English   /   Kannada   /   Nawayathi

 حافظ ابراہیم اور مثالی والدین 

share with us

 تحریر:  سید ہاشم نظام ندوی

ایڈیٹر انچیف فکروخبر بھٹکل 

     موت کا فرشتہ ابرہیم سے مخاطب تھا،غیب سے آواز دے رہا تھا کہ اے حافظ ابراہیم اس قید خانہ میں کیا مزہ ہے، میں تجھے اپنی آغوش میں لے چلتا ہوں، ایک بار پانی میں ڈبکی لگا اور جامِ شہادت نوش کرجا،یہ ڈوبنا تجھے شہادت سے ہمکنار کرے گا،میں تجھے اس جنت کی طرف لے جاتا ہوں جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمیں کے برابر ہے، جو متقیوں کے لئے تیار کی گئی ہے۔بس کچھ ایسے ہی ہوا، ادھر ایک آخری ڈبکی لگائی اور ادھر ہمیشہ کی نیند سو گیا۔ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔ 
    حافظ ابراہیم کے عمرہ سے واپسی کی خوشی میں آج پورا گھر پر رونق تھا، خوشی و مستی میں جھوم رہا تھا، مگر دن گزرنے سے پہلے اور غروبِ آفتاب سے قبل ہی گھر کی رونق ایک ہنگامہ میں تبدیل ہو گئی، خوشیوں کو الم ناک حادثہء موت نے غم میں بدل ڈالا۔اوریہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے شہر میں پہل گئی کہ حافظ ابراہیم اپنی حیاتِ مستعار کی کل سولہ بہاریں گزار کر اپنے ملکِ حقیقی سے جاملا اور اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔وہ ایک پھول تھا جو کھلا،مگر کھلتے ہی مر جھا گیا، ایک سبزہ لہلایالیکن بہت جلد سوکھ گیا،ایک چراغ تھا جوجلا اور اپنی روشنی پہلانے سے قبل ہی بجھ گیا۔

نوخیز ابراہیم کی یوں زندگی بتلا گئی    شاخِ گل میں اک کلی آئی کھلی مرجھا گئی

    جی ہاں یہ ایک ابھرتی ہوئی جوانی تھی، نوخیزی کا عالم تھا،کھانے کھیلنے کے دن تھے، گھومنے پھرنے کا وقت تھا، پڑھائی میں جی لگانے کا عرصہ تھا۔لیکن اب کیا تھا، گلشنِ فیصل کا گلِ رعنا مرجھا چکا تھا، تیراکی میں تھک ہار کر اپنی میٹھی نیند سو چکا تھا،جنازہ گھر میں تیار تھا، قبرستان لے جانے کے لئے آخری رسومات ادا کی جا رہی تھیں، غسل وکفن دے کرجنازہ اٹھانے کے لئے اعزہ واقربا اوردوست و احباب جمع تھے، تو کوئی زبانِ حال سے یوں مخاطب تھا۔

لوگ کچھ پوچھنے کو آئے ہیں      اہلِ میت جنازہ ٹہرائیں 
لائیں گے پھر کہاں سے غالبؔ کو     سوئے مدفن ابھی نہ لے جائیں 

دنیا والے اس مرنے والے کے خد وخال سے زیادہ واقف نہیں تھے، ابھی نگاہیں اس سے زیادہ مانوس بھی نہیں تھیں، مگر آج اس کی آنکھ بند ہوتے اور رتبہء شہادت سے سرفراز ہوتے ہی اس معصوم کے فضائل وخصائل سامنے آنے لگے، اس کی خوش نصیبی کا اندازہ ہر کوئی کیسے لگا سکتاہے، دنیوی مفادات سے دیکھنے والے اخروی نظر سے کہاں دیکھ سکتے ہیں، مادہ پرست ذہن روحانی مرتبوں کا کیا اندازہ لگا پاتے ہیں۔
     وہ حافظِ قرآن تھا، علمِ دین حاصل کر رہا تھا،جامعہ اسلامیہ میں زیرِ تعلیم تھا، دینی تعلیم کا آغاز مکتب جامعہ اسلامیہ نوائط کالونی سے ہوا تھا، ابتدائی درجات کے بعد ان کے والدین نے حافظِ قرآن کی نعمتِ بیش بہا سے سرفراز کرانے کے لئے جامعہ آباد کے تحفیظ القرآن میں داخل کیا، جہاں سے صرف ایک سال قبل ہی حفظِ قرآن کی دولت سے مالا مال ہوا، پھر تعلیم کی تکمیل کی غرض سے اعدادیہ میں داخلہ لیا، جس کا یہ دوسرا سال تھا۔ یہ ایک محنتی اور ہونہار طالبِ علم تھا، نرم مزاج اور نرم دل تھا، رات جلدی سونے کا عادی تھا، سلیقہ مند تھا، دعوت وتبلیغ سے تعلق تھا۔
    انتقال کے بعد مادرِ علمی جامعہ اسلامیہ کے وسیع و عریض احاطہ کے عالیشان مسجد میں تعزیتی اجلاس منعقد کیا گیا، جس میں مرحوم کے اساتذہ میں مولانا حافظ عمران اکرمی جامعی، مولانا فوازمنصور ندوی، مولانا فیض احمد اکرمی ندوی، و مہتممِ جامعہ مولانا مقبول احمد ندوی سمیت ہر ایک نے اپنے گہرے رنج وغم کا اظہار کیا، اس سے اپنے تعلقات کو بتایا، اس کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ کیا، اس کی سعادت مندی کو سراہا، خوش اخلاقی کو بتایا، اسی کے ساتھ آپ کے والدِ ماجد جناب فیصل عابدہ سے بھی اپنے لختِ جگر اور نورِ نظر پر جو ایمان افروز کلمات اور درد بھرے جذبات سننے کو ملے، یقیناسننے سے تعلق رکھتا ہے، ایک باپ اپنے فرزند کی کس طرح تعزیت کر رہا تھا، دیکھنے کا ایک نمونہ تھا،سب سے پہلے آپ نے اللہ کے حضور قضا و قدر پر یقین رکھتے ہوئے اس کے فیصلہ پر اپنی رضا مندی کا اظہار فرمایا، اسے حادثہ سے تعبیر کرنے کے بجائے الہی فیصلہ گردانا، اس کا اپنا مقدربتلایا،ایسا لگ رہا تھا کہ گویا تسلی کا مستحق خود دوسروں کو تسلی دے رہا ہو،صاحبِ تعزیت خود دوسروں کی تعزیت کر رہا ہو، اپنے فرزند کے مادرِ علمی میں آکر ان کے اساتذہ اور رفقاء کی تعزیت کررہا ہو، جن اساتذہ نے اس کی تربیت وتعلیم میں حصہ لیا تھا، ان کو خراجِ عقیدت پیش کر رہا ہواور دل کی گہرائیوں سے ان کا شکریہ ادا کر رہا ہو۔
    آپ اللہ تعالی کی عظمت وقدرت کے بول اپنے زخم خوردہ احساسات کے ساتھ بول رہے تھے، اس کے ساتھیوں کو سمجھا رہے تھے کہ تم اس کو لے نہیں لے گئے تھے، بلکہ اس کا مقدر اسے لے گیاتھا، تم نے اس کو نہیں بلایا بلکہ اس کو موت کے فرشتہ نے دعوت دی تھی اور اس کی موت کے طے شدہ جگہ پر مقررہ وقت پر پہنچارہا تھا، آگے اس کے اوصاف بیان کرتے ہوئے رقت طاری ہو گئی،کہنے لگے کہ میرا بیٹا ہونہار تھا،مطیع و فرماں بردار تھا، نیک طینت اور بھلی طبیعت کا مالک تھا، اپنے والدین کا خدمت گزارتھا، اپنی بھولی بھالی صورت کی طرح نیک سیرت تھا، ہماری توقعات کا مرکز تھا، اپنی امی کا پورا خیال رکھتا، گھرکے کام وکاج میں ہاتھ بٹھاتا، اپنی اکلوتی بہن کے لئے بہترین بھائی اور اپنے دونوں بھائیوں اسماعیل واسحاق کے لئے بہترین دوست تھا، اب بھی مجھے ایسا لگتا ہے گویا وہ میرے سامنے کھیل رہا ہو، کچھ مانگ رہا ہو، اپنی ضدیں منوا رہا ہواور مجھ سے اپنی محبتوں کا اظہار کر رہا ہو۔ وہ چھوٹی عمر سے مرغیاں پالنے کا شوقین تھا، وقتا فوقتا میں اس کی یہ مانگ پوری کرتارہتا، تاکہ بچہ زیادہ باہر رہنے کے بجائے گھر ہی میں اپنے اوقات گزارے، بازار کی فضا سے محفوظ رہے، اس شوق کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ حافظِ قرآن بننے کے بعدبھی اس نے جو انعام طلب کیا تھا، وہ بھی مرغیوں کا انعام تھا۔
    بتایا کہ اسی کے اصرار پر الحمد للہ عمرہ کا سفر ہوا، سفر سے واپسی میں اپنے ساتھ تیس عربی لباس یعنی کنڈورا لے آیا،جو اپنے دوست و احباب کے لئے انعامات تھے اوراسی میں اپنے لیے بھی مستقل یہی لباس پہننے کی نیت بھی۔ بالخصوص آپ نے ان کے اساتذہ کا تذکرہ 
کرتے ہوئے اس کی تعلیم وتربیت میں ان کے کامیاب کردار کو سراہا، مولانا عبد السمیع آرمار، مولانا عمران اکرمی اور مولانا فواز منصوری کا ذکرِ خاص کیا، جامعہ اسلامیہ کی تربیت کا کھلے دل سے اعتراف کیا، فرمانے لگے کہ میں اسے حافظِ قرآن اور عالمِ دین بننے کا ارادہ بیس پچیس سال قبل ہی کر چکا تھا، اس کے روشن مستقبل کو دیکھنے کے لیے میری آنکھیں بے تاب تھیں، مگرمیرا اپنا خواب اس حد تک تو پورا ہو گیا کہ وہ حافظِ قرآن بن گیا، ہمیں آخرت میں اعزاز کا مستحق بنا گیا، جنت کا حقدارٹہرایا، اور میں حدیث کے مفہوم کے لحاظ سے اس بات پر بھی یقینِ کامل رکھتا ہوں اور ذات باری تعالی سے امید وار ہوں کہ اس کا شمار علماء کا ساتھ کیا جائے گا، وہ عالمِ دین اٹھایا جائے گا اور مجھے ایک عالمِ دین کا والد بننے کا بھی شرف حاصل ہوگا، میری مغفرت کا ذریعہ بنے گا۔ بات کرتے کرتے حقوق ومعاملات کی طرف بھی توجہ دلائی کہ اگر اس نے کسی سے قرض لیاہو، تو وہ مجھ سے آکر وصول کر لے، ساتھ ہی اس کے لئے دعائے مغفرت اور ایصالِ ثواب کے لیے تلاوت کی درخواست کی، میں اس کی آخرت کو بہتر دیکھنا اور قبر میں سکون اور برزخ کی زندگی میں اطمنان چاہتا ہوں۔ ان کے والد کے اعتراف کی طرح ان کا لفظ لفظ یہ بتا رہا تھا کہ انھوں نے جو کچھ حاصل کیا ہے اور دینی تعلیم کی اہمیت جو انھوں نے سمجھی ہے وہ صرف جماعتِ دعوت وتبلیغ کی دین ہے، میرے پہلے چلہ ہی میں کی ہوئی نیت ہے کہ میں اپنے فرزند کو حافظِ قرآن اور عالمِ دین بناؤنگا اور اللہ تعالی نے ہمیں اپنی نیت کے مطابق نوازے گا۔
    حافظ ابراہیم نے ماں بھی بڑی عابدہ پائی،اس کی والدہ دو ہونہار فرزندانِ جامعہ اسلامیہ مولانا شعور میگون جامعی اور مولانا سعود میگون ندوی کی بہن ہیں،یہ دونوں سعودی عربیہ میں مقیم ہیں، مرحوم ان کے لاڈلے تھے،سن شعور سے پہلے ہی اپنے ماموں مولوی شعور کے ساتھ حج ِ بیت اللہ کی سعادت سے سر فراز ہوئے تھے،ام ابراہیم ایک معروف خاندان کی دیندار خاتون ہیں،عابدہ وزاہدہ ہیں، انتہائی نرم مزاج،نیک طبیعت کی مالک اورصبر و شکیب کی حامل ہیں، اپنے جواں سال کی وفات پر بھی صبر وضبط کاپوراثبوت دیا،قضا وقدر پر راضی برضا رہی، اس ماں نے بھی اپنے لختِ جگر کی تربیت میں پوری توجہ دی، اپنے شوہرکے ساتھ خود بھی اس پر خصوصی توجہ دیتی، اس کی پڑھائی کا پورا خیال رکھتی، حسنِ تربیت کا خیال رکھتی، گھر والوں کا بیان ہے کہ ہمیشہ شہر کے یا کبھی اپنے خاندان کے کسی عام دین یا حافظِ قرآن کا حوالہ دے کرمثال بیان کرتی، اسے انہی کی طرح بننے پر ابھارتی اور اسلاف کا نمونہ بننے کو بتاتی تھی۔بلا شبہ میاں بیوی دونوں اپنے حسین خوابوں کی حسین تعبیراس نوخیز کے مستقبل میں تلاش کر رہے تھے، عزیز ماں باپ کی امیدوں کا مرکز تھا۔یقینا میاں بیوی دونوں ایک ہونہار فرزند کے مثالی والدین ثابت ہوئے، جو ہرایک کے لئے درس وعبرت ہے،اولاد کی دینی تربیت کی طرف رہنمائی کر نے کی بہترین مثال اور قابلِ تقلید نمونہ ہے۔ اے اللہ اس طالعِ نیک بخت کی مغفرت فرما، جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرما اور اس کے پسماندگان کو صبرِ جمیل عطا فرما۔


 فکر وخبر بھٹکل       ؔPosted by: www.fikrokhabar.com

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا