English   /   Kannada   /   Nawayathi

ہندوستان کی غزہ پٹی،گجرات کاجوہا پورا

share with us

اس علاقہ کے عوام آج بھی ڈرے سہمے رہتے ہیں،ان کے ڈر اور خوف کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گجرات کے شہری ہونے کے ناطے جن سہولیات پران کا بنیادی حق ہے، ان کے لئے بھی یہاں کے لوگ مطالبہ نہیں کرتے،اپنی محنت اور مشقت سے جو کچھ حاصل ہو جاتا ہے، اسی میں پرصبرکرتے اور باعزت و محفوظ زندگی گزارنے کی کوشش اوردعاکرتے رہتے ہیں،احمدآباد کے ان مسلمانوں کی حالت بنیادی طور پر ویسی ہی ہے، جیسی کہ اسرائیلی جبروظلم ،بری ، بحری و فضائی پابندیوں اور رکاوٹوں سے گھرے غزہ پٹی کے مسلمانوں کی ہے،ہما نظامی اور نیاز بی بی دونوں جوہا پورا میں رہتی ہیں، مگر دونوں کی زندگی با لکل مختلف ہے ، ہماایک کالج میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں ، اپنا مکان ہے ، گاڑی ہے اور بچے بڑے پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں ، نیاز بی بی ان پڑھ ہیں ، چال نما عمارت کے ایک کمرے میں رہتی ہیں اور ان کے ناتی محلے کے ایک چھوٹے سے اسکول میں پڑھتے ہیں ،لیکن دونوں کے درمیان جو قدرِمشترک ہے ، وہ ہے ’ تشدد کا خوف‘ ، جس کی وجہ سے دونوں احمد آباد کے جوہاپورا علاقے میں رہنے پرمجبورہیں ۔
ایک کا گھر 1990 میں رام جنم بھومی بنام بابری مسجد چلائی گئی خونیں تحریک کے دور میں جلایا گیااور دوسری کا گھر2002 کے مسلم مخالف فسادات کے دوران ،گھر بار لٹ جانے کے بعد دونوں نے محفوظ مقام اور اپنے لوگوں کی تلاش میں جوہا پورا کا رخ کیااور اسی کو اپنا مستقل مسکن بنا لیا،نیا ز بی بی کہتی ہیں’ اس لئے نہیں کہ یہاں ہم رہنا چاہتے ہیں ، بلکہ اس لئے کی شہر کے کسی ہندو اکثریت والے علاقے میں رہنے کا من نہیں کرتا اور ہمت نہیں ہوتی ۔جوہا پورا اب احمد آباد میں مسلمانوں کا سب سے بڑا بسیرا ہوگیا ہے ،لیکن فسادت کے اتنے سالوں بعدبھی وہاں کے مکینوں میں بے پناہ خوف و دہشت پائے جاتے ہیں،شاید انھیں یہ احساس ہے کہ 2002کوتقریباً بارہ سال کا عرصہ گزرچکاہے،مگربجرنگی و بھگوائی دہشت گردوں نے وہاں کا جو خوفناک ماحول بنایاتھا،وہ ہنوز برقرارہے۔
ہما اور نیاز بی بی کی باتوں سے تو یہی لگتا ہے،ان کا کہنا ہے ’ایسا نہیں کہ ہر وقت حملے کا خوف رہتا ہے ، پر روزانہ ذہنی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔‘ہما کی بیٹی کے زیادہ تر ہندو دوست اس کے گھر آنے سے انکار کر دیتے ہیں ، آٹو والے علاقے میں آنے سے انکار کر دیتے ہیں اور حکومت نے تو گویا اپنا راستہ بدل ہی لیا ہے ،اسٹیٹ ٹرانسپورٹ کی بس اب جوہا پورا نہیں آتی ، باہرسے ہی گھوم جاتی ہے، پینے کا پانی سپلائی نہیں ہوتا ، اس کے لئے اپنے خرچ پر بورنگ کروانی پڑتی ہے ، جگہ جگہ نالے کا پانی سڑک پر پھیلا رہتا ہے، جو کئی جگہ سے ٹوٹی ہوئی ہے۔’نہ یہ رہنے کی سب سے اچھی جگہ ہے اور نہ ہی یہاں الگ الگ جگہوں سے آئے لوگوں کا رہن سہن اوربول چال یا ثقافت آپس میں ملتی ہے ۔‘ بلکہ جوہا پورا روز ہما کو مسلمان ہونے کا احساس دلاتا ہے ،یاد دلاتا ہے کہ وہ وہاں اس لئے ہے کیونکہ شادی کے وقت یہ ان کے خوفزدہ والد کی شرط تھی کہ وہ اپنی حفاظت کے لئے مسلم اکثریت والے علاقے میں رہیں ،یہ انہیں یاد دلاتا ہے کہ ایک پرائیویٹ بینک نے انہیں ہوم لون دینے سے انکار کر دیا تھا، کیونکہ اس کا خیال تھا کہ جوہا پورا میں رہنے والے قرض ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اوریہ یاد دلاتا ہے کہ جوہا پوراکے ٹھیک باہر بنی وہ تمام سوسائٹیاں جہاں ہندو رہتے ہیں ، وہاں پانی ہے ، نقل و حمل کی سہولیات ہیں ، سڑکیں ہیں اور نالیاں بنی ہوئی ہیں اور وہاں کسی آٹو والے کو جانے میں کوئی جھجھک نہیں ،جو بنیادی سہولیات ندارد ہیں ،ہما انہیں خودخرید سکتی ہیں اورنیاز بی بی نے ان کے بغیر رہنے کی عادت ڈال لی ہے ،دو منزلہ گھر میں رہنے کی عادی نیاز بی بی کا چھ لوگوں کا خاندان اب ایک کمرے میں رہتا ہے ، اپنے کھیت پر کام کرنے والے ان کے شوہر اب بے روزگار ہیں ۔ ایک بیٹا میکینک اور ایک سیلس مین ہے ۔گاؤں کے کھلے میدان کی جگہ ان کے ناتیو ں کا بچپن شہری چال کے گلیاروں میں کٹ رہا ہے ، وہ مسلمانوں کے درمیان ہی پڑھتے ہیں ، انہیں کے درمیان کھیلتے ہیں ۔
جوہا پوراکے باشندوں میں پل رہا یہ احساس کتنا خطر ناک ہے اس کا اندازہ ہر کسی کو نہیں ہو سکتا،یہ وہی محسوس کر سکتا ہے، جس کے پہلو میں ایک حساس دل ہو،جس کی سوچ سنجیدہ ہو، جس کی فکر دور رس اورجو انسان کی ذہنی کیفیات سے اس کی زندگی پر پڑنے والے اثرات کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو،پھر جو اپنے ملک کے تئیں ایک مثبت سوچ اور سمجھ رکھتا ہو،جسے حال سے زیادہ مستقبل کی فکر ہو،جس کی آنکھوں پر کسی مذہب یا ذات پات یا علاقہ کا چشمہ نہ لگا ہو،جو کسی سرکار کا وظیفہ خوار نہ ہو،جس کے دامن پرکسی پارٹی کی سیاست کے گندے چھینٹے نہ پڑے ہوں،جو انسانی جذبات کو سمجھتا ہو،جسے عمل اور رد عمل کا فلسفہ معلوم ہو،جس نے کبھی سلگتے کوئلے کے شعلۂ جوالہ بننے کا مشاہدہ کیا ہو،جسے پتا ہو کہ محرومی اور احساسِ محرومی کسے کہتے ہیں اور جو اس کے درد سے پیدا ہونے والی ٹیس کو محسوس کر سکتا ہو،کہتے ہیں کہ بچے قوم و ملک کا مستقبل ہوتے ہیں اور یہ بھی سچ ہے کہ بچے ان واقعات و حوادث سے متاثر ہوتے ہیں، جو ان کے ارد گردرونما ہوتے ہیں ،بچوں کا پہلا اسکول ان کا گھر ہوتا ہے ، ان کی سوچ پر ماں باپ اور دیگر رشتہ داروں اور سماج کے ان تمام افراد کا اثر پڑتا ہے، جہاں یہ اپنے شب و روز گزارتے ہیں،ہما اور نیاز بی بی کی باتوں سے تو یہی لگتا ہے کہ جوہا پورا کے لوگوں میں احساسِ مایوسی کے تسلسل نے صبر و شکر کی وہ کیفیت اختیار کر لی ہے کہ اسے ایمان محکم کہئے؛لیکن کیا اتنا کہہ دینا کا فی ہے؟ جوہا پورا کے باشندے بھی انسانی جبلت رکھتے ہیں،وہ بھی اسی دنیا کے انسان ہیں،وہ بھی ہندستان کے باشندے اور گجرات کے شہری ہیں،وہ دن رات دیوار کے اُس پار آباد انسانوں کے معیار زندگی کو دیکھتے ہیں،ان کے لئے حکومت کی جانب سے فراہم کردہ سہولیات اور آسائشوں کا بنظر غائر مشاہدہ بھی کرتے ہیں،ایسی صورت میں ہم صبر و شکر کی کس انتہا کی ان سے توقع کرتے ہیں؟کیا سالوں سے جوہا پورا کے مسلمانوں میں پنپ رہا احساسِ محرومی کبھی لاوا بن کر نہیں پھوٹے گا؟اور اس وقت ہم انہیں کیا کہیں گے؟دہشت گرد،ملک کے غدار یا پھراسلامی بنیاد پرست،مسلم انتہا پسند اور کیا کیا!
کہنے کو ہمارا ملک جمہوری ہے،ہرِ شخص کو مساوی حقوق حاصل ہیں،یہاں مذہب او ذات پات کی بنیاد پر کسی طرح کی تفریق روا نہیں،ملک کے کسی بھی حصہ میں رہنے والا باشندہ صرف ہندوستانی ہے، حکومت اسے ایک نظر سے دیکھنے کی پابند ہے،لیکن کیا گجرات میں ایسا ہی ہو رہا ہے ،وہاں کی حکومت اپنے شہریوں کے درمیان مساوات برت رہی ہے؟انہیں بنیادی سہولیات فراہم کرار رہی ہے؟جوہا پورا تو یہی کہہ رہا ہے کہ نہیں،یہ سب جھوٹ اور فریب ہے،اس میں کسی بھی طرح کی سچائی نہیں ہے۔ ہمارے ملککا آئین اپنی جگہ مکمل ہے، ہمیں اس پر پورا اعتماد ہے ۔مگر اس پر اکثریت پسندوں کا قبضہ ہے ،وہ جس طرح چاہتے ہیں اس کی تشریح و تعبیر کرتے ہیں اور جہاں چاہتے ہیں اورجس طرح چاہتے ہیں اس کا نفاذ کرتے ہیں۔12سالوں سے ایک طرح سے سرکاری بائیکاٹ کا سامنا کر رہے جو ہا پورا کے لوگ شاید یہی کہہ رہے ہیں۔
ہم ملک میں گنگا جمنی تہذیب کی بات کرتے ہیں،کثرت میں وحدت کا راگ الاپتے ہیں اور دوسری جانب لاکھوں کی تعداد میں لوگ اپنے ہی ملک میں اجنبی بن کر جینے پر مجبور ہیں،نیاز بی بی اور ہما جیسے لاکھوں گھروں میں پرورش پا رہے بچوں سے کس جمہوریت اور گنگا جمنی تہذیب و ثقافت کی توقع کی جائے۔جنہوں نے کبھی مسلمان کے علاوہ کسی دوسرے کو دیکھا ہی نہیں ہے۔جنہوں نے اپنے والد ،بھائی بہن اور دوسرے لوگوں کوقتل کرنے کی کہانیاں سنی ہیں۔جن کے کورے ذہنوں میں اپنوں کے علاوہ کے لئے نفرت کی عظیم دیوار کھڑی ہو چکی ہے۔جن کے لئے ہندو بچے ایک پہیلی ہیں ۔جن کے لئے سرکار نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے۔آخر ان سے ہم کس ہندوستان کی تعمیر کی توقع رکھیں؟ اپنے ارد گرد موجود ماحول کا جواب وہ جب کبھی اپنے خاندان میں ہوتی پرانی باتوں میں ڈھونڈتے ہیں تو انہیں سمجھایا جاتا ہے کہ وہ سچ نہیں ہے۔ جس تشدد کی بات ان کے کانوں نے سنی ہے ، وہ گویا ہوا ہی نہیں تھا ۔نو ، دس سال کے لڑکوں سے جب کہا جاتا ہے کہ کیا ان کے ہندو دوست ہیں ؟ تو وہ بول پڑتے ہیں ، ’نہیں ، ہندو تو برے ہوتے ہیں ۔‘
جن بچوں نے فسادات کے دوران تشدد کودیکھا ہی نہیں ،جیا بھی ہے اور جن بچوں نے مذہب کی بنیاد پر کھینچی گئی لکیرکواپنی زندگی کا ایک سچ مان لیا ہے، ان کے لئے تو وقت گویا رک گیا ہے ۔
12 سال بعد بھی ان کے لئے کچھ نہیں بدلا،پورا ہندوستان بدلا،گجرات بھی بدل گیا،ان کے سامنے کھڑی دیوار کے اس پار کی ساری دنیا بدل گئی،نہیں بدلی تو جوہا پورا کی قسمت،کوئی اچھا اسکول نہیں،علاج کے لئے کوئی بڑا اسپتال نہیں،پینے کے لئے صافی پانی میسر نہیں،ٹرانسپورٹ سہولیات ندارد،سکورٹی کا مالک خدا! ہاں! سکورٹی کیا ہر چیز کا مالک خدا ہی ہے،وہی عزت و ذلت دیتا ہے،وہی رزاق ہے،وہی حفیظ ہے،بے شک وہ مالک الملک ہے،اس کی مرضی کے بغیر تو ایک پتا بھی نہیں ہلتا ،ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے توہرمسلمان کا اور جوہاپوراوالوں کابھی اس پر پختہ ایمان ہے، مگر دنیا تو یہی کہہ رہی ہے کہ گجرات بدل گیا،جوہا پورا بھی گجرات کا ہی ایک حصہ ہے ،حالات میں تبدیلی کی اسی نا امیدی نے ہما اور نیاز بی بی کوجوہا پورا کے چار لاکھ مسلمانوں کے ساتھ متحد کر دیا ہے ۔
سال 2003 میں ڈائریکٹر راکیش شرما نے گجرات میں ہوئے فسادات اور ان کے بعد کی انتخابی مہم پر ایک ڈاکیومینٹری فلم بنائی تھی ’ فائنل سولیوشن ۔‘اس فلم کے آخری منظر میں 12،14 سال کے لڑکوں کی عمر کے ایک مسلمان لڑکے نے راکیش شرما کو کچھ یہی کہا تھا ،وہ بچہ بھی ہندوؤں سے ناراض تھا ، مگر راکیش شرما کو اچھا انسان سمجھتا تھا ، اس لئے جب انہوں نے بتایا کہ وہ ہندو ہیں تو اس نے ماننے سے انکار کر دیا ،
جوہا پورا احمد آباد کے مضافات میں قومی شاہراہ نمبر8A پر ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہے،گجرات میں آئے بھیانک سیلاب کے متاثرین کی اس علاقے میں 1973 میں باز آبادکاری کی گئی تھی،1990میں رام جنم بھومی کے نام پر ہوئے فسادات اور 2002کے گجرات فسادات کے بعد یہ مسلمانوں کی محفوظ پناہ گاہ کے طور پر ابھرا ہے، فسادات کے اس دور سے پہلے جوہا پورا کی آبادی تقریبا 85,000 ہوا کرتی تھی ، جو اب بڑھ کر تقریبا چار لاکھ ہو گئی ہے،جوہا پورامیں رہنے والے مسلمانوں کی اکثریت کا تعلق بریلوی فرقے سے ہے ، ویسے دیوبندی بھی اچھی خاصی تعدادمیں یہاں آبا د ہیں ،کچھ تعداد شیعہ مسلک والوں کی بھی ہے ۔ 
1985 سے لے کر2002 ء میں گجرات کے فرقہ وارانہ فسادات کے بعد مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد احمد آباد کے ہندو اکثریتی علاقوں بلکہ پورے شہر سے ہجرت کرکے جوہا پورا پہنچنے لگی، اس کی وجہ سے یہاں زمین اور گھروں کی قیمتیں آسمان پر پہنچ گئیں،لوگ دوسرے علاقوں سے اپنی بڑی بڑی حویلیاں تک بیچ کر یہاں آئے اور بس گزر بسر کے لائق گھر بنا کر رہنے لگے،کیونکہ انہیں اپنی جان اور عزت و آبرو کی حفاظت زیادہ پیاری تھی۔
مودی پورے ملک میں گھوم گھوم کر گجرات کے کس ماڈل کی بات کرتے پھر رہے ہیں،کیا اسی ماڈل کی،جس کی عکاسی ان کے زیرِاقتدار صوبے کی راجدھانی کا مذکورہ مسلم اکثریتی علاقہ کررہاہے،کیا وہ ہندوستان بھرکے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعدپورے ملک کے مسلمانوں کو اُسی طرح محرومی،ناامیدی اور یاس و قنوطیت کی کھائی میں ڈھکیل دینا چاہتے ہیں،جس طرح جوہاپورا کے مسلمانوں کوبے دست وپا اور وسائلِ معیشت سے محروم کر رکھاہے،وہ کہتے ہیں کہ مسلمان ان سے مل کر ان سے پیار کرنے لگیں گے،آخرکس منہ سے وہ اس طرح کی بات کہنے کی جرأت کرتے ہیں؟وہ جگہ جگہ یہ ڈھنڈورا پیٹتے ہیں کہ’میں مسلمانوں کے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں لیپ ٹاپ دیکھنا چاہتاہوں‘مگرخود ان کے گجرات کے مسلمانوں کی حالت کیسی ہے،انھیں اس کی خبر ہے!
؂واقعہ یہ ہے کہ مودی اینڈکمپنی گجرات کے جس ماڈل کوملک پر تھوپنا چاہ رہی ہے،اس کا سرے سے کوئی وجود نہیں اور اگر ہے ،تووہ مخصوص طبقوں،متمول خاندانوں اور بڑے بڑے صنعت کاروں تک محدودہے،تو کیاترقی کے اسی ماڈل کو ہندوستانی جمہوریت قبول کرلے گی؟

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا