English   /   Kannada   /   Nawayathi

  ہمارے قومی ضمیر کی بے حسی کا حال

share with us


عارف عزیز(بھوپال)

    ہندوستان کے ۵۲۱ کروڑ عوام کے مسائل بھی ۵۲۱ کروڑ سے کم نہیں لیکن یہ ایک دلچسپ حساب ہے جبکہ سیاست میں سوال نجی مسائل کا نہیں ہوتا بلکہ ان مسائل کو اہمیت دی جاتی ہے جو اجتماعی نوعیت کے ہوں خصوصاً انسانی زندگی پر ایسے اثرات مرتبت کریں جو تمام انفرادی مسائل کو پس پشت ڈال دیں اس اعتبار سے دیکھا جائے تو آج کا سب سے سنگین مسئلہ ملک کے ”قومی ضمیر کی بیداری“ کا ہے جو عرصہ سے محوِ خواب ہے۔
    ملک کی ایک ریاست جموں وکشمیر کا چہرہ تشدد وبربریت سے لہو لہان ہے مگر ہمارے سیاسی رہنماؤں کو اس کا مداوا کرنے سے زیادہ اس آگ میں اپنی روٹیاں سینکنے سے دلچسپی ہے یہی حال فرقہ وارانہ تصادم کا ہے جس کو سب  برا کہتے ہیں مگر وقت آنے پر اس آگ میں اپنے ہاتھ سینکنے میں بھی مصروف ہوجاتے ہیں۔مغربی بنگال کے کئی شہروں میں فرقہ وارانہ فسادات  ہوئے جن کو فرد کرنے کے بجائے تشدد کی اس آگ کو بھڑکانے پر وہاں کے سیاست دانوں نے زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے۔
    اس طرح ہمارے ملک میں ایک ایسی صورت حال پیدا ہوگئی ہے کہ اپنے مفاد یا اپنی ضرورت کا سوال ہو تو کوئی چیز ناجائز اور غلط دکھائی نہیں دیتی، ہر طرح کی غفلت ہر طرح کا تجاوز بلکہ ہر طرح کی دھاندلی کے آگے یہاں کے عوام اپنی آنکھیں موند کر بیٹھ جاتے ہیں جیسے کہ غلطی کے بجائے یہ عین انصاف وقانون ہو، اگر مفاد یا ضرورت کا سوال نہ ہو تو ہر وہ چیز جو پہلے صحیح اور برحق سمجھی جاتی تھی غلط اور مضر نظر آنے لگتی ہے، اس کے خلاف اخلاق، دیانت قانون، اور جواز کے درجنوں سوال کھڑے کردیئے جاتے ہیں۔
    ملک کے سیاست داں تقریر کرتے ہیں تو عوام کو ایثار اور حب الوطنی کا درس پڑھاتے ہیں اور ان کا سارا زور اس بات پر ہوتا ہے کہ ہندوستان کے اجتماعی مفاد کو پیش نظر رکھنا اور ایسے ہر کام سے پرہیز کرنا چاہئے جس سے ملک کے اتحاد وسا  لمیت اور عظمت کو نقصان پہونچے، لیکن عمل کا سوال آتا ہے تو ہر آدمی پہلے اپنی ذات، پھر اپنے خاندان، پھر اپنے گھر اور پھر اپنی ریاست کو سامنے رکھتا ہے اور یہ تک فراموش کردیتا ہے کہ ہندوستان نام کا کوئی ملک،دنیا کے نقشے پر موجود ہے۔ اور وہ اس کا شہری ہے۔
    اس بارے میں سیاسی رہنماؤں یا جماعتوں پر تنقید کرنے سے کام نہیں چل سکتا بلکہ خود عوام کے طرزِ عمل کو بھی اسی کسوٹی پر کسنا پڑے گا، کیا یہ وہی عوام نہیں ہیں جو کسی معمولی سے جھگڑے پر مشتعل ہوکر ہنگامہ آرائی پر اتر آتے ہیں ایک دوسرے سے نفرت وعداوت کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں۔ بے شمار فسادات کی تاریخ گواہ ہے کہ نہایت معمولی باتوں کو بنیاد بناکر ضعیفوں، کمزوروں اور عورتوں کو تشدد کا نشانہ بنایاگیا اور اس کے بعد ظالم ومظلوم کی نشاندہی یا سچائی وصداقت سے سروکار نہیں رہا بلکہ سیاسی دوکانوں کی رونق بڑھانے پر زیادہ توجہ دی گئی۔
     اس سے بڑھ کر قومی ضمیر کی بے حسی اور کیا ہوسکتی ہے؟ اسے جو بھی نام دیاجائے یہ کوئی اچانک حادثہ نہیں بلکہ ایک طویل عمل کا فطری نتیجہ ہے جس کی بنیاد خواہ آزادی سے پہلے ہماری عوامی زندگی نے ڈالی ہو تا ہم اس کا عروج آزادی کے  بعد ہوا اور رفتہ رفتہ یہ ایک مستقل مرض کی شکل اختیار کرگیا ہے۔
    ملک کے اس عمومی مزاج کا اثر مسلمانوں نے بھی قبول کیا ہے اور اجتماعی مسائل کی طرح مسلمانوں کے ملی مسائل بھی اس کی نذر ہوگئے، مثلاً وقفیہ املاک کے بارے میں عام تاثر ہے کہ اگر ان پر کارگرتوجہ نہیں دی گئی تو وہ دن دور نہیں جب شہری اوقاف کی بیشتر جائدادیں ناجائز قبضوں کا شکار ہوکر ختم ہوجائیں گی۔
    مسلمانوں کا اجتماعی ضمیر اپنے ان اوقاف کی بربادی کو خاموشی سے دیکھ رہا ہے جن کی مالیت کا اندازہ ۰۴ ارب روپے لگایاجاتا ہے اگر پورے ملک میں اس کی آمدنی سے رینٹ کنٹرول کی گرفت اٹھادی جائے تو اس سے سالانہ ۰۴ سے۰۵ کروڑ روپے کی آمدنی ہوسکتی لیکن اجتماعی ضمیر کی موت کا نتیجہ ہے کہ عام مسلمان اس حقیقت سے واقف نہیں، نہ ان کو اس بارے میں کوئی فکر لاحق ہے۔ اسی طرح مسلمانوں میں اختلاف وانتشار، مسلکی جھگڑے، شیعہ وسنی تنازعے، کم ہونے کے بجائے بڑھ رہے ہیں، اور ایسا اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں بالخصوص شمالی ہند کی مسلم اقلیت میں مل جل کر کام کرنے کی صلاحیت مفقود ہوتی جارہی ہے جس کو مسلمانوں کے اجتماعی ضمیر کی بے حسی کے سوا اور کیا نام دیاجاسکتا ہے۔

(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے ) 

29جون2019(فکروخبر)
 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا