English   /   Kannada   /   Nawayathi

جیتے جی جلائیں پھر مرنے کے بعد پلائیں !!!

share with us

احساس نایاب

دورحاضر اس کہاوت کی طرح "جیتے جی جلانے ,مرنے کے بعد پلانے" کو ہم مسلمانوں نے اپنا شیوہ بنا لیا ہے .....

 اکثر ہر شعبے میں ہم اپنوں ہی کی تنقید کرتے ہوئے اُن کی مخالفت میں کھڑے نظر آتے ہیں اور جو قوم کی فلاح و بہبودی کے لئے جدوجہد کررہے ہوتے ہیں. ہم اُنہیں کی ٹانگ کھینچ کر گرانے میں لگے رہتے ہیں یا بزدلی کے چلتے اُن بیباک نوجوانون کا ساتھ نہ دے کر انہیں تنہا مرنے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں ..... پھر ان کے مرنے کے بعد رونے دھونے اپنا سر پیٹنے لگ جاتے ہیں ............

 

دراصل آج ہمارے نزدیک زندہ انسانوں سے کئی گنا زیادہ قدروقیمت مردوں کی ہے تبھی ہم اپنوں کی جیتے جی قدر نہیں کرپاتے, جیتے جی اُن کے کئے گئے کارناموں, قربانیوں کی ستائش کر اُن کی حوصلہ افزائی نہیں کرپاتے, بلکہ مرنے کے بعد اُن کے نام کے قصیدے پڑھنے لگتے ہیں .......

 

ایسے میں ہمارے نوجوانوں میں کیسے قائدانہ صلاحیت ابھریگی اور ان میں قوم کے لئے کچھ کرگذرنے کا جذبہ کیسے اور کیونکر آئے گا ؟

 

 آج ہمارے نوجوان فرقہ پرستوں کے خلاف کھڑے ہونے, ان سے لڑنے سے گھبراکر پیچھے ہٹ رہے ہیں .... کئی مقامات میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کیسے خود کو بےقصور ثابت  کرنے کی کوشش میں شرپسندوں  کے ہاتھوں سرعام لات گھونسے کھاکر, ذلیل و خوار ہوتے ہوئے بھی اپنے غصے کو ضبط کرنے پہ مجبور ہوجاتے ہیں یا کہیں بزدلوں کی طرح اُن کے آگے ہاتھ جوڑ کر گڑگڑاتے ہوئے اپنی جان کی بھیک مانگتے ہوئے بےموت مارے جاتے ہیں ...........

 

کیا کبھی کسی نے ان حالات کی اصل وجوہات جاننے کی کوشش کی ہے ؟

 

 ہماری نظر میں تو اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارے اندر کا ڈر ,خوف , ملک کے قانون اور اپنوں سے ناامیدی ہے. کہ اگر ہم اپنی دفا میں حملہ کرینگے تو کہیں وہ ہمیں ہی گنہگار نہ ٹہرائیں ؟ کہیں ہمیں قانونی شکنجے میں نہ کسا جائے ,

اپنے ساتھ اپنے اہل خانہ کو بھی نہ ہراساں کیا جائے , اُس وقت ہماری مدد کے لئے کوئی آگے آئینگے بھی یا نہیں , یہاں تک کہ ہماری اپنی قوم بھی ہمارا ساتھ دے گی یا نہیں ؟؟؟

 ان خدشات کے چلتے انسان خود کو تنہا,  بےبس و لاچار محسوس کرنے لگتا ہے اور دن بہ دن اس کے حوصلے پست ہوتے جاتے ہیں ............

پھر بےگناہ ہوتے ہوئے بھی وہ خود کو ہی گنہگار تسلیم کر اپنے اوپر ہورہے ہر قسم کے تشدد کو برداشت کرتے ہوئے اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں ...... 

جیسے 6 سالوں میں کئی مسلم نوجوانوں نے اپنی جان گنوائی ہے جس کے بعد مسلمانوں نے انہیں شہید کا درجہ بھی دے دیا , لیکن ان کے جیتے جی کبھی کسی نے ان کی مدد نہیں کی نہ ہی ان کا حال پوچھا, آج وہیں ان کے مرنے کے بعد ان کے نام پہ پرزور احتجاجات کئے جارہے ہیں جس کا سلسلہ لگاتار جاری ہے اور ان لاحاصل احتجاجات سے کوئی مؤثر نتائج سامنے نہیں آرہے ..........

بلکہ محمد اخلاق سے شروع ہوا یہ سلسلہ 150 سے ذائد مسلم نوجوانوں کا خون بہاکر بھی رُکنے کا نام نہیں لے رہا , بس ہر مرتبہ احتجاجی بینر و پوسٹر پہ ناموں کی فہرست طویل ہورہی ہے ..............

 

اس پہ ستم ظریفی تو دیکھیں ماب لنچنگ میں جان گنوانے اپنوں کو کھونے کے باوجود پولس کی جانب سے کئی نوجوانوں اور ان کے اہل خانہ کو ہی گنہگار ٹہرایا گیا 

جیسے اخلاق کے اہل خانہ کو فریج میں گائے کا گوشت رکھنے کا جھوٹا الزام لگاکر آج بھی ہراساں کیا جاتا ہے .........

تبریز کو تڑپا تڑپا کر مارنے کے بعد گودی میڈیا کی جانب سے چوری کا الزام لگاکر مقتول کو ہی گنہگار ٹہرایا گیا .......

محض 14 سالہ ساحل کو زندہ جلانے کے بعد پولس کی اور سے اس واقعہ کو خودکشی ثابت کرنے کی جی توڑ کوشش کی گئی ...........

اسی طرح مسلم نوجوان کی زندگی کبھی شدت پسند ہندوتوادیوں کے ہاتھوں تو کبھی اپنوں کی خاموشی و بزدلی کی وجہ سے آئے دن تباہ و برباد ہورہی ہے ...........

 

اور ایسے حادثات میں جہاں کوئ خوش بخت   تھوڑی بہت ہمت جٹاکر زندہ بچ جاتا ہے, اپنی دفا کرتے ہوئے اُس کے ہاتھوں کسی کی جان چلی جاتی ہے تو یہاں پہ دشمنوں کے ساتھ ساتھ خود مسلمان اس کے کردار میں ہزاروں نقص نکالتے ہیں اور اُسے غیروں کے ساتھ اپنوں کی تنقید کا سامنا کرتے ہوئے ان کی بےرخی, طنزیہ نشتر سہنے پڑتے ہیں. 

اور کل تک جو لوگ دفا میں پلٹ وار کرنے اپنے پاس ہتھیار رکھنے کا مشورہ دے رہے تھے وہی اچانک دفا میں کئے گئے حملے پہ اسی کو مورد الزام ٹہراتے ہوئے قاتل قرار دے دیتے ہیں ........

 

جیسا کہ حال ہی میں محمد کبیر نامی 19 سالہ مسلم نوجوان کے ساتھ ہوا ہے ........

23 جولائی کو پچھم بنگال کے آسنسول میں رہنے والے محمد کبیر کو 24 سالہ شدت پسند سورج بہادر نے جئے شری رام کا نعرہ لگانے کے لئے زور زبردستی کرنے لگا اور جب محمد کبیر نے جئے شری رام کہنے سے منع کیا تو وہ اُس کے ساتھ زدوکوب کرنے لگا ....... ایسے میں جب بات جان پہ بن آئی تو ظاہر سی بات ہے انسان یا تو اپنی جان بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے یا ہمت ہار کر اپنی جان گنوادیتا ہے. لیکن یہاں پر کبیر نے مار کھاکر مرنے کے بجائے اپنی دفا میں لڑنا بہتر سمجھا اور اسی دفا میں ایکسڈینٹلی سورج بہادر کی موت ہوگئی . 

 

ویسے بھی جن حالات میں یہ حادثہ پیش آیا ہے 

اس کو نہ ہم لوگ قتل کہہ سکتے ہیں نہ ہی قانون کی نظر میں یہ غلط ہے ........ 

کیونکہ محمد کبیر کے ہاتھوں سورج بہادر کی موت جان بوجھ کر نہیں ہوئی ہے نہ ہی کبیر کی نیت قتل کی تھی بلکہ وہ تو خود کی جان بچانے کی کوشش کررہا تھا اور اپنی جان بچانے کا حق ہر انسان کو ہے جس کی اجازت ہندوستانی آئین کے  آرٹیکل 96 اور 106 کے مطابق ہر انسان کو اپنی جان, مال اور دوسروں کی جان بچانے کے خاطر سیلف ڈیفنس کی پوری اجازت دی گئی ہے آور اس دوران اگر حملہ ور کی موت بھی ہوجاتی ہے تو اسے قتل نہیں کہا جاسکتا .........

 ویسے دیکھا جائے تو کچھ سالوں سے گروہی تشدد کے واقعات میں جس قدر تیزی آئی ہے, جابجا مسلمانون کا قتل و عام کیا جارہا ہے ایسے میں کبیر کا ڈر جائز تھا کیونکہ اُس وقت کبیر کے ساتھ کچھ بھی ہوسکتا تھا جان بھی جاسکتی تھی .......

 

ایسے میں کبیر کا اقدام قابل ستائش اور دیگر نوجوانوں کے لئے مثال ہے .......

 

لیکن افسوس ہمیشہ کی طرح اس حادثہ کو بھی قتل ثابت کرنے کی جی توڑ کوشش کی جارہی ہے ........

 آخر یہاں پہ ایک مسلمان کے ہاتھوں ایک ہندو کی موت جو ہوئی ہے .....

بھلے وجہ کچھ بھی ہو,  قصوروار مرنے والا ہی کیوں نہ ہو لیکن جہاں بات ایک مسلمان کی آتی ہے وہاں وجوہات , صحیح غلط کچھ معنی نہیں رکھتے اور گنہگار ایک مسلمان کو ہی ٹہرایا جاتا ہے ..........

 

یہاں پر بھی اپنی جان بچانے کے خاطر مجبوری میں کیا گیا پلٹ وار محمد کبیر کو گنہگار ٹہرانے کے لئے کافی تھا ........

 

جیسے ہی یہ خبر سورج کی بہن تک پہنچی اُس نے فوراً پولس تھانے میں ایف آئی آر درج کروائی اور بی جے پی کارکنان بھی پولس تھانے کا گھیراؤ کرکے اس حادثہ کو قتل کا جامعہ پہنانے میں کامیاب ہوگئے.........

 

پھر یہاں سے گودی میڈیا کا تعصبی چہرہ سامنے آیا

جہاں آئے دن دلت و مسلم نوجوانوں کو گروہی تشدد کا شکار بناکر موت کے گھات اتارا جاتا ہے  وہیں پہلی مرتبہ ایک نوجوان کا ہمت جٹاکر اپنی جان بچانا اس گودی میڈیا کو برداشت نہ ہوا

اور جس میڈیا کو بھاجپا سرکار کے 6 سالہ اقتدار کے دوران سانپ سونگھ چکا تھا جس نے ماب لنچنگ کے واقعات پہ مون ورتھ رکھ لیا تھا, جس کو نہ کبھی اخلاق نظر آیا نہ جنید نہ افرزول نہ تبریز انصاری نہ ہی ساحل,  فیض جیسے نابالغ بچوں کے قتل پہ دل پسیجا. آج وہ 

کبیر کے زندہ بچ جانے اور ایک سورج کی موت پہ اس قدر تلملا اٹھے ہیں کہ اپنے چینلس پہ چلا چلا کر لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکاتے ہوئے ہندوؤں کو اکسایا جارہا ہے . مذہب کے نام پہ ملک میں نفرت کا زہر دوبارہ گھولا جارہا ہے ........

 

 ایسے میں ان دلال اینکروں سے سوال پوچھنا لازمی ہے کہ 6 سالوں سے جس جئے شری رام کا نعرہ لگاتے ہوئے مسلم نوجوانوں کا قتل کیا جارہا ہے کیا وہ ان کی نظر میں صحیح ہے ؟ 

کیا گائے اور رام کے نام پہ کسی بےگناہ کا قتل کرنا جائز ہے ؟

ہندو لڑکی کو شیطان شمبھو کے چُنگل سے بچانے  پہ جس بےرحمی سے معصوم افرزول کو جلایا گیا کیا وہ صحیح تھا ؟

یا گائے کے نام پہ جس طرح سے دہشت مچاکر انسانوں کا قتل کیا جارہا ہے وہ صحیح ہے ؟

 

یہاں ہمارا مقصد ہرگز کسی قاتل کی حمایت کرنا نہیں ہے نہ ہی کسی کی جان لینا مقصد ہے اور

نہ ہمارا اسلام اس کی اجازت دیتا ہے چاہے وہ رمیش ہو یا رحیم ہر جان بیش قیمتی ہے آور ہر انسان اولاد آدم ہے . نام اور مذہب کے بدلنے سے انسانی جذبات و احساسات ہرگز نہیں بدلتے کیونکہ دنیا کا ہر مذہب انسانیت کا پیغام دیتا ہے اس لئے کسی بھی معصوم کو محض مسلمان ہونے کی وجہ سے پریشان کرنا قتل کرنا ناقابل قبول ہے 

ویسے بھی سیلف ڈیفنس کے دوران حملہ ور کی موت ہوجاتی ہے تو یہ ایکسڈینٹ کہلاتا ہے قتل نہیں. اور ہم یہ ہرگز برداشت نہیں کرینگے کہ کوئی بےگناہ نوجوان کو محض مسلمان ہونے کی وجہ سے گنہگار ٹہرائے.

 

اور حالات حاضرہ کے مدنظر مسلم رہنماء و قائدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے وقت میں مسلم نوجوانوں کی حوصلہ شکنی کر انہیں کمزور کرنے ,بےسہارا چھوڑنے کے بجائے جیتے جی اُن کی قدر کریں اُن کا ساتھ دیں ان کی صحیح رہنمائ کریں تاکہ آنے والے دنوں میں وہ بنا ڈرے ہر ناگہانی صورتحال کا بہادری سے مقابلہ  کرنے کے قابل بنیں اور اپنی دفا میں پلٹ وار جاری رکھیں ... ورنہ انہیں گنواکر ان کے نام پہ آنسو بہانے, واویلا مچانے کا کوئی فائدہ نہیں........... 

 

ویسے بھی محمد کبیر جیسا بھی ہو لیکن اس کی اس پہل جراءت نے نوجوانوں کے حوصلوں کو ایک نئی طاقت بخشی ہے جس کا  اثر ملک کے کئی علاقوں میں دیکھا جارہا ہے کہ کیسے کل تک مار کھانے پٹنے والے ہمارے نوجوانوں نے دفا کرنا سیکھ لیا ہے جس کے بعد شدت پسند گاؤرکشک میدان چھوڑ کر الٹے پاؤں بھاگنے پہ مجبور ہوگئے اور پھر دوبارہ پلٹنے کی حماقت نہیں کی.......

 اسی طرح کا ایک اور واقعہ 30 جولائی کو ہریانہ کے پلول میں پیش آیا ہے جہاں گوپال رائے نامی شدت پسند گاؤرکشک نے گاؤ تسکری کی خبر ملتے ہی اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہتھیار لے کر گاؤ تسکروں پہ حملہ بول دیا لیکن یہاں پر بھی نوجوانوں نے مار کھانے کے بجائے اپنی دفا میں ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اس ہاتھا پائی میں ایک گاؤرکشک گوپال کی موت ہوگئ جس کا دُکھ ہمیں بھی ہے 

 

کاش اب تو ان شدت پسند گاؤرکشکوں کو احساس ہو کہ انسانی جان کیا معنی رکھتی ہے تاکہ ہندوستان میں ایک بار پھر امن و امان قائم ہو اور مستقل کبھی بھی اس نفرت کی آگ میں نہ کسی گوپال کو جھلسنا پڑے نہ ہی کسی جنید و تبریز کو اپنی جان گنوانی پڑِے ...............

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

05اگست2019(فکروخبر)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا