English   /   Kannada   /   Nawayathi

کانگریس کی زندگی سیکولرازم پر منحصر

share with us


حفیظ نعمانی

کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی کے بارے میں جب تک پوری بات نہ کہی جائے مسئلہ صاف نہیں ہوتا۔ ان کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ سیاست سے دلچسپی تو رکھنا چاہتے تھے اس میں ڈوبنا نہیں چاہتے تھے۔ یہ ان کی والدہ کی تمنا تھی کہ راہل اپنے باپ دادا کی پارٹی کو ناقدروں کے ہاتھوں میں نہ جانے دیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی سیاست سے وحشت بھی کسی حد تک ان کے اندر باقی رہی اور پارٹی کی قیادت بھی انہوں نے اپنے ہاتھ میں رکھی لیکن اتنے اندر تک نہیں اترے کہ اندر کا پورا جائزہ لے لیں۔ اور جو ٹھوکریں انہوں نے کھائیں وہ ان کی اسی وحشت کا اثر ہے۔
لوک سبھا کے الیکشن اور اس سے پہلے ہونے والے کرناٹک اور تین ریاستوں کے الیکشن میں انہوں نے یہ تسلیم نہیں کیا کہ کانگریس اب بی جے پی سے اوپر یا برابر نہیں ہے۔ اگر وہ ان چاروں ریاستوں میں یہ مان لیتے کہ وہ تمام ووٹ جو کانگریس کے سیکولر کردار کی وجہ سے اس کے ساتھ تھے ان میں سے بڑا حصہ کانگریس کی طرف سے مایوس ہوکر علاقائی پارٹیوں سے رشتہ جوڑ چکا ہے۔ اور گجرات کے الیکشن نے اس دوری کو اور زیادہ بڑھا دیا ہے۔ یہ کانگریس کی خوش قسمتی تھی کہ علاقائی پارٹیاں اس سے تعلق کو مضر نہیں سمجھتی تھیں۔ کرناٹک میں جنتادل ایس جس کے سرپرست سابق وزیراعظم دیوگوڑا ہیں انہوں نے راہل گاندھی سے کہا کہ ہم دونوں مل کر لڑلیں۔ اس پیشکش کو قبول کرنے کا مطلب راہل نے یہ سمجھا کہ اس کے دوست نما دشمن اسے بیساکھی دے رہے ہیں۔ اور نتیجہ وہی نکلا جو بزرگ لیڈر دیوگوڑا نے کہا تھا۔
یہ راہل گاندھی کی خودپسندی کا نتیجہ تھا کہ سیکولر ووٹ تقسیم ہوگئے اگر یہ دونوں مل کر لڑتے تو دونوں کے 125  ممبر ضرور ہوتے اور آج جو حالت ہورہی ہے شاید یہ نہ ہوتی کہ کرناٹک میں ہفتے ہوگئے حکومت ہے بھی اور نہیں بھی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جنتا دل کے ممبر اور وزیر یہ سمجھتے ہیں کہ کانگریس صرف حکومت کی لالچ میں ہمارے گلے کا ہار بنی ہے اس کا اگر آج بس چلے تو وہ ہمیں نکال دے اور یہ حقیقت ہے کہ وزیراعلیٰ کمار سوامی کوئی فیصلہ یہ سوچ کر کرتے ہیں کہ وہ وزیراعلیٰ ہیں اور انہیں حق ہے تو اس فیصلہ کو کانگریس کے وزیر تبدیل کرادیتے ہیں کہ یہ ہمارا حق ہے کیونکہ ہم دوگنے ہیں۔ سنا ہے کہ افسروں کے تبادلے ان کی تقرری ان کی ترقی ان کا زوال کوئی کام ایسا نہیں ہورہا ہے جس میں پہلے اندر جوتا نہ چل چکا ہو۔ یہ بات اگر راہل کے نہیں تو سونیا گاندھی کے سوچنے کی ہے کہ حکومت کو اتنا گندہ تو نہ ہونے دیا جائے کہ کرناٹک کے شریف عوام کان پکڑلیں کہ اب کانگریس کا نام بھی نہیں لیں گے۔
یہی مدھیہ پردیش میں ہوا وہاں کانگریس کو معلوم تھا کہ مایاوتی کا مدھیہ پردیش میں اثر ہے انہوں نے کانگریس سے 50  سیٹیں مانگیں یہ مایاوتی کا مزاج ہے کہ جس سے لیں گی یا مانگیں گی تو اتنا کہ پیٹ بھر بھی جائے اور پھٹ بھی جائے۔ اگر مایاوتی نے کبھی 20  سیٹیں بھی جیتی ہوتیں تو ان کی مانگ پر غور کیا جاتا۔ لیکن اگر پیار کے ساتھ راہل بات کرتے تو وہ کم کرسکتی تھیں۔ راہل گاندھی نے خود بات کرنا اپنی توہین سمجھی اور بات بگڑ گئی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب کانگریس کی حکومت ضرور ہے لیکن ٹوٹی ہوئی ٹہنی پر رُکی ہے اس لئے کہ مایاوتی من مانی سیٹیں جیت تو نہ سکیں لیکن کانگریس کو نقصان پہنچا دیا۔
جو کچھ مدھیہ پردیش میں ہوا وہی راجستھان اور چھتیس گڑھ میں ہوا۔ اور اس کے بعد جو لوک سبھا کے الیکشن آئے تو راہل گاندھی بوفورس توپ یعنی اپنی بہن پرینکا گاندھی کو ساتھ لائے اور لکھنؤ میں قدم رکھتے ہی انہوں نے اعلان کیا کہ وہ لوک سبھا کی 80  سیٹوں پر اپنی پارٹی کے اُمیدوار کھڑے کریں گے اور تنہا الیکشن لڑیں گے اس وقت پورا اُترپردیش اکھلیش یادو، مایاوتی اور اجیت سنگھ کے گیت گا رہا تھا جنہوں نے چار ضمنی الیکشن میں گورکھ پور سے بجنور تک بی جے پی کو ہرایا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ کچھ ایسے خفیہ ہتھیار استعمال ہوئے کہ یہ فولاد کا گٹھ بندھن 80 کا بن کر رہ گیا اور وہ راہل جو 80  سیٹوں پر اکیلے لڑرہے تھے وہ امیٹھی میں اپنی سیٹ بھی نہ بچا سکے۔
راہل گاندھی کے اندر جو سیاست سے وحشت تھی وہ اب ان کے اوپر پوری طرح حاوی ہوگئی اور انہوں نے قسم کھالی کہ اب نہ خود صدر بنیں گے اور نہ نہرو گاندھی خاندان کے کسی فرد کو بننے دیں گے۔ لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ اب جو بھی صدر بنے اسے پہلا سبق یہ پڑھایا جائے کہ وہ پارٹی کی 127  سال عمر کو نہ دیکھے یہ دیکھے کہ غیربی جے پی سیکولر پارٹیاں اور افراد جہاں بھی ہیں ان سب کو ایک پلیٹ فارم پر لایا جائے اور کانگریس کی وہ شناخت جو اُسے دوسری پارٹیوں سے الگ کرتی تھی یعنی سیکولر ازم اس کے ہر عمل اور ہر فیصلہ میں وہ دور سے چمکتا ہوا نظر آئے اور جسے اس سے وحشت ہو اور وہ دوسرے میدانوں میں مقابلہ کرنا چاہے وہ کانگریس کو زندہ کرنے کے بجائے وہاں چلا جائے جہاں سب جارہے ہیں اس لئے کہ چار دن بعد وہاں کا پھاٹک بھی بند ہوسکتاہے۔

20جولائی2019(فکروخبر)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا