شاہ عالم کے ساتھ ایک معاہدہ کیا، اور دہلی پر قابض ہوگیا، یہ فارمولہ اس لیے اختیار کیا تھا کہ لوگ عوام بادشاہت حکومت کے خاتمے سے بددلی مایوسی کے شکار ہوجائیں، مگر شاہ عبدالعزیز صاحب اس کو محسوس کر رہے تھے، لہٰذا جرات مندانہ فتویٰ جاری کردیا، 
بالاکوٹ:
اس فتوے کا نتیجہ تھا کہ آپ کی تحریک کے سپاہی سید احمد شہید نے گوالیار کے مہاراجہ کو لکھا کہ یہ بیانگان بعید الوطن و تاجران متاع فروش بادشاہ بنے بیٹھے ہیں، واقعی عار کی بات تھی، لہٰذا مہاراجہ نے کہا کہ ہمیں جنگ پر آمادہ کرنا چاہتے ہیں، اور اپنے پیرومرشد شاہ ولی اللہ کے حکم پر امیر علی خان سنبھلی کے پاس بھی تشریف لے گئے، جو اسوقت راؤہلکر کے ساتھ مل کرانگریزی فوجوں پر شب خوں ماررہا تھا،  1815 ء تک یہ اشتراک کامیابی کے ساتھ جاری رہی،  لیکن انگریز نے امیر علی خان کو خواب کا خط دے کر ہتھیار رکھنے پر مجبور کردیا، حضرت سید احمد شہید واپس دہلی واپس ہوگئے 1818 ء  تک تمام چھوٹے بڑے علاقے اور ریاستی انگریزوں کے زیر اقتدار آ گئی،  شاہ عبدالعزیز صاحب نے اپنے پیرانہ سالی میں ایک نیا لائحہ عمل تیار کیا، دو کمیٹیاں بنائی، جس میں سے ایک کا اقتدار اپنے ہاتھ میں رکھا، اس میں شاہ محمد اسحاق، شاہ محمد یعقوب صاحب دہلوی، مفتی رشید الدین دہلوی، مفتی صدر الدین آزردہ، مولانا حسن علی لکھنؤی، مولانا حسین احمد ملیح آبادی، مولانا شاہ عبدالغنی صاحب جیسے لوگ شامل تھیں،  یہ سلسلہ شاہ ولی اللہ دہلوی کے طے کردہ خطوط کے مطابق چلا کرمنبرومحراب کی زینت بنے، دوسری کمیٹی کی قیادت حضرت سید احمد شہید کے سپرد کی گئی، شاہ اسماعیل شہید کو مولاناعبدالحی کو انکا خصوصی مشیر مقرر کیا گیا، جنکا کام یہ تھا کہ ملک بھر میں گھوم کر عوام کے دلوں میں ملک کی حفاظت کاجذبہ پیدا کریں، مال فراہم کریں،  1824 ء میں حضرت شاہ احمد شہید نے پورے طور پر خود کو جہاد کے لیے وقف کردیا، 11ستمبر 1826 ءمیں فوجی کارروائی شروع کرکے اس کا آغاز کیا، کئ جنگیں باضابطہ لڑی گئیں 10جنوری 1827ءکو ایک عارضی  حکومت بھی قائم ہوئی، بے شمارجنگوں کے بعد 1831 ء  میں بالآخر ان کی فوج شکست سے دوچار ہوگئی، شاہ اسماعیل شہید اور دیگر بے شمار ساتھیوں نے بالاکوٹ میں جام شہادت نوش کیا، ان ہی کی کوششوں سے 1857 ء میں انقلاب کی تحریک دوبارہ چلی، اور تحریک آزادی کا دوسرا دور شروع ہوا، انگریزوں نے اسی وہابی تحریک کا نام دیا تھا،1848 ء میں اسی تحریک سے وابستہ لوگوں نے انگریزوں سے بےشمار جنگ لڑی،  بہت سے لوگوں نے جام شہادت نوش کیا، کچھ لوگ گرفتار ہوئے، 1857 ء میں شاملی، ضلع مظفرنگر، کے میدان میں علمائے دیوبند نے انگریزوں سے باقاعدہ جنگیں کی، جس کے امیر حاجی امداداللہ مہاجرمکی مقرر ہوئے، اس کی قیادت مولانا رشید احمد گنگوہی ، مولانا قاسم صاحب نانوتوی، مولانا منیر صاحب نانوتوی، کر رہے تھے، اس جنگ میں حافظ ضامن صاحب شہید ہوئے، مولانا قاسم صاحب کو انگریزوں کی گولی لگی، جس سے وہ زخمی ہو گئے، انگریزی حکومت سے وارنٹ نافذ ہوا، لیکن گرفتار نہ ہو سکے، چنانچہ مولانا رشیداحمدگنگوی کو گرفتار کر لیا گیا، اور سہارنپور کے قید خانے میں رکھ دیا گیا، چھ ماہ تک آپ قید و بند کی صعوبتیں جھیلتے رہے، اس میں بظاہر شکست نظر آرہی تھی، لیکن 1857 ء میں فتح ہوئی، اور انگریزوں نے حملہ شروع کیا یہ کہہ کر کہ: ہم ایک ایسا تعلیمی نظام وضع کر جائیں گے کہ جس سے ہندوستانی مسلمان کا جسم تو کالا ہوگا مگر دماغ گورا( انگریزوں جیسا )ہوگا،1857 ء میں علماء نے باقاعدہ حصہ لیا، اس سے 14 برس قبل دو لاکھ مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا تھا، جس میں ساڑھے گیارہ ہزار علماء تھے، 
1884 ء میں کانگریس کا قیام اور اس میں مسلمانوں کا حصہ: 
1884ء میں پہلا اجلاس منعقد ہوا جس میں ممتاز اہل علم حاضر تھے،  اس کے بانیوں میں مسلمان بھی شامل تھے، بدرالدین طیب جی، او رحمت اللہ تھے، اس کا قیام 1885 ء میں ہوا، کانگریس کا چوتھا اجلاس 1887 ء میں مدراس میں ہوا، جس کی صدارت بدرالدین طیب جی نے کی، 1912 ء میں تحریک ریشمی رومال کی ابتدا ہوئی، جس کے بانی فرزندے اول دارالعلوم دیوبند شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی تھے، مولنا عبید اللہ سندھی نےاس میں اہم

رول ادا کیا، مولانا عبیداللہ سندھی نے کابل سے ریشمی رومال پر جو راز دارانہ خطوط شیخ الہند کو مکہ مکرمہ روانہ کیا، برطانیہ کے لوگوں نے ان خطوط کو پکڑ لیا، یہی شیخ الہند کی گرفتاری کا سبب بنا، اور پورے منصوبے پر پانی پھیر دیا، 1917 ء میں شیخ الہند ان کے ساتھیوں کو بحیرہ روم میں واقع جزیرہ مالٹا جلا وطن کیا گیا ، مولاناحسین احمد مدنی، مولانا عزیز گلی پیشاوری، حکیم نصرت حسین، مولانا وحید احمدنے مدتوں اپنے استاذ کے ساتھ مالٹا کی قید کی سختیاں برداشت کی، اورمولانا ابوالکلام آزاد، مولانا محمد علی جوہر، مولانا احمد علی لاہوری، حکیم اجمل خان بھی ساتھ تھے، شیخ الہند کے ساتھ ظالموں نے بہت سخت برتاؤ کیا .
جمیعت علماء کا قیام: 
1919 ءمیں جمیعة علماء کا قیام وجود میں آیا، جس کا بنیادی مقصد وطن کی آزادی تھا، 29 جولائی 1920 ءکو ترک موالات کا فتویٰ شائع کیا گیاشیخ الہند کی رہائی کے بعد، جس کے صدر مولانا کفایت اللہ صاحب کی وفات کے بعد 1940ء سے تادم آخر مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ رہے،  آپ دارالعلوم کے شیخ الحدیث تھے، 
ہندو مسلم اتحاد:
1919 ء میں جلیاں والا باغ سانحہ ہوا، جس میں کئی افراد ہلاک ہوئے، ان ہی ایام میں تحریک خلافت وجود میں آئی، جس کے بانی مولانا محمد علی جوہر تھے، اسی تحریک سے ہندو مسلم اتحاد وجود میں آیا، گاندھی جی، علی برادران، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، اور مسلم رہنماؤں نے ساتھ ملک کر ملک کی گیر دورہ کیا،1920ء میں گاندھی جی، اور مولانا ابولکلام آزاد نے غیرملکی مال کا بائیکاٹ، اور نان کو آپریشن یعنی ترک موالات کی تجویز پیش کی، یہ بہت کارگر ہتھیار تھا، 1920ء میں موپلا بغاوت اور1922 ء میں پولیس فائرنگ 1930 ء میں تحریک سول نافرمانی نمک اندولن،  1942 ءمیں ہندوستان چھوڑو تحریک چلی، 1946 ءمیں ممبئی میں بحری بیڑے کی بغاوت کی حمایت میں ہونے والے مظاہروں میں ہزاروں لوگ شہید ہوئے ، مسلمان جو ایک طویل عرصے تک اس میں شامل تھے، ان کو فراموش کیا جا رہا ہے، بہرحال 15 اگست1947 ء کو یہ ملک انگریزوں کے چنگل سے آزاد ہوا. اور جمھوریت کا نفاذ ہوا.
جمہوریت کے معنی یہ ہے کہ لوگوں کی طاقت یا لوگوں کا اقتدار .
20 جنوری 1950ء میں قانون آئین کا نفاذ ہوا اس کا اعلان کیا گیا، آج 70سال بیت گئے اسی کی خوشی منائی جاتی ہے ،
آئین کا 'خلاصہ یہ ہے کہ سات بنیادی حقوق دیے گئے: ن 1 )حق کے مساوات  2) ہفتے آزادی نمبر 3) استحصال سے حفاظت کا حق 4 )مذہبی آزادی کا حق  5) تعلیمی اور ثقافتی حقوق  6)  جائداد کے حقوق 7 )دستوری معاملات میں محافظت.
لیکن افسوس صد افسوس!!!  آج ان سارے آئین و قوانین کا جنازہ نکل چکا ہے، مسلمانوں کے شریعت پر چلنے کے اختیار کو چھین کر ان کو ختم کرنے کی صرف سازش ہی نہیں بلکہ عملی طور پر ثبوت بھی پیش کیا جا رہا ہے، ایسے حالات میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیئے اس کو آپ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جائزہ لیجئے تو پتہ چلے گا کہ مسلمانوں کی اقلیت اور کفر کفاروں کی کثرت تھی مکہ میں تو مکی زندگی میں تین کاموں کو بنیاد بنایا جو کامیابی کا سبب بنا 1 )وحدت  2) دعوت 3 )خدمت 
ہندوستانی مسلمان اگر ان تینوں باتوں پر عمل کر لے تو ساری مشکلات و مصائب دور ہو جائیں گے، ان شاء اللہ
علامہ اقبال نے کیاخوب کہا ہے: 
جلا ڈالیں تھی تم نے کشتیاں اندلس کے ساحل پر، 
مسلمان پھر تیری تاریخ دہرانے کا وقت آیا، 
چلے تھے تین سو تیرہ جہاں سے تم مسلمانوں،
انہیں ماضی کی راہوں پر پلٹ جانے کا وقت آیا،

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

15اگست2019

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا