English   /   Kannada   /   Nawayathi

تاریخ عذر قبول نہیں کرتی

share with us

 

ذوالقرنین احمد 
 

ملک کے موجودہ حالات سے یہ‌محسوس ہورہا ہے۔ کہ اب یہاں وہ ہوگا جو حکومت چاہتی ہیں۔ کیونکہ مسلم خواتین نے طلاق ثلاثہ بل کے خلاف لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا، دسخطی مہم چلائی گئی اور حکومت کو یہ باور کرایا گیا کہ ہم‌ شریعت میں مداخلت برداشت نہیں کرے گے، ہم اپنی شریعت میں محفوظ ہے۔ اور ہم اسی کو فالو کریں گے۔ لیکن مودی حکومت نے دوسری مرتبہ مرکزی اقتدار میں آتے ہی وہ سب کر دیکھایا جس کا ہمیں ڈر تھا کہ ایسے بل کو پاس کرلیا جائے گا۔ ۲۰۱۹ کے انتخابات میں بھاری اکثریت کے ساتھ جیت حاصل کرنے کے بعد آج حکومت نے کچھ ایسے بلوں کو بڑی عجلت میں پاس کیا جو نہ ملکی مفادات میں ہے نہ ہی اقلیتیں برادری کے۔ حکومت سنگھی عناصر کے اشاروں پر کام کررہی ہے۔ جو بیج آزدی سے قبل فرقہ پرستوں نے بویا تھا آج اسکی فضل کاٹی جارہی ہے۔ 
حال ہی جو بل لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں بہت چالاکی سے اور اپنی ہٹ دھرمی سے اور اقتدار کا غلط فائدہ اٹھا کر پاس کیے گئے اسکے نتائج بڑے سنگین ہوگے۔ طلاق ثلاثہ کا بل پاس کیا گیا جبکہ اتنی بڑی تعداد میں خواتین نے اس بل کے پہلے ہی مخالفت کی تھی، لیکن حکومت کی مذہبی منافرت کے نتیجے کچھ بکاو عورتوں کو ٹی وی ڈیبیٹ میں بلا کر طلاق ثلاثہ کو مسلم خواتین کے حق میں بہتر بتا کر اسکا سہرا لیا گیا۔ جبکہ ان بکاؤ عورتوں کی لاکھوں کی تعداد میں مخالفت کرنے والی خواتین کے مقابلے میں  کوئی اہمیت نہیں رہتی ہے۔ لیکن یہ بات تو صاف ہے کہ میڈیا بھی حکومت کے اشارہ پر ناچ رہا ہے۔ 
اسی طرح آر ٹی آئی ترمیمی بل کو پاس کیا گیا جس کا مقصد انصاف پسند عوام اور سوشل ایکٹوسٹ حکومت سے سوال نہ کرسکے۔ اور کوئی سوال کرنا بھی چاہے جو حق اطلاعات کے مطابق ہر شہری کا حق ہوتا ہے۔ اس میں ترمیم کرکے یہ حق آر ٹی آئی کمیشن سے چھین لینا چاہتے ہیں۔ یا پھر اس کیلئے حکومت سے اجازت لینا ضروری ہوگا کہ کونسی معلومات دینی ہے اور کونسی نہیں۔ یعنی ہندوستانی شہری کے حقوق کو چھینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اور حکومت اپنے کالے کارناموں پر پردہ ڈالے رکھنے کیلے اس بل میں ترمیم کرنا چاہتی ہے۔ کہ ملک کے سسٹم میں کیا ہورہا ہےاسکی کسی کو کوئی بھنک بھی نہ لگنے پائے۔
ایک اور بل یو اے پی اے میں ترمیم کیلے پاس کیا گیا جو دہشت گردی مخالف بل ہے اسے اور سخت کرنے کیلئے اسمیں یہ ترمیم کی گئی ہے کہ کسی بھی مخصوص شخص کو دہشت گرد قرار دے دیا جائے گا۔ چاہے وہ کسی تنظیم سے وابستہ ہو یا نہیں۔ اس بل کا استعمال بھی مسلم دشمنی کیلے استعمال کیا جائے گا۔ بھلے ہی پارلیمنٹ میں یہ کہاں گیا کہ اس بل کا غلط استعمال نہیں ہونے دے گے۔ لیکن جس طرح سے کانگریس نے اپنے دورے اقتدار ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کو جھوٹے الزامات میں جیلوں میں قید کیا تھا۔ اسی طرح حکومت اس بل کا غلط استعمال کرے گی۔ ہندوستان کے قانون کے مطابق ہر مذہب کے افراد کو اپنے مذب پر عمل کرنے اور اسکی تبلیغ کرنے کی آزادی دی گئیں ہیں۔ لیکن اس بل میں یہ کہاں گیا ہے کہ ادبی لٹریچر کے زریعے ذہن سازی کر‌ے والے افراد بھی اس بل کے زریعے شک کے دائرے میں آئے گے۔ بھلے ہی وہ اپنے مذہب کی تبلیغ کیوں نہ کر رہے ہو۔ کیونکہ یہاں تو اس بنیاد پر دہشتگرد قرار دینے کی بات کہی گئی ہے کہ مخصوص شخص کو شک کی بنیاد پر گرفتار کرلیا جائے گا، اور اس میں ۶ مہینے تک کسٹڈی میں رکھا جائے گا۔ ایسے شخص پر جرم ثابت ہونے سے قبل ہی اسکی جائیداد کو ضبط کرلیا جائے گا۔ یعنی ایک عام‌ انسان کو یہ موقع بھی نہیں دیا جائے گا کہ وہ اپنی بے گناہی کو ثابت کر سکے۔ اس بل کا بھی استعمال مسلم دشمنی کیلے کیا جائے گا۔ 
اور اب حکومت این آرسی کو بھی پورے ملک میں نافذ کرنا چاہتی ہے۔ کہ اپنی شہریت کو  ثبوت کو پیش کریں کہ تم ہندوستانی ہو۔ حکومت اپنے تمام پچھلے پروپیگنڈے کو اب عملی جامہ پہنانے جارہی ہے۔ جو آر ایس ایس کا میشن ہے‌۔ گزشتہ روز آرٹیکل ۳۷۰ اور ۳۵ کو ختم کردیا گیا جس سے جموں و کشمیر کو خصوصی ریاست کا درجہ حاصل تھا جس میں کوئی بھارتی وہاں نہ کاروبار کرسکتا تھا نہ زمین خرید سکتا تھا۔ لیکن حکومت نے اپنی ہٹ دھرمی اور اقتدار کا غلط فائدہ اٹھا کر نہتے کشمیریوں کو گھروں میں بند کرکے کرفیو نافذ کرکے اور وہاں کے سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو نظر بند کرکے ہنگامی طور پر آرٹیکل ۳۷۰ اور ۳۵ اے کو ختم کردیا امریکہ نے کشمیر کے مسلے پر عمران خان سے ثالثی کی پیش کش کی تھی۔ جبکہ یہ ہندوستان اور پاکستان کا مسلا ہے۔ ہوسکتا ہے اس میں حکومت کی خفیہ پالسی شامل ہو، کیونکہ مودی حکومت نے کشمیر میں اپنی فوج کو بھجوا کر علاقے کو اپنے کنٹرول میں کرلیا ہے۔ انٹرنیٹ سروس کو بند کردیا گیا۔ اور اب جموں و کشمیر کو مرکزی حکومت کے زیر انتظام کردیا گیاہے۔ کشمیر کے خصوصی ریاست کے درجہ کو ختم کردیا گیا ہے۔ جبکہ ہندوستان نے اقوام متحدہ کے خلاف ورزی کی ہے۔ اور اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود اقوام متحدہ کی طرف سے کوئی ایکشن نہیں لیا گیا ہے ہو سکتا ہے اس میں امریکہ بھی کوئی چال چل رہا ہو۔ جو بھی ہے۔
اصل مدہ یہ ہے کے ہندوستان میں جو کچھ ہورہا ہے۔ وہ جمہوریت کے قتل کے مترادف ہے۔ اپوزیشن لنگڑے لولے گدھے کی طرح ہوچکی ہے۔ جس کی باگ ڈور سنبھالنے کیلے کوئی تیار نہیں ہیں۔ اقلیتی برادری خوف و دہشت کے ماحول زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ دن بہ دن ملک کی زمین تنگ ہوتی دیکھیائی دے رہی ہے۔ کیونکہ جب جمہوریت ہی آخری سانسیں گن رہی ہو تو ایسے حالات میں ہر کوئی اپنی اپنی فکر میں لگ جاتا ہے ہر کسی کو اپنی فکر ستانے لگتی ہے۔ لیکن ایسے حالات میں بھی قائدین اور مذہبی رہنما اگر قوم کو حوصلہ دینے کی بجائے مظلومنہ موت مرنے کا بزدلانہ مشورہ دے تو پھر قوم کس سے امید لگائے بیٹھی ہوئی ہے۔ جبکہ ضرورت اس بات کی تھی کے ایسے حالات میں قوم کو حوصلہ دینے کی بات کی جاتی کہ تم استقامت سے کام لو، حوصلہ رکھو، لاچارگی اور مظلومنہ موت سے بہتر ہے کہ تم دفاعی صورت میں باوقار موت مرو کے مرنے کے بعد بھی دشمنوں پر برسوں تک خوف طاری رہے۔ 
اگر آج تمام ملی تنظیمیں جو اپنے آپ کو قوم کا رہبر و رہنما تسلیم کرتی ہے وہ متحد ہوکر طویل مدتی لائحہ عمل تیار نہیں کرتی ہے تو یاد رکھوں کہ جو بزدلانہ مشورہ دیا گیا ہے اسی طرح یہ قوم ایک غلام بن کر زندگی گزارنے پر اپنے آپ کو آمدہ کرلیں گے۔ یہ اپنے مذہبی شعائر کی حفاظت تو دور اس پر عمل کرنے کے بھی قابل نہیں رہے گی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک طویل مدتی پروگرام کو تیار کیا جائے، اور اس پر کام شروع کردیا جائے۔ ورنہ غلامنہ ذہنیت کے ساتھ جسمانی طور پر بھی غلامی کو قبول کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ 
"یہ بات وقت کے قایدین و رہنماؤں کو ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ تاریخ عذر قبول نہیں کرتی ہے"۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے

05 اگست 2019(فکروخبر)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا