English   /   Kannada   /   Nawayathi

جناب  ڈاکٹر حسن بابا ایم ٹی (مرحوم)کے انمٹ نقوش خدمات

share with us

عبدالمجیب خیال  

  

کچھ لوگ جو اس  بزم سے اٹھ جائیں گے جن کو                       تم ڈھونڈنے نکلوگے مگر پا نہ سکوگے

 جناب ڈاکٹر حسن بابا صاحب  اس جہان رنگ و بو میں کم و بیش ۷۹ سال کی  حیاتِ مستعار لے  کر آئے تھے۔ آپ کی پیدائش02/02/1940 میں بھٹکل کے علوہ محلے میں ہوئی۔  سعدا  خاندان کے چشم وچراغ تھے۔ آپ کے والد کا نام محمد تقی تھا۔ اس لحاظ سے آپ ایم ٹی حسن بابا کے نام سے مشہور ہوئے ۔

          1974کا زمانہ ،  عروس البلاد ممبئی کے ہنگامہ خیز ایام میں بھٹکل کی چند ہم خیال اور فکری ہم آہنگی رکھنے والی شخصیات جمع ہوتی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک شخص کچھ نہ کچھ کرنے کا جذبہ  رکھنے والا۔  اسطرح ان جذبوں کے حسین امتزاج نے اخبار" النوائط"کو وجود میں لے آیا۔ ڈاکٹر حسن بابا مرحوم کی رہنمائی میں اپنی منزل کی طرف گامزن یہ شخصیت  جناب عبداللہ لنکا کی تھی'جناب قادر میرا پٹیل'جناب عبداللہ رفیق'جناب ڈاکٹر حنیف شباب'جناب عبداللہ دامودی مرحوم'اور جناب جناب محمد فاروق شابندری پٹیل(پٹیل کارپوریشن ممبئ)  کی تھی۔ علم و ادب  اپنی پوری تابناکی اور جامعیت کے ساتھ" النوائط"کے پرچوں پرمترشح ہو اس  کیلئے اس قافلے کا ہر ایک فرد بہت فکرمند رہتا تھا لیکن بسا اوقات کاتب کی غلطیوں کا خمیازہ بھگتنے کے لئے جناب عبداللہ رفیق غلطیوں کی اصلاح کے لئے بہت بھاگ دوڑ کیا کرتے تھے کیونکہ کاتب بھندی  بازار سے بہت دور آگریپاڑہ  کے علاقے میں رہتے تھےاور جہاں جانے کے لیے کسی سواری کا نظم وغیرہ نہیں تھا پیدل ہی جانا پڑتا تھا  اور  اپنا کام کرواکر واپس آتےآتے پورا پورا دن نکل جاتا تھا۔  بہرکیف ایک عرصے تک النوائط اپنا جلوہ دکھا تا رہا۔ لیکن کیا کیجئے۔ لوگ ملتے ہیں ادارے بنتے ہیں لیکن کچھ ہو جاتا ہے اس طرح النوائط مرحوم ہو گیا ۔ کسی شاعر نے بھی کہا ہے کہ

کس شوق سے چلے تھے مسافر مگریہ کیا       آسودہ ؑنشا طِ سفر ہو کے رہ گئے

جناب حسن بابا مرحوم نے BUMS   کا کورس پورا کر لیا تھا آپ  Bachelor of Unani Medical Science  تھے۔ ممبئی کے مشہورِ زمانہ طبیہ میڈیکل کالج میں  کم و بیش تیس سال تک بحیثیت  پرنسپل اپنی بے مثال خدمات انجام دیں۔ساتھ ہی ساتھ آپ اسی میں لیکچرر بھی تھے۔ طبیعت میں چونکہ ظرافت بھی تھی اس لیے آپ کےعملے کے ساتھی بھی آپ کے گرویدہ تھے۔

1975 میں جب اندرا گاندھی نے ایمرجنسی نافذ کردی تو اس کی زد میں صاف گو اور بے باگ طرز تحر  یر کا حامل اخبار”دعوت” پر پابندی لگ گئی ۔تب یہ ڈاکٹر صاحب کا کارنامہ تھا کہ ممبئی سے آپ نے اخبار”  داعی“شروع کیا ۔ویسے اخبار دعوت کی کمی کو تو قارئین ہمیشہ محسوس کرتے رہے لیکن بڑی حد تک ڈاکٹر مرحوم  نے اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کی تھی۔بھٹکل میں ڈاکٹر صاحب آئے اور رھائش پزیر ہوگئے تو حسن اتفاق کہ آپ کے ممبئی کے تمام آپ کے ساتھیوں کا حلقہ  دوبارہ  بھٹکل میں مل گیا ۔ ڈاکٹر صاحب یہاں عصری تعلیم و فنون کا بڑھاوا چاہتے تھے لیکن اس  امر  میں آپ مرحوم بڑے  محتاط تھے کہ طریقہ و اسلوب تعلیم مکمل اسلامی طریقے پر ہو جس کے نتیجے میں ادارہ تربیت الاخوان کا وجود عمل میں آیا ۔”یداللہ علی الجماعۃ  “ کے مظہرِ بابرکت میں ممبئی کے رفقاء کے علاوہ بہت سے لوگ اس قافلے میں شریک ہوئے۔ حافظ عبدالغنی  بن محترم  عبدالرزاق  خجندی مرحوم ‘  محمد اسماعیل محتشم ’ عبدالقادر باشاہ رکن الدین  اور  محمد اقبال اکیری و غیرہ قابل ذکر ہیں ۔    دکٹر اویس خواجہ اول یوم سے ان کے ہم نوا رہے ہیں ۔  یہ تمام اراکین  ممبئی میں قیام کے دوران کی تحریک و مساعی میں بنفس نفیس شریک ہو ں یا نہ ہوں لیکن ان کا ارتباط اسوقت  بھی تھا اور آج اس وقت بھی یہ تمام مربوط ہیں۔ اس ادارے کےاولین مقاصد میں یہ بات درج ہے کہ قوم کے نونہالوں کو ملک و ملت کی بہتر خدمت کے قابل بنایا جائے اور اسی کے نتیجے میں  شمس سکول قائم ہوا۔  ہمارے  طالب علمی کے زمانے میں ڈاکٹر مرحوم ہمارے کلاس میں متعدد بار آف پریڈ میں آیا کرتے تھے۔ اس لحاظ سے وہ ہمارے استاد بھی ہیں۔

 ڈاکٹر صاحب  مشیت ایزدی  سے  ہمیں داغ مفارقت دے چکے ہیں لیکن کی یادیں ان کا سراپا انکی خدمات کی شکل  میں تادیر ہمارے بیچ موجود رہے گا ۔ اللہ رب  العزت ڈاکٹر صاحب کی بھرپور مغفرت فرمائے اور جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے آمین ۔

کوئی بھی معاشرہ لائق و  قابل افراد سے کبھی خالی نہیں ہوتا۔ لیکن لوگ کماحقہٗ ان کی قدر نہیں کر پاتے۔ ہمارے پاس ایک اچھے مورخ کی حیثیت کے مولانا عبد المتین منیری و مولانا عبدالعظیم قاضیا   جیسے لوگ موجود ہیں۔استاد قوم  باطن  ماسٹر جیسا  مستشار العلوم (cultural Itachi)موجود ہ  ہیں جو انجمن میں خود ایک انجمن ہیں۔ انجمن کی انتظامیہ میں اپنے شاگردوں کے بیچ میں بیٹھ کر کر ان کی   تیکھی  میٹھی باتوں کوسننا  اپنے لیے کسرِشان نہیں سمجھتا۔زندگی سے جڑے تمام شعبوں پر سیر حاصل  بحث کر سکتا ہے ۔قادر میراں پٹیل جیسا اہل قلم موجود ہے۔ ڈاکٹر حنیف شباب اور جناب عبداللہ رفیق   جیسے صحافی و ادیب موجود ہیں۔ عبدالعلیم شاہین جیسا اعلیٰ قدروں کا شاعر موجود ہیے۔ ہمارا معاشرہ  اور بھی ایسےبہہت سے قابل لوگوں  سے بھرا پڑا ہے  لیکن ان لوگوں کے پاس جا کر ان کے پاس بیٹھ کر کچھ حاصل کرنے کااور اپنی معلومات میں اضافہ کر لینے کا جذبہ کیا ہم میں موجودہ ہے؟ کیا ایسے لوگوں کے لیے ہمارے پاس تھوڑا سا بھی وقت ہے؟ یہ ایسے لوگ ہیں  جو بنا کسی اجرت کے اور بنا کسی مطلب کے  اپنے پاس آنے والے  ہر تشنہ لب کو کامران ِلب تر و تازہ کر دینے کو تیارہیں لیکن کوئی پیاسا بھی ہو تب نا؟ اعزاز  صرف یہ نہیں  کہ جلسوں میں ان جیسے لوگوں کو بلوا کر کر ان کی شال پوشی اورکسی کی گل پیشی کی جائے  اور اس کے بعد ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے  بلکہ ان کے پاس جانا ملاقاتیں کرنا اورانکی مزاج پرسی  کرتے رہنایہ ان کے احساس کو زندہ رکھتا ہے اور یہ ان کا اعزاز ہے۔ مولانا عبدالعلیم قاسمی اج چار دہائیوں سے  بھی زائد عرصہ گزر چکا ہے  تواتر کے ساتھ نقش نوائط کے ذریعے ساری دنیا میں بھٹکل وحول بھٹکل کو پیش کرتے آرہے ہیں کیا یہ کوئ معمولی بات ہیے؟ صحافتی سمینار کے عنوان سے جلسے تو منعقد کیے جاتے ہیں جس  میں چند علماء کو بلوا کر بسم اللہ خوانی اور اختتام کر دیاجاتا ہے لیکن چار دہائیوں کے  صحافتی تجربات اوراسکے اونچ نیچ کو  سمجھنے کے لئے  کسی اصل اور خالص صحافی کو لا کر اسٹیج پر بٹھانے کا کسی کو خیال نہیں آتا۔مرزا غالب کے بقول"ناستایش کی تمنانا صلےکی پرواہ"قاسمی  صاحب اپنی خدمات دئے جا رہے ہیں۔اللہ تعالی ہمارے معاشرے کو مزید ایسے بے لوث خدمت گزاران سے  مزین کرے آمین ۔ کہنے والے نے کہا

لاکھوں ہی مسافر چلتے ہیں منزل پہ پہنچتے ہیں دو اک                                 اے اہل زمانہ قدر کرو نایاب نہ ہوں کم یاب ہیں ہم

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا