English   /   Kannada   /   Nawayathi

حضور اکرم ﷺ کا پہلا اور آخری حج

share with us


ترتیب: عبدالعزیز


    ہجرتِ مدینہ کے بعد ایک ہی حج ہے جو حضور اکرم ﷺ نے فتح مکہ کے بعد ادافرمایا۔ یہی آپ ؐ کا آخری حج تھا جس میں آپ ؐ نے فریضہئ نبوت کی ادائیگی، تبلیغِ اسلام اور خدا کا پیغام خلق خدا تک پہونچا دینے کی گواہی میدانِ عرفات میں مجمع عام سے لی اور اس گواہی پر پھر خود اللہ تعالیٰ کو بھی گواہ بنایا۔ اس طرح دعوتِ اسلامی کو اٹھانے، انسانوں کی تعلیم و تنظیم و تربیت و تزکیہ کرنے اور پھر ایک عظیم الشان صالح گروہ کے جہاد کی مدد سے اسلامی نظام کا کامل نمونہ پیش کردینے کا کارنامہ سر انجام دیا۔ رسول اکرم ﷺ پوری امت اور امت کے واسطے سے پوری انسانیت کیلئے اسوہ ہیں۔ حج کے بارے میں آپﷺ کے اسوہ حسنہ کا یہ بیان ہمارے صحابیئ رسول حضرت جابر ؓ پیش فرماتے ہیں۔ 
    جب وہ بہت بوڑھے ہوگئے تھے تو حضرت حسین ؓ کے پوتے امام باقر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے حضور اکرم ؐ کے حج کی بابت پوچھا۔ 
حضرت جابر ؓ نے ہاتھ کے اشارے سے ۹ تک گنتی کرکے فرمایا۔ 
    ”بیٹے واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ مدینے آکر رہے تو ۹ سال تک آپ ؐ نے کوئی حج نہیں کیا۔ پھر ہجرت کے دسویں سال آپ ؐ نے عام اعلان کرایا کہ اس سال آپؐ حج کیلئے تشریف لے جائیں گے۔ یہ اطلاع پاتے ہی بہت بڑی تعداد میں لوگ مدینے آکر جمع ہونے لگے۔ ہر ایک کی آرزو تھی کہ وہ اس مبارک سفر میں آپؐ کے ہمراہ جائے اور آپؐ کی پیروی کرے اور وہی کچھ کرے جو آپؐ کو کرتے دیکھے۔ 
آخر کار مدینے سے روانہ ہونے کا وقت آیا اور یہ پورا قافلہ نبی اکرم ﷺ کی قیادت میں مدینے سے روانہ ہوکر ذوالحلیفہ کے مقام پر پہونچا اور اس دن قافلے نے اسی مقام پر قیام کیا۔
    دوسرے روز نبی اکرم ﷺ نے ذوالحلیفہ میں نماز پڑھی اور پھر آپ اپنی قصویٰ اونٹنی پر سوار ہوئے۔ اونٹنی آپؐ کو لے کر قریب کے بلند میدان بیداء پر پہنچی۔ بیداء کی بلندی سے جب میں نے چاروں طرف نگاہ دوڑائی، تو مجھے، آگے پیچھے دائیں بائیں حد نظر تک آدمی ہی آدمی نظر آئے، کچھ سوار تھے اور کچھ پیدل۔  خدا کے رسول (ﷺ) ہمارے درمیان میں تھے اور آپ ؐ پر قرآن نازل ہوتا تھا۔ اور آپؐ قرآن کے مفہوم اور مطلب کو خوب سمجھتے تھے۔ لہٰذا حکم خداوند کے تحت آپؐ جو کچھ بھی کرتے تھے ہم لوگ بھی وہی کرتے۔ یہاں پہونچ کر آپؐ نے بلند آواز سے توحید کا تلبیہ پڑھا۔ 
 لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ …… اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ
    ”میں حاضر ہوں، میرے اللہ میں حاضر ہوں،میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں یقینا ساری تعریف تیرے ہی لئے ہے، سارے احسانات تیرے ہی ہیں اور بادشاہی سراسر تیری ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔“
    آپؐ کے رفقاء سفر نے بھی بلند آواز سے تلبیہ پڑھا اور آپؐ بھی اپنا تلبیہ برابر پڑھتے رہے۔
    حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں، دراصل اس سفر میں ہماری نیت صرف حج ادا کرنے کی تھی۔ جب ہم سب لوگ نبی اکرم ﷺ کی معیت میں بیت اللہ پہنچے تو نبی ؐ نے سب سے پہلے حجر اسود کا استلام کیا۔ پھر طواف شروع کیا اور پہلے تین چکرّوں میں آپؐ نے رمل فرمایا پھر چار چکروں میں معمولی رفتار سے چلے۔ پھر آپؐ مقامِ ابراہیم ؑ پر آئے اور یہ آیت تلاوت فرمائی:
وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرَاھِیْمَ مُصَلّٰی۔(اور مقامِ ابراہیم ؑ کو اپنے لئے عبادت گاہ قرار دے لو)
    پھر آپؐ اس طرح کھڑے ہوئے کہ مقام ابراہیم ؑ آپؐ کے اور بیت اللہ کے درمیان تھا اور آپ ؐ نے دو رکعت نماز ادا فرمائی۔ ان دو رکعتوں میں آپؐ نے سورہ الکافرون اور سورہ اخلاص کی قرأت فرمائی۔ پھر آپؐ حجر اسود کے پاس لوٹ کر آئے، حجر اسود کا استلام کیا پھر ایک دروازے سے صفا کی طرف چلے۔ جب صفا کے بالکل قریب پہنچے تو آپؐ نے یہ آیت پڑھی۔ اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَاءِرِ اللّٰہِ”بلا شبہ صفا اور مروہ اللہ کے شعائر میں سے ہیں۔“ اور فرمایا: اَبْدَأُ بِمَا بَدَاءَ اللّٰہُ بِہٖ میں صفا سے اپنی سعی شروع کرتا ہوں جس طرح اللہ نے اس آیت میں اس کے ذکر سے شروع کیا ہے۔ پس آپؐ پہلے صفا پر آئے اور صفا پر اتنے اونچے تک چڑھے کہ بیت اللہ آپؐ کو صاف نظر آنے لگا اور آپؐ قبلے کی طرف رخ کرکے کھڑے ہوگئے پھر آپؐ توحید اور تکبیر میں مصروف ہوگئے۔ اور آپؐ نے پڑھا:۔
    لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئً قَدِیْرٌ، لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ اَنْجَزَ وَعْدَہٗ وَنَصَرَ عَبْدَہٗ وَھَزَمَ الْاَحْزَابَ وَحْدَہٗ۔”خدا کے سوا کوئی معبود نہیں جو یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اقتدار اسی کا حق ہے، حمد و شکر کا وہی مستحق ہے، اور وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے، اللہ کے سوا کوئی عبود نہیں وہ یکتا ہے، اس نے اپنا وعدہ پورا کردکھایا اور اپنے بندے کی مدد کی اور اس نے تنہا تمام کافر گروہوں کو شکست دی۔“
تین بار آپ ؐ نے یہ کلمات دہرائے اور ان کے درمیان دعا مانگی۔ پھر آپؐ صفا سے نیچے آئے اور مروہ کی طرف چلے اور مروہ پر بھی وہی کچھ کیا جو صفا پر کیا تھا۔ یہاں تک کہ آپؐ آخری چکر پورا کرکے مروہ پر پہونچے، تو آپ ؐ نے اپنے رفقاء سفر سے خطاب فرمایا۔ آپؐ اوپر مروہ پر تھے اور ساتھی نیچے نشیب میں تھے۔ آپؐ نے فرمایا:
    ”اگر مجھے اس بات کا احساس ہوجاتا، جس کا احساس بعد میں ہوا تو میں ہدی کا جانور ساتھ نہ لاتا اور اس طواف و سعی کو عمرے کی سعی و طواف قرار دے کر اس کو عمرہ بنا لیتا اور احرام کھول دیتا۔ (البتہ تم میں سے جو لوگ ہدی کا جانور ساتھ نہ لائے ہوں وہ اس طواف اور سعی کو عمرہ کا طواف قرار دے کر حلال ہوسکتے ہیں۔)
    یہ سن کر سراقہ ابن مالک کھڑے ہوئے اور پوچھا یا رسول اللہؐ! یہ حکم اسی سال کیلئے ہے یا یہ اب ہمیشہ کیلئے ہے(اہل مکہ کے نزدیک حج کے مہینوں میں مستقل طور پر عمرہ کرنا سخت گناہ کی بات تھی اب جو سراقہ ابن مالک نے دیکھا کہ ایام حج میں اس طواف و سعی کو مستقل عمرہ قرار دیا جارہا ہے تو انہوں نے سوال کیا کہ کیا اب ایسا ہی حکم ہمیشہ کیلئے ہے یا یہ حکم خاص طور پر اسی سال کیلئے ہے)۔ نبی ؐ نے ایک ہاتھ کی انگلیاں، دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں اچھی طرح ڈالیں اور فرمایا ”عمرہ حج میں اسی طرح داخل ہوگیا(یعنی ایام حج میں عمرہ کرنا اور حج کے ساتھ ایک ہی سفر میں عمرہ کرنا بالکل درست ہے۔ اس کو غلط سمجھنا اور گناہ قرار دینا سراسر غلط ہے اور یہ حکم ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ہے)۔ صرف اسی سال کیلئے نہیں، بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے۔“
    حضرت جابرؓ نے اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ: ”علیؓ یم سے رسول اللہ ﷺ کیلئے مزید قربانی کے جانور لے کر مکہ معظمہ پہونچے۔ انہوں نے اپنی بیوی فاطمہ زہرہ ؓ کو دیکھا کہ وہ احرام ختم کرکے حلال ہوگئی ہیں،رنگین کپڑے بھی پہن رکھے ہیں اور سرمہ بھی لگا ہا ہے، حضرت علی ؓ کو یہ بات کچھ غیر مناسب معلوم ہوئی اور ناگواری کا اظہار کیا، تو حضرت فاطمہؓ نے جواب دیا مجھے ابا جان نے اس کا حکم دیا تھا (یعنی میں نے رسول اللہ ﷺ کے حکم سے ہی احرام ختم کیا ہے۔)
    رسول اللہ ﷺ حضرت علی ؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا: 
    ”اے علی! جب تم نے احرام باندھا اور تلبیہ پڑھا تو کیا نیت کی؟ (یعنی صرف حج کی نیت کی تھی یا حج اور عمرہ دونوں کی نیت کی تھی) علی ؓ نے جواب میں کہا: میں نے کہا تھا، اے اللہ میں بھی اسی چیز کا احرام باندھتا ہوں جس کا احرام تیرے رسول ؐ نے باندھا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے کہا، میں تو چونکہ اپنے ساتھ ہدی کا جانور لے کر آیا ہوں، اس لئے میرے لئے احرام کھولنے کی گنجائش نہیں ہے اور تم نے بھی وہی نیت کرلی ہے جو میری ہے لہٰذا تمہارے لئے بھی احرام کھول کر حلال ہونے کی گنجائش نہیں ہے۔“
    حضرت جابر ؓ کہتے ہیں کہ ہدی کے اونٹ جو علی ؓ یمن سے لے کر آئے تھے اور خود رسول اللہ ؐ جو اپنے ہمراہ لائے تھے، یہ سب ۰۰۱(سو) تھے۔
سارے صحابہ ؓ نے رسول اللہ ؐ کی ہدایت کے مطابق احرام کھول دیئے اور بال کٹواکر حلال ہوگئے۔ البتہ نبی ﷺ اور وہ صحابہ ؓ جو ہدی کا جانور ساتھ لائے تھے احرام باندھے رہے۔ 
    پھر جب یوم الترویہ آیا (یعنی ذی الحجہ کی ۸ تاریخ ہوگئی) تو سارے لوگ منٰی کی طرف روانہ ہوئے اور (ان) لوگوں نے بھی حج کا احرام باندھا، جو عمرہ کرکے احرام ختم کرچکے تھے، اور نبی ﷺ اپنی اونٹنی قصویٰ پر سوار ہوکر منٰی کو روانہ ہوئے، وہاں آپ ؐ نے ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور فجر کی پانچوں نمازیں ادا

 فرمائیں۔ فجر کی نماز کے بعد آپ ؐ نے منٰی میں کچھ دیر اور ٹھہرے رہے یہاں تک کہ جب سورج نکل آیا تو آپ ؐ عرفات کی طرف روانہ ہوئے اور آپؐ نے حکم دیا کہ ”نمرہ“ کے مقام پر آپؐ کیلئے صوف کا خیمہ نصب کیا جائے۔ قریش کو اس میں ذرا شک نہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ مشعر الحرام کے پاس ہی وقوف فرمائیں جیسا کہ زمانہئ جاہلیت میں ہمیشہ قریش کرتے رہے تھے، لیکن آپ ؐ  مشعرالحرام کے حدود سے آگے نکل آئے اور میدان عرفات کی حدود میں آئے۔ آپ ؐ نے حکم دیا تھا کہ ”نمرہ“ کے مقام پر آپؐ کیلئے خیمہ نصب کیاجائے۔ چنانچہ خیمہ نصب کردیا گیا تھا اور آپؐ نے اسی خیمے میں قیام فرمایا تھا۔ 
پھر جب سورج ڈھلنے لگا، تو آپ ؐ نے حکم دیا کہ آپؐ کی اونٹنی، قصویٰ پر کجاواکس دیا جائے۔ چنانچہ اونٹنی پر کجاوا کس دیا گیا۔ آپؐ اونٹنی پر سوار ہوئے اور ”وادیئ عرفہ“ کے نشیب میں پہونچے۔ وہاں آپؐ نے اونٹنی پر سوار ہوکر لوگوں سے خطاب کیا۔
    ”لوگو! ناحق کسی کا خون بہانا اور ناروا طریقے پر کسی کا مال لینا تمہارے لئے حرام ہے، بالکل اسی طرح حرام ہے جس طرح آج کے دن اس مہینے اور اس شہر میں تمہارے لئے حرام ہے (اور تم حرام سمجھتے ہو) 
    خوب سمجھ لو کہ دور جاہلیت کی ساری چیزیں میرے دونوں قدموں کے نیچے روند دی گئی ہیں، اور زمانہ ئ جاہلیت کا خون معاف ہے اور سب سے پہلے میں اپنے خاندان کا خون یعنی ربیعہ بن الحارث بن عبد المطلب کے فرزند کا خون معاف کرنے کا اعلان کرتا ہوں جو نبی سعد کے قبیلے میں دودھ پینے کیلئے رہا کرتے تھے۔ ان کو قبیلہ ہذیل کے لوگوں نے قتل کر ڈالا تھا اور دورِ جاہلیت کے سارے سودی مطالبے اب سوخت ہوگئے۔ اور اس سلسلے میں بھی سب سے پہلے اپنے چچا عباس بن عبد المطلب کے سودی مطالبات کے ختم کرنے کا اعلان کرتا ہوں۔ آج ان کے سارے سودی مطالبات ختم ہیں۔
”ائے لوگو! خواتین کے حقوق کے معاملے میں خدا سے ڈرتے رہو، تم نے ان کو اللہ کی امانت کے طور پر اپنے قیدِ نکاح میں لیا ہے، اور ان سے لذت اندوزی اللہ کے کلمہ اور قانون ہی کے ذریعے تمہارے لئے حلال ہوئی ہے۔ تمہارا ان پر خاص حق یہ ہے کہ جس شخص کا تمہیں اپنے گھر میں آنا ناپسند ہو ان کو تمہارے بستر پر بیٹھنے کا موقع نہ دیں۔ اور اگر وہ یہ خطا کر بیٹھیں تو تنبیہہ کے لئے تم ان کو معمولی سزا دے سکتے ہو اور ان کا خاص حق تم پر یہ ہے کہ تم اپنی حیثیت اور وسعت کے مطابق کشادہ دلی سے ان کے لباس اور کھانے پینے کا اہتمام کرو۔ اور میں تمہارے درمیان وہ سر چشمہئ ہدایت چھوڑ کر جارہا ہوں کہ اگر تم اسے مضبوط پکڑے رہے اور اس کی رہنمائی میں چلتے رہے تو کبھی تم راہِ حق سے نہیں بھٹکوگے۔ یہ سرِ چشمہئ ہدایت ہے ”اللہ کی کتاب“
اور قیامت کے روز اللہ تعالیٰ تم سے میرے بارے میں دریافت فرمائے گا (کہ میں نے خدا کا پیغام تم لوگوں تک پہونچا دیا یا نہیں؟) بتاؤ تم وہاں میرے بارے میں خدا کو کیا جواب دو گے؟
    حاضرین نے یک زبان ہوکر کہا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپؐ نے تبلیغ کا حق ادا کردیا آپؐ نے سب کچھ پہونچا دیا، اور آپؐ نے نصح و خیر خواہی میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا۔“ اس پر آپؐ نے اپنی شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی پھر لوگوں کی طرف اس سے اشارہ کرتے اور جھکاتے ہوئے تین بار کہا:
”ائے اللہ! تو بھی گواہ رہ، ائے اللہ! تو بھی گواہ رہ، ائے اللہ! تو بھی گواہ رہے میں نے تیرا پیام اور تیرے احکام تیرے بندوں تک پہونچا دیئے، اور تیرے یہ بندے گواہ ہیں کہ میں تبلیغ کا حق ادا کردیا۔“
    پھر حضرت بلال ؓ نے اذان دی اور اقامت کہی اور آپؐ نے ظہر کی نماز پڑھائی، ظہر اور عصر کی نمازیں ایک ساتھ پڑھنے کے بعد آپؐ ٹھیک اس مقام پر آئے جہاں وقوف کیا جاتا ہے، پھر آپؐ نے اپنی اونٹنی قصویٰ کا رخ ادھر موڑ دیا جدھر بڑی بڑی چٹانیں ہیں اور سارا مجمع آپؐ کے سامنے ہوگیا۔ جس کے سب ہی پیدل تھے۔ آپؐ قبلہ رو ہوگئے اور آپؐ نے وہیں وقوف فرمایا۔ یہاں تک کہ آفتاب کے غروب کا وقت آگیا اور شام کی زردی بھی ختم ہوگئی اور سورج بالکل غروب ہوگیا تو اس وقت آپؐ (عرفات سے مزدلفہ کی طرف) روانہ ہوئے۔ اور اسامہ بن زیدؓ کو آپؐ نے اپنی اونٹنی پر اپنے پیچھے بٹھا لیا۔ اور آپؐ مزدلفہ آ پہونچے۔ یہاں آکر آپؐ نے مغرب اور عشاء کی نماز ایک ساتھ پڑھی۔ اذان ایک ہوئی اور اقامت دونوں کیلئے الگ الگ، اور ان دونوں نمازوں کے درمیان آپؐ نے کوئی سنت یا نفل نماز نہیں پڑھی۔ اس کے بعد آپؐ آرام فرمانے کیلئے لیٹ گئے اور آرام فرماتے رہے، یہاں تک کہ صبح صادق ہوگئی اور فجر کا وقت ہوگیا۔ صبح صادق ہوتے ہی آپؐ نے اذان اور اقامت کہلواکر نمازِ فجر اول وقت میں ادا فرمائی۔ نماز فجر سے فارغ ہوکر آپؐ مشعر الحرام کے پاس تشریف لاے۔ یہاں آکر نبیؐ اکرم ؐ قبلے کی طرف رخ کرکے کھڑے ہوکر دعا، تکبیر، تہلیل اور توحید و تسبیح میں مصروف ہوگئے اور دیر تک مصروف رہے جب خوب اجالا ہوگیا تو طلوعِ آفتاب سے ذرا پہلے آپؐ وہاں سے منٰی کیلئے روانہ ہوگئے اور اس وقت آپؐ نے اپنی ناقہ کے پیچھے فضل بن عباسؓ کو سوار کرلیا۔ جب آپؐ ”وادیئ محسّر“ کے درمیان پہنچے تو آپؐ نے اپنی اونٹنی کو ذرا تیز کردیا۔ پھر محسّر سے نکل کر آپ ؐ نے اس درمیانی راستے سے چلے جو بڑے جمرے کے پاس جاکر نکلتا ہے۔ پھر اس جمرے کے پاس پہنچ کر جو درخت کے پاس ہے، آپؐ نے رمی فرمائی۔ سات کنکریاں اس پر پھینک کر ماریں اور ہر کنکری پھینکتے ہوئے آپؐ اللہ اکبر کہتے جاتے تھے۔ یہ کنکریاں چھوٹی چھوٹی ٹھیکریوں کی طرح تھیں۔ آپؐ نے نشیبی مقام سے جمرہ پر یہ رمی کی۔ جب آپؐ رمی سے فارغ ہوئے تو قربان گاہ کی طرف روانہ ہوئے۔ وہاں آپؐ نے ۳۶ اونٹ اپنے دست مبارک سے قربان کئے اور باقی اونٹ حضرت علیؓ کے حوالے کئے جن کی قربانی حضرت علیؓ نے کی اور آپؐ نے حضرت علیؓ کو اپنے ہدایا کے اونٹوں میں شریک فرمایا۔ پھر آپؐ نے حکم دیاکہ قربانی کے ہر ہر اونٹ میں سے ایک ٹکڑا لیا جائے۔ چنانچہ ہر ایک میں سے ایک ایک ٹکڑا لے کر دیگچے میں ڈالا گیا اور پکایا گیا۔ پھر نبی اکرمؐ اور حضرت علیؓ دونوں نے اس گوشت میں سے تناول فرمایا اور اس کا شوربہ بھی پیا پھر نبی ﷺ اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور طوافِ زیارت کیلئے بیت اللہ کی طرف روانہ ہوئے۔ ظہر کی نماز آپؐ نے مکے میں پہونچ کر ادا فرمائی۔ نماز ظہر سے فارغ ہوکر آپؐ (اپنے اہل خاندان)بنی عبد المطلب کے پاس آئے جو زم زم سے پانی کھینچ کھینچ کر لوگوں کو پلارہے تھے۔ آپؐ نے ان سے فرمایا، ڈوعل نکال کر پلاؤ۔ اگر مجھے یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ (مجھے دیکھ کر) دوسرے لوگ تم سے زبردستی یہ خدمت چھین لیں گے، تو میں خود اپنے ہاتھ سے تمہارے ساتھ زم زم سے ڈول کھینچتا۔ ان لوگوں نے آپؐ کو ڈول بھر کردیا، تو آپؐ نے اس میں سے نوش فرمایا۔
    یہ ہے رسول اکرم ؐ کا وہ الوداعی حج جو آخری بھی ہے اور مثالی بھی۔ امت کیلئے اسوہ حسنہ بھی ہے اور قیامت کے اہل ایمان اس نمونے پر اپنا فریضہئ حج ادا کرتے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ مومنین کو حضور اکرمؐ کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔   

 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا