English   /   Kannada   /   Nawayathi

حافظ  ابراہیم بن فیصل عابدہ کا سانحۂ ارتحال پر جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں تعزیتی نشست

share with us

کل نفس ذائقة الموت
موت کا آنا ہر ایک کے لیے یقینی ہے، البتہ اس کا وقت رب کریم ہی کو معلوم ہے۔

جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے ایک طالب علم حافظ ابراہیم بن فیصل عابدہ متعلم اعدادیہ  ثالثہ کا کم عمری میں حادثاتی موت سے اس دنیا کو چھوڑ جانا ہم سب کے لیے باعث عبرت و نصیحت ہے، موصوف کے صفات حسنہ کے تذکرے ہر ایک کی زبان پر  ہیں، اہل جامعہ، ان کے والدین و  متعلقین و دوست احباب ہر ایک غم میں ڈوبا ہے، اسی مناسبت سے جامعہ اسلامیہ میں آج 10 ذیقعدة الحرام  1440ه نماز ظہر ایک تعزیتی نشست کا انعقاد ہوا جس میں اساتذہ کی پرنم آنکھیں ان سے تعلق کا اظہار کررہی تھی۔

مرحوم کی اچھائیوں کو گناتے ہوئے مہتمم جامعہ مولانا مقبول صاحب ندوی نے فرمایا کہ اللہ نے ہمارا انتخاب دین کی تعلیم کے لیے کیا ہے اس راہ میں موت بھی آجائے تو اللہ کے یہاں اس کے بڑے مقامات ہیں، نیز اللہ نے ہمیں تقدیر پر ایمان کے ساتھ تدبیر کا مکلف کیا ہے اس لیے ہمیں خطرات کی جگہوں سے دور رہنا ہے اور اپنی جان کی حفاظت کرنی ہے،

استاد جامعہ مولانا فواز صاحب ندوی نے اس کی نمایاں خوبیوں میں یہ فرمایا کہ حافظ ابراہیم بڑا ہی باادب تھا، استاد کی ڈانٹ کو اپنے لیے باعث خیر سمجھتا تھا، پڑھائی میں یکسورہتا، زیادہ  ذہین تو نہیں تھا مگر اس نے اپنی کمزوریوں کو اپنی محنت سے ہرایا اور امتحان میں اچھے نمبرات سے کامیابی حاصل کی۔صلاحیت کو بنانے میں جو مشکلات آئیں اس کا سامنا کیا یہی ترقی کا راز ہے۔

مولاناحافظ عمران صاحب اکرمی نے  اس کی اطاعت شعاری اور فرمانبرداری کی مثالیں دیں اور نم آنکھوں سے اس کی خوبیوں کو یوں گنایا کہ حافظ ابراہیم نرم مزاج اور نرم دل تھا، با ادب و سلیقہ مند تھا، استاد کی ہر بات پر سرِ تسلیم خم کرتا، رات کو جلد سونے کا عادی اور غلط عادتوں سے دور تھا۔

اسی طرح مولانا شعیب صاحب ندوی نے ان کے والد صاحب کو صبر کا دامن تھامے رکھنے اور اپنی دیگر اولاد کی بھی ایسی ہی تربیت کرنے کی تلقین کی۔

مولانا فیض صاحب ندوی نے اپنے تاثرات میں مرحوم کو محنتی اور با ادب قرار دیتے ہوئے کہا کہ بے ادبی ایسی خطرناک چیز ہے جو آدمی کی ذہانت و صلاحیت دونوں کو ختم کردیتی ہے، حادثات ہمیں سبق دیتے ہیں اور تنبیہ کرتے ہیں کہ ہم اپنی جان کی حفاظت کریں یہ اللہ کی امانت ہے۔

ان کے والد جناب فیصل صاحب عابدہ نے اللہ کے فیصلہ پر راضی ہوتے ہوئے اپنے بیٹے کے حق میں دعائے مغفرت کی درخواست کی، اور اس کی دیگر اچھائیوں والدین کی خدمت، گھر کے کام کرنا، برائیوں سے دور رہنا، بڑوں کا ادب کرنا وغیرہ کا تذکرہ کرتے ہوئے طلبہ کو یہ نصیحت کی کہ تعلیم کے ساتھ دعوت کے کام سے جڑے رہیں تاکہ آپ کا علم دوسروں کے لیے روشنی کا ذریعہ بنے۔
تم سے ملتی تھی دلوں کی تازگی
تم چلے تو سارے ارماں مر چلے

اس موقع پر حافظ نصیر خلیفہ نے بھی اپنے درجہ کی نمائندگی کرتے ہوئے مرحوم سے اپنے تعلق کو واضح کیا اور اس کی ملنساری و اخلاق حسنہ کی گواہی دی۔

مرحوم نے زندگی کی کچھ ہی  بہاریں دیکھیں تھیں کہ رب کریم کا بلاوا آگیا، عمرہ کی ادائیگی کے بعد اپنا مقصد حیات بہتر انتخاب کرکے گناہوں سے پاک و صاف ہوکر اس دنیا سے رخصت ہوا اور ہمیں یہ پیغام دے گیا کہ  موت نہ عمر دیکھتی ہے نہ وقت اور نہ ہی عہدہ و مرتبہ، قرآن و دینی تعلیم کی نسبت سے مجھے یہ مقام حاصل ہوا ہے اس لیے آپ بھی اس کو مضبوطی سے تھامیں اور اپنے اخلاق کو نکھاریں اور اپنی آخرت کو سنواریں۔
بے وفا دنیا پہ مت کر اعتبار      تو اچانک موت کا ہوگا شکار
اللہ تعالی مرحوم کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائیاور ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔ آمین
اخیر میں مہتمم جامعہ نے ان سب ہی لوگوں کا شکریہ ادا کیا جنھوں نے حافظ ابراہیم کی میت کی تلاش میں اپنا تعاون پیش کیا اور ان کے حق میں دعائے خیر فرمائی۔ اس موقع پر طلبہ و اساتذہ اور سرپرست کے علاوہ متعلقین کی ایک تعداد شریک رہی۔
نشست کا آغاز سید نبیغ برماور کی تلاوت سے ہوا اور صدر جامعہ مولانا محمد اقبال صاحب ملا ندوی کے صدارتی کلمات اور دعا پر نشست کا اختتام ہوا۔

علاقات عامہ 
جامعہ اسلامیہ بهٹکل

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا