English   /   Kannada   /   Nawayathi

ہجومی تشدد ایک منافع بخش تجارت ہے " 

share with us


ابوالنشاط نوری مصباحی

ہندوستان میں اس وقت جو کچھ ہورہا ہے اسے سمجھنے کے لیے اسے پڑھیے۔" مسیحی زعما، راہبوں، پادریوں اور بادشاہوں نے یورپ کے گلی کوچوں میں مسلمانوں کے خلاف وہ نفرت پھیلاء کہ مسلمان خوف اور دہشت کا نمونہ بن گئے۔انہوں نے کھل کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنے کینہ اور عناد کا اظہار کیا۔دین مسیحی کے علم برداروں نے بے تحاشہ دولت صرف کی اور بربر مسلمانوں کے خلاف جنگ آزما ہونے کے لیے کئی طرح کے رضا کار تیار کئے لیکن جب عثمانیوں نے ان صلیبی لشکروں کے خلاف کامیابی حاصل کی اور ان کی درگت بناء تو اسلام کے خلاف نصرانیوں کی نفرت اور کینہ پہلے سے بڑھ گیا، چونکہ وہ میدان جنگ میں عثمانیوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے تھے اس لیے انہوں نے الزامات عائد کرنا شروع کردئے۔انہیں ڈاکوء وں، وحشیوں اور غیر مہذب قوم کا نام دے دیا۔یہ الزامات یوروپیوں کی یادداشت میں پیوست ہوکر رہ گئے۔
مسیحی زعماکا یہ پروپیگینڈہ اور میڈیاء جنگ دراصل سیاسی اور مادی حفاظت کی کوشش تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور عملا ہوا بھی ایسے ہی کئی خاندان ایک طویل عرصے تک یوروپی ملکوں پر حکومت کرتے رہے اور انہوں نے یہاں کی آبادی کوخوب لوٹا، بے تحاشہ دولت کماء اور اپنے اردگرد تقدس واحترام کا ایک ہالہ قائم کرلیا "۔سلطنت عثما نیہ کی تاریخ پر یہ ایک مورخ کا تبصرہ ہے۔مورخ نے جن باتوں کی طرف اشارہ کیا ہے، سنجیدگی اور باریک بینی کے ساتھ اس وقت ہندوستان کے حالات کا جائزہ لیں تو کیا یہ بات سمجھمیں  نہیں آتی کہ ہمارے ملک میں بھی بالکل اسی طرز کا ڈرامہ رچاگیا ہے اور مقصد صرف صرف ہندوستان کی بھولی بھالی عوام کو بے وقوف بنا کر لمبے وقت کے لیے  حکومت میں بنے رہنااور تعصب ونفرت کے نام پر زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھا کرنے کے ارداے کے علاوہ دوسرا کوء مقصد نہیں ہے۔ ہندوستانی عوام اس قدر بھولی بھالی ہے کہ اسے مذہب کے نام پرنفرت کی ٹوپی پہنا کر پہلے راجاء وں مہاراجاء وں نے لوٹا، پھر انگریزوں نے اور اب ملک کے سیاسی نماغنڈے ان کا ذہنی، جسمانی اور مالی استحصال کررہے ہیں۔یوروپ میں تو صرف نفرت کی یکطرفہ سیاست تھی جبکہ اس ملک میں نفرت کے ساتھ خوف ودہشت کی تجارت بھی اپنی آخری منزل پر ہے۔نفرت کے سایے میں ہم وطن ہندو  بھائیوں کی دولت پر قبضہ کرنے کا ارادہ ہے تو خوف ودہشت کی آڑ میں مسلمانوں کی جائدادکوجبریہ ہڑپنے  کی تیاری ہے۔یہ سیاسی کھیل تھوڑی سی توجہ کے بعد بڑی آسانی سے سمجھ میں آجاتا ہے۔اس وقت ہمارے ملک کی دولت کا 73/ فیصد حصہ صرف ایک فیصد برہمنوں کے پاس ہے  اور جو کچھ بھی قومی ملکیت ہے یعنی حکومتی تحویل میں ہے اسے بھی دھیرے دھیرے بڑے صنعت کاروں اور کارپوریٹرسیکٹرکے مالکوں کو تحفے میں پیش کیا جارہا ہے۔قومی آمدنی کے بڑا ذریعہ ایئرپورٹ ہے جس میں پانچ ایئرپورٹ  پلوامہ حملے کی آڑ میں اڈانی کو دیا گیا۔پاکستان اڈانی سے بجلیاں خریدتا ہے۔پلوامہ حملے کے بعد گجرات کے پٹیلوں کی معاشی کمر توڑنے کے لیے تو ٹماٹر بند کردیا گیا جس سے پاکستان کا کچھ بھی نقصان نہیں ہوا لیکن ایک دن کے لیے بھی اڈانی کو بجلی روکنے کے لیے نہیں کہا گیا اور نہ ہی عوام ان باتوں کو جانتی ہے کہ اس وقت ملک کی سیاسی باگ وڈور قومی لیڈروں کے ہاتھ میں نہیں بلکہ تاجروں کے ہاتھ میں ہے اور تاجر ہرحال میں صرف اپنے فائدے کی سوچتاہے۔ ریلوے کو ذاتی ملکیت بنانے کی اندرونی پلاننگ زوروں پر ہے۔ایئر انڈیا کا دیوالیہ ہوچکا ہے۔ہزاروں پڑھے لکھے ہندوستانی بیروزگار ہوچکے ہیں۔BSNL کا ذاتی سودا ہوتے ہوتے رہ گیا ہے۔ 
مسلمانوں کی جو وقف کی جائداد ہے وقف بورڈ کی ملی بھگت سے اس پر  بڑی تیزی کے ساتھ قبضہ کیا جارہا ہے اور وقف کی بڑی بڑی جائدادیں اندرہی اندر بلڈرز اور ریئل اسٹیٹ کی کمپنیوں کو دی جارہی ہیں۔دبنگوں، بالخصوص برہمنوں سے قبضہ کرایا جارہاہے۔ خوف ودہشت کے یہ سائے  اس لیے دراز کیے جارہے ہیں کہ ڈر کی وجہ مسلمان کچھ نہ بولیں اور اگر مسلمانوں کی غلام قیادت کچھ بولے تو اس پر برہمنی میڈیا دیش دروہی کا الزام لگاکر اس کی زندگی تباہ کردیگی۔ اگر خوف ایک تجارت نہیں ہے تو کیا وجہ ہے کہ ایک مخصوص پارٹی کے بڑے لیڈران پاگلوں کی طرح "انڈ بنڈ شنڈ" بکتے ہیں اور ان کو پاگل خانے نہیں بھیجا جاتا اور نہ ہی ان پر کوء کاررواء کی جاتی ہے۔اسی کے جواب میں ملک کے قانون کو بچانے کے لیے کوء مسلمان بولتا ہے تو اگلے ہی دن اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے۔  یہ زیادہ سے زیادہ ملک کی قومی دولت کو ذاتی ملکیت بنانے کی ایک سازش ہے جس کا مقابلہ مسلمان ہی کرسکتاتھا اس لیے مسلمانوں کے سروں پر ماب لنچگ کا بادل مسلط کیا گیاہے۔یہ کوء بھیڑ ہوتی ہی نہیں ہے یہ تو انہی لوگوں کے پالتو جانور  ہوتے ہیں جو گلی کوچوں میں آوارہ گردی کرتے پھرتے ہیں۔ اس کے لیے ملک میں ہجومی تشدد کے کلچر کو ایک لمبی پلاننگ کے ساتھ ٹی وی سیریلز اور مویز کے ذریعہ فروغ دیا گیا ہے۔ اس کا مقصدصرف مسلمانوں کو  حراساں کرنا نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کو بے دست وپا بنانا بھی ہے اور اس خوف کو انویسٹ کرکے دولت سمیٹنا بھی ہے۔ یہ بات کئی اسٹنگ آپریشن میں سامنے آچکی ہے۔اور میں نے خود اپنے طور پر  اس کی تحقیق کی ہے کہ (میرا یہ تجربہ حیران کن ہے۔ ایک بات اور کہ اس سے جو آمدنی ہوتی ہے اس کے بٹوارے کو لے کر ان میں شدید اختلافات ہورہے ہیں، جو ابھی دبے ہوئے ہیں لیکن جب کئی معاملات سامنے آئیں گے تو ممکن ہے کہ ہندوستانی عوام کو اس مکروفریب سے اگاہی ہوگی) " ماب لنچنگ کا ویڈیو وائرل ہونے کے بعد دیکھاوے کے لیے ان غنڈوں کی گرفتاریاں ہوتی ہیں، پھر ان کے سرغنہ یا جو اس معاملے میں پیش پیش رہا ہے اس کا بینک اکاء ونٹ اور اس کی فیملی ممبر میں سے کسی کا پے ٹی ایم نمبر سماج میں پھیلاکر راتوں رات " دھرم دان " کے نام پر کروڑوں روپے اکٹھا کیے جاتے ہیں۔پھر ان پیسوں کو ان پالتوں غنڈوں میں تھوڑا تھوڑا کرکے  تقسیم کردیا جاتا ہے اور بچی ہوء بڑی رقم کہیں اور بھیج دی جاتی ہے یا ان کا سرغنہ ہڑپ کرلیتا ہے۔ اسی طرح گائے کے نام پر اقلیت اور دلتوں کے قتل کا اصل راز بھی " بنا انویسٹمینٹ کے ایک ایک دن میں کئی کروڑ کمانا ہے " یہ ایک جانور کے نام پر مفت کی تجارت ہے اور روزمرہ کی تجارت ہے۔جس میں روزانہ مفت میں کم ازکم پانچ کروڑ کی آمدنی ہے۔راجستھان، یوپی، گجرات، بہار کے کچھ علاقے، جھارکھنڈ، چھتیس گڈھ اور ایم پی میں نفرت کی تجارت کرنے والے دورخے سیاسی تاجروں کے غنڈے دودھ نہ دینے والی گائے کے ساتھ دوسرے جانور بھی نہیں بیچنے دیتے ہیں۔مجبور ہوکر جانور کا مالک جانور کو آزاد چھوڑدیتا ہے۔پھر اسی آزاد جانور کو یہ غنڈے پکڑکر مارکیٹ میں بیچ کر پہلا منافعہ حاصل کرتے ہیں۔جب جانوروں کے تاجر اس جانور کو لے کر آگے بڑھتے ہیں تو جگہ جگہ پر ان کے آدمی ہوتے ہیں جو ایک ٹرک گائے کے بدلے 5/ 8 ہزار تک وصول کرتے ہیں۔ صرف راجستھان اور گجرات کے بارڈر پر روزانہ اس طرح کی وصولی ڈیڑھ کروڑ تک پہونچتی ہے۔یہ کام ملک کے مختلف حصوں میں ہوتا ہے۔یہ بات تسلیم کرنے کی نہیں ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر ہورہے اس دھندے کی خبر ملک کے ہاء کمان کو نہیں ہوگی۔یا ہمارا " انٹیلی جینس بیورو " اس سے بے خبرہوگا۔جانور کے ذبح ہونے کے بعد ہر بوچڑ خانے سے چمڑا مفت وصول کیا جاتا ہے اور ایک چمڑے کی قیمت کم سے کم ایک ہزار روپے ہے۔اب تو سمجھ میں آہی گیا ہوگا کہ چمڑے کی قیمت مارکیٹ میں کیوں نہیں ہے۔اس طرح سے مسلمانوں کے بہت بڑے کاروبار کا ستیاناس کیا گیا ہے۔ صرف خوف اور " ماب لنچنگ کی پونجی لگا کر ایک جانور سے تین طرح کی مفت امدنی اکٹھا کی جارہی ہے۔
          یہ اکیسویں صدی ہے، پرانے زمانے کی طرح اب اس ملک کے لوگوں کو بھی بہت دنوں تک بے وقوف بنا کر اپنا الو سیدھاکیے رہنا آسان نہیں ہے۔یہ قوم جس دن اس گورکھ دھندے کو سمجھ جائیگی ایک بھی پالتو غنڈے کہیں نظر نہیں آئیں گے۔ ان برہمنوں کو اس بات کا اندازہ ہے اور خوف بھی ہے کہ کہیں ہونہ ہو یہ زہر ان کے خاندان کا ہی صفایا کردے۔ایک ٹی وی چینل پر تبریز کی شہادت کے بعد ایک اسکالر  نے جب یہ بات کہی کہ " خدانخواستہ کبھی ان بڑے لیڈران کے بیٹوں کو کوء بھیڑماردے تب ان کو یہ درد سمجھ میں آئیگا" وہاں ڈبیٹ میں بیٹھے برہمنوں کی بوکھلاہٹ قابل دیدتھی۔ صاحبو! میری بات غور سے سنو! دولت، شہرت، عزت اور شراب وشباب کے نشے نے آپ لوگوں کو کچھ سوچنے کے لائق نہیں چھوڑا ہے۔ماب لنچنگ کے بعدگھڑیالی آنسو بہاکر اندر اندر ہی خوش ہونے والو۔یاد رکھو! جو زہر سماج کی پرسکون ہوا میں آپ نے ڈالا ہے اس  کا اثر آپ کے خاندان کو ہمیشہ کے لیے مٹا دییگا۔یہ وقتی جال جو بن رہے ہو یہ مکڑی کا جالہ ہے جس میں پناہ لینے والی مکڑیوں کو مکڑیاں ہی کھاجائیں گی۔مسلمان تو ان پریشانیوں میں جینا سیکھ رہا ہے اور جینے کا شعور آجائیگا۔لیکن آپ لوگوں کے خرمن کو یہی آگ جلاکر خاکستر کردیگی۔
2019 / بیس لاکھ ای وی ایم چورا کر جمہوریت کا قتل کرکے رات ورات الیکشن جیتنے والی پارٹی کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد ہی سے " ماب لنچنگ " میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ اس خطرناک برہمنی چال کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔دنیا کو معلوم ہے کہ اس مرتبہ الیکشن کے نام پر جمہوریت کا قتل ہوا ہے۔یہ سارا پلان" موساد " کاتھا۔یہی وجہ ہے کہ  موساد کے خوف سے تمام بڑے لیڈر خاموش بیٹھ گئے۔سب کو پتہ ہے کہ اگر کسی نے چوں چرا کیا تو ہارٹ اٹیک کی شکل میں ہمیشہ کے لیے اسے میٹھی نیند سونا ہوگا۔2019/ کے الیکشن کا معاملہ دیکھاوے کے لیے مہاراشٹرا اور ایم پی کی ہاء کورٹ میں چل رہا ہے لیکن ہونے والا کچھ نہیں ہے۔125/ آء اے ایس اور آء پی ایس نے خط لکھ کر صدرجمہوری کو اس کی طرف متوجہ کیا ہے اور کاررواء کی مانگ کی ہے  یہاں سے بھی کچھ نہیں ہوسکتا۔کچھ پارٹیاں الیکشن کے بعد سے ہی جنتر منتر پر دھرنے میں تھیں اور ایک خوف تھا کہ کہیں عوام میں بیداری نہ آجائے اسی لیے لگاتار ماب لنچنگ کی وارداتیں کثرت سے ہورہی ہیں کہ اس کی طرف دھیان نہ جائے۔ہندوستانی وہی سوچے جو یہ قاتلان ملک سوچنے پر مجبور کررہے ہیں، یہی ہورہاہے۔پلوامہ حملہ دب گیا، بیس لاکھ ای وی ایم کی چوری سب سے بڑا مسئلہ تھاکہ ای وی ایم پبلک چرانہیں سکتی کہ نہ اسے بیچ پائیگی اور نہ ہی پبلک کاکوء فائدہ ہے یہ مسئلہ بھی ہر جگہ سے غائب ہے۔ذہنوں سے وقتی طور پر غائب کیا جاسکتا ہے لیکن تاریخ سے غائب نہیں کیا جاسکتا۔جمہوری ہندوستان میں بیس لاکھ ای وی ایم کی چوری تاریخ کا سب سے بڑالیڈرانہ کارنامہ ہوگا۔ہر شخص اپنے حصے کے کام میں لگاہوا ہے۔تجارت بھی ہورہی ہے۔حکومت بھی باقی ہے اور خوف کے آسمان میں قاتلوں کے شامیانے بھی تنے ہوئے ہیں۔مسلمان ہوش وہواس کے ساتھ تعلیم اور یکتاء پر توجہ دیں۔مسلم اتحاد کو پارہ پارہ کرنے والے مسلمان کی شکل میں مسلمان کے دشمن ہیں۔ان سب کو دیکھ کر ایسے بھول جائیں جیسے کچھ ہواہی نہیں۔(یو این این)

(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے)
22جولائی2019(فکروخبر)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا