English   /   Kannada   /   Nawayathi

نہ ہم مشتعل ہوں نہ مایوس اور نہ متزلزل ,بلکہ حملہ آوروں کا جمہوری اور قانونی طور پر دفاع کریں 

share with us


عبدالعزیز 


    ہجومی تشدد یا دہشت گردی کی وبا سارے ملک میں پھوٹ پڑی ہے۔ اس کے بارے میں مسلمانوں کی تشویش اور فکرمندی فطری بات ہے۔ کیونکہ ان پر ناحق حملے کسی نہ کسی بہانے سے کئے جارہے ہیں۔ آج کل ’جئے شری رام‘ کے نہ بولنے سے مسلمانوں پر حملے پے در پے کئے جارہے ہیں۔ جہاں جہاں سنگھ پریوار کی حکومتیں ہیں وہاں حملہ آوروں کی پزیرائی ہورہی ہے۔ مجرموں کو گلے لگایا جارہا ہے اور ان کو پھولوں کا ہار پہناکر استقبال کیا جارہا ہے۔ اب تو حالت یہ ہے کہ حکمراں طبقے کے بیٹے، بھتیجے سرکاری افسروں کو بھی جب چاہتے ہیں زد و کوب کرتے ہیں اور اس پر بے دریغ حملے کرتے ہیں۔ جب غیر بی جے پی حکومت میں ان کو گرفتاری کے بعد جیل سے رہائی ہوتی ہے تو جیل کے سامنے اور ان کے گھر میں ان کا پرجوش استقبال ہوتا ہے۔ 
    اندور میں بی جے پی ایم ایل اے آکاش وجئے ورگیہ (بی جے پی جنرل سکریٹری کیلاش وجئے ورگیہ کا بیٹا)نے کئی روز پہلے ایک میونسپل آفیسر دھریندرا سنگھ بیس کو کرکٹ کے بلے سے اس وقت مارا پیٹا جب وہ میونسپل کے قاعدے اور قانون کے مطابق ایک بلڈنگ کو جس کے گرجانے کا خطرہ تھا منہدم کر رہا تھا۔ گزشتہ اتوار کو جب آکاش کی جیل سے ضمانت پر رہائی ہوئی تو بی جے پی کے لوگوں نے جیل کے سامنے اس کا پرجوش استقبال کیا اور پھولوں کا ہار پہنایااور اس کے گھر میں خوشی کے اظہار کیلئے مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔ آکاش نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ ”میں نے جو کچھ کیا تھا وہ صحیح کیا اور سوچ سمجھ کر کیا تھا۔ مجھے اس کیلئے کوئی ندامت یا شرمندگی نہیں ہے“۔ اب غور کرنے کی بات ہے کہ سنگھ پریوار کے لوگ ہر کمزور اور ناتواں پر حملے کر رہے ہیں۔ نشہئ اقتدار میں اندھے ہوگئے ہیں۔
    مسلمان بدقسمتی سے کئی لحاظ سے کمزور و ناتواں ہیں۔ تعلیمی لحاظ سے بھی اور معاشی اعتبار سے بھی۔ اس پسماندگی کی بھی ایک وجہ ہے کہ حملہ آور ان پر حملہ کرنے سے ڈرتے نہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ پولس اور قانون ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔ اور تیسری بڑی وجہ ہے کہ حکومت کے عہدوں پر جو فائز ہیں حملہ آوروں کی پذیرائی کرتے ہیں۔ اس کے برعکس مسلمان جو مظلوم ہیں وہ خوف و دہشت کی وجہ سے بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ اگر وہ کچھ بھی کرتے ہیں تو پولس ان پر ایک دو نہیں بلکہ کئی الزامات گھڑ کر لگا سکتی ہے اور برسوں جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھ دے گی۔ اس خوف سے وہ اپنی جان دے دیتے ہیں مزاحمت نہیں کرتے جو ایک طرح سے سخت بزدلی ہے۔ بزدل ایک بار نہیں بار بار مرتا ہے لیکن بہادر ایک بار مرتا ہے۔ مسلمانوں کو ملکی اور شرعی قانون سے اچھی طرح واقف ہونا چاہئے۔ ملک کا قانون ہے کہ جب بھی کوئی اس کے جان و مال پر حملہ کرے تو وہ اس کا دفاع کرسکتا ہے۔ دفاع کرنا غیر قانونی نہیں ہے بلکہ اس کا قانونی اور جمہوری حق ہے۔ شریعت اسلامی نے بھی دفاع کرنے کا حق دیا ہے۔ کوئی بھی شخص اگر کسی مسلمان پر حملہ کرتا ہے مسلمان اگر مقابلہ کرتے ہوئے مارا جاتا ہے تو وہ شہید کہلاتا ہے۔ اگر بچ جاتا ہے تو اسے غازی کہا جاتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر مسلمان ایمان اور اسلام کے ساتھ حملہ آور کا مقابلہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی مدد ہوتی ہے۔ مولانا ظفر علی خاں نے صحیح کہا ہے کہ  ؎
’اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے …… پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے‘
    اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں کی طرف سے اور برادران وطن میں جو انصاف پسند ہیں ان کی طرف سے ہجومی تشدد یا ہجومی دہشت گردی کے خلاف آواز بلند ہورہی ہے۔ مسلمان نوجوان اور کچھ تنظیموں نے پُرامن احتجاج کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ یہ اچھی بات ہے۔ چند اچھے اور حق پسند قومی اخبارات میں بھی ہجومی دہشت گردی کے خلاف سخت طریقے سے لکھا جارہا ہے۔ اگر چہ ان سب کا حکومت وقت پر کوئی اثر نہیں ہورہا ہے لیکن ناانصافی، زیادتی، جبر و ظلم کے خلاف حتی المقدور آواز اٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ عام طور پر جو بات شدت سے محسوس کی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ جو لوگ احتجاج کررہے ہیں وہ چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں بٹ کر کر رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کلکتہ یا کسی بھی شہر میں جہاں مسلمانوں کی اچھی خاصی آبادی ہے بڑے پیمانے پر مجتمع ہوکر ظالموں کے خلاف احتجاج کریں۔ ممکن ہو تو غیر مسلم بھائیوں کو بھی زیادہ سے زیادہ تعداد میں اجتماعی احتجاج میں شریک کریں۔ اس کا اثر کچھ زیادہ ہی ہوگا۔ مسلمانوں کی ایک کمزوری یہ ہے کہ کسی بھی احتجاجی جلسے یا مظاہرے کیلئے بڑے پیمانے پر تیاری نہیں کرتے۔ چند لوگ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور بغیر کسی تیاری کے جلسے، جلوس اور مظاہرے کرتے ہیں۔ حالانکہ مظاہرے اور احتجاج اور مخالفت کی بات ہر مسلمان اور ہر انصاف پسند انسان میں پائی جاتی ہے۔ اگر اسے اچھے طریقے سے ترغیب دلائی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ بڑے پیمانے کا جلوس یا مظاہرہ نہ ہوسکے۔ 
    تیسری بات یہ ہے کہ جس کا احساس عام طور پر کیا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ ہندستان میں مسلمانوں کی بہت سی چھوٹی بڑی تنظیمیں ہیں ان کی طرف سے بھی مشترکہ طور پر کوئی لائحہ عمل مرتب ہونا چاہئے تھا اور ایک ایسی آواز اٹھنی چاہئے تھی جو سارے مسلمانوں کے دل کی آواز ہوتی۔ افسوس ناک بات ہے اس کیلئے جو مشترکہ وفاقی تنظیم ’مسلم مجلس مشاورت‘ مشترکہ کوششوں کیلئے قائم کی گئی تھی وہ آج بستر مرگ پر ہے۔ مسلمان خود اس کے وجود اور زندگی کے درپے ہیں جبکہ ایسی حالت میں اس وفاقی تنظیم کی سخت ضرورت تھی۔ اگر وہ زندہ ہوتی تو یا اس کے اندر زندگی کی کوئی رمق ہوتی تو ہر شہر ہر قریے میں اس کی میٹنگ ہوتی۔ اس کی طرف سے کوئی کارروائی کی جاتی۔ مسلمانوں کو دلاسہ اور تسلی دینے کی کوشش کی جاتی اور ان کو بزدلی سے دور کرنے کی حتی الامکان کوشش کی جاتی۔ اچھی بات یہ ہے کہ علماء میں سے بہت سے لوگ مسلمانوں کو دفاعی اسکیم کی ترغیب دلا رہے ہیں اور پھر چیدہ لوگ بھی مسلمان کی توجہ اس حقیقت کی طرف مبذول کر رہے ہیں کہ مسلمان کمزوری نہ دکھائیں، بزدلی کا مظاہرہ نہ کریں کیونکہ  ؎ ’جرم ضعیفی کی سزا ہے مرگِ مفاجات‘ (علامہ اقبالؒ)۔
    جب لوگ ایک ہوں یا دو ہوں حملہ آور کے خلاف ڈھیلے، پتھر یا لاٹھی یا کسی اور قانونی اوزار کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں تو حملہ آور کی جان پر بن آتی ہے اور وہ بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ ایسے واقعات سننے میں آئے ہیں کہ گھر کی عورتوں نے اگر شجاعت اور بہادری سے ڈکیتوں کا مقابلہ کیا تو ڈکیت یا تو بھاگ کھڑے ہوئے یا ان کو اپنی جان گنوانی پڑی۔ کچھ لوگوں نے مسلمانوں کو مسلم تنظیموں کو توجہ دلائی ہے کہ جہاں وہ حج کی تربیت اور دیگر تربیتیں دیتے ہیں وہیں جسمانی تربیت کا بھی بندوبست کریں۔ میرے خیال سے یہ کوئی خراب بات نہیں ہے کہ انسان اپنے آپ کو طاقتور، تندرست و توانا رکھے۔ حدیث میں آیا ہے کہ ”طاقتور مومن کمزور مومن سے بہتر ہوتا ہے“۔ 
    آخر میں ہم یہ کہیں گے کہ ساری تدبیریں اس وقت فیل ہوجاتی ہیں جب مسلمان ایمانی قوت سے محروم ہوتا ہے۔ مسلمانوں کو ساری چیزوں سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ اپنے اندر ایمانی، اخلاقی اور روحانی قوت پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ ؎
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں …… جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں 
    ذوق یقین سے مطلب یہ ہے کہ غیر معمولی ایمان و یقین اور غیر معمولی خداوند قدوس پر بھروسہ۔ علامہ اقبال نے یہ بھی کہا ہے کہ  ؎
یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم …… جہادِ زندگانی میں یہ ہیں مردوں کی شمشیریں 
    دراصل اعلیٰ سیرت اور اعلیٰ اخلاق ظالموں کے خلاف سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ ؎
صفِ جنگاہ میں مردانِ خدا کی تکبیر …… جوشِ کردار سے بنتی ہے خدا کی آواز 
    ہم اگر مشتعل نہ ہوں، خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہوں، متزلزل اور منتشر بھی نہ ہوں تو ہم ظالموں کا آسانی سے بے خوف ہوکر مقابلہ کرسکتے ہیں۔ اگر ہماری کوئی جان لے رہا ہے یا ہماری جان پر حملہ کر رہا ہے تو ہم آسانی سے بغیر لڑے بھڑے اپنی جان نہ دے دیں بلکہ لڑتے ہوئے، مزاحمت کرتے ہوئے اپنے زندہ رہنے کا ثبوت دیں  ؎ ’اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے‘۔
 ’مصاف زندگی میں سیرتِ فولاد کر…… شبستانِ محبت میں حریر و پرنیاں ہوجا‘ 
علامہ اقبالؒ نے اپنے ایک شعر میں مومن کی پوری صفات بیان کر دی ہیں   ؎
جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم …… دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان 

 

(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے )

02جون2019(فکروخبر)

 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا