English   /   Kannada   /   Nawayathi

پانچ منٹ

share with us

بلادِ عرب کے انتہائی اہم ملک شام میں پچھلے ۲۵سالوں سے ایک خاندان نے مسلمانوں پرایسابہیمانہ ظلم وستم شروع کر رکھا ہے کہ جس کااختتام ہونے کو نہیں آ رہا ۔ یہ خانوادہ فراعنہ مصر کی مانند مسلمانوں کو منقسم کر کے باہم دگر دست وگریباں کر کے محض ظلم ،جبرواستبدادکے ذریعے عام ملک پرحکمرانی کررہاہے ۔ہم سب کومعلوم ہے کہ شام میں بھی دوسرے عرب ملکوں کی طرح کنٹرولڈ قسم کی شخصی جمہوریت ہے۔ جابر حکومت ۴۵سال سے جعلی انتخابات کروا کے اپنا سکہ جماتارہا ہے۔ ۱۹۷۰ء میں موجودہ صدربشارالاسدکاوالدحافظ الاسدجب شام کاوزیردفاع تھا، اس نے دوسرے آمر حکمرانوں کی طرح صدربور الدین عطاشی کاتختہ الٹ دیاتھا،اس کے بعد ۱۹۷۱ء میں جعلی انتخابات کے ذریعے خود کو شام کاصدرقراردیاتھا۔۳۰سال تک جبرسے حکومت کرنے کے بعد ۸۹ سال کی عمر میں ۲۰۰۰ء میں وفات پائی اور بشارالاسدوالد کی وفات کے بعداس کاجانشین مقررہوا۔اس نے بھی نام نہادریفرنڈم کے ذریعے تخت صدارت پر قبضہ جمایا۔اس طرح شام میں بھی آج تک دوسرے عرب ملکوں کی طرح شخصی حکومت قائم ہے ،جواب عوامی بیداری اور بغاوت کے سمند رمیں ہچکولے کھارہی ہے۔
عرب دنیامیں غلبہ اسلام کیلئے اخوان المسلمون کی تحریک ۱۹۴۰ء سے چل رہی ہے جومختلف مراحل طے کرتی رہی ہے۔مسلم دنیامیں کہیں بھی صحیح اسلامی سیاسی حکومت قائم کرنا مقامی پٹھو حکمرانوں اور صلیبیوں نے ناممکن بنایا ہواہے۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پہلی جنگ عظیم کے بعدجب ۱۹۲۴ء میں صلیبیوں نے ترک خلافت کوختم کیا تو اس کے ساتھ یہ بھی اعلان کیاتھاکہ اس کے بعد دنیا میں کہیں بھی کسی بھی اسلامی ملک میں صحیح اسلامی حکومت قائم نہیں ہونے دی جائے گی، چاہے یہ مروجہ جدیدجمہوری طریقے سے ہی کیوں نہ قائم ہو۔اس کی تازہ مثال مصراوراس سے کچھ قبل الجزائر اور فلسطین کی ہے، جہاں مسلمانوں نے جمہوری طریقے سے اپنے نمائندے چنے تھے مگرصلیبی ملکوں سے تربیت پانے والی اپنے ہی ملک کی مسلم فوجوں نے اسے ختم کردیا۔ ۱۹۸۰ء میں دستوری ترمیم کے ذریعے اخوان سے تعلق ثابت ہونے پرپھانسی کی سزامقررکی گئی تھی، جواب تک برقرار ہے۔ ۱۹۸۲ء میں حافظ الاسد کے دورِحکومت میں بھی اکثریتی آبادی نے اخوان کی زیرقیادت میں اقلیتی شخصی حکومت کے خلاف بغاوت کردی تھی جسے حکومتی جبرسے دبادیاگیاتھا۔اخوان المسلمون سے اسلام کی نشا ثانیہ کیلئے کوشش کررہی ہے۔ ۱۹۸۲ء میں حمص اورحمات شہرسے اسلام پسندوں نے جدوجہدشروع کی تھی،اس کی وجہ عرب نیشلزم ،سیکولرازم اوراقلیتی شخصی حکومت سے نفرت تھی۔اس جدوجہدکوطاقت اورجبرسے نیست ونابودکردیاگیا،فضائی حملوں اورٹی۔ٹینکوں کی بمباری سے ۴۰ ہزار افرادہلاک ہوئے تھے، ۱۵۰۰/افرادکوغائب کردیاگیاتھا، لاتعداد مردوخواتین کوجیلوں میں بندکردیاگیاتھا۔حمص شہرکواقلیتی حکومت نے کھنڈرات میں تبدیل کردیاتھااوراب پھر اسی حمص شہراورصوبے سے مارچ۲۰۱۱ء میں موجودہ تحریک شروع ہوئی ہے جوپورے شام میں پھیل گئی ہے ۔پہلے کی طر ح پولیس اورفوج کو استعمال کیاجارہاہے ،لیکن عوام الناس جبرکی اس حکومت کے خلاف لوگ پامردی کے ساتھ ڈٹے ہوئے ہیں۔اس وقت تک شام میں دو لاکھ سے زیادہ افرادشہیدہوچکے ہیں ، ۴۰لاکھ سے زائدبیرونِ ملک ہجرت کرچکے ہیں،جنگی جہازوں کی بمباری کی سے لاکھ گھرتباہ ہوچکے ہیں۔اقوام متحدہ کے ادارے برائے بحالی کے مطابق۴۵ لاکھ افراداپنے آبائی علاقوں کوچھوڑکراندرونِ ملک نقل مکانی کرچکے ہیں۔شام کا ۹۰ فیصد سے زائد علاقہ بشارالاسد کے ہاتھ سے نکل چکاہے۔
حافظ الاسدموجودہ حکمران بشارالاسد کے والدکے ظالمانہ دورِ حکمرانی میں اخوان المسلمون کے حامی عوام کوبے دردی سے کچلا گیاتھا ۔شام کے ایک اخوانی خاندان کی مظلوم بیٹی ہبہ الدباغ کی رودادِ قفس سامنے آئی جس کو شام کی خفیہ ایجنسیوں کے لوگپ پانچ منٹ کہہ کرتفتیش کیلئے یونیورسٹی کے ہاسٹل سے اپنے ساتھ لے گئے۔نوسال تک اس کے ساتھ جومجرمانہ اور انسانیت سوزسلوک کیاگیا،وہ ناقابل یقین ہے۔اس کوبھائی کی گرفتاری کیلئے رہن رکھ کر جس طرح بھنبھوڑاگیااوراس دختراسلام نے جس ثابت قدمی کاثبوت دیاوہ قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی یادتازہ کر دیتا ہے ۔ اس نے اپنے رودادکی خودنوشت،جس کانام صرف ۵منٹ ہے ،میں اپنے دکھ دردکی داستان تحریرکی ہے جوآج ساری مہذب دنیاسے کئی سوالات پوچھ رہی ہے! 
دختراسلام ہبہ الداغ جوشام کے دارلحکومت دمشق یونیورسٹی میں شریعہ کی فائنل ائیرکی طالبہ تھی۔اسے حکومتی خفیہ ایجنسی نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی طرح بلاجرم اوربلاجوازتحویل میں لے لیااور۹برس تک قید رکھا۔ آٹھ بہن بھائیوں اوروالدین یعنی پورے خاندان کوشہیدکردیاگیا ۔ ایک وقت اس کی ماں اوربھائی کوبھی اس کے ساتھ قیدکیاگیامگرملنے کی اجازت نہیں دی گئی۔اس کے بھائی نوارف الدباغ کوبھی قیدکے دوران شہیدکردیا مگراس دخترِ اسلام کے پایہ استقلال میں ذرہ بھرلرزش نہ آئی۔وہ کبھی بھی کسی پارٹی یاحزب میں شامل نہیں ہوئی تھی،صرف ان تنظیموں کو جانتی تھی۔وہ اپنے والدین کے ساتھ حمات شہرمیں رہتی تھی،وہاں سے دمشق یونیورسٹی میں پڑھائی کیلئے منتقل ہوئی تھی۔ نوسال قیدمیں اپنے بھائی کی رہن کے طور پر کال کوٹھڑی میں قیدرہی کیونکہ اس کابھائی جوپرجوش سیاسی کارکن تھااور شام کی خفیہ ایجنسیوں کومطلوب تھا۔۔
اس کی زندگی کے بہترین ۹سال قاتل وحشیوں کی نذرہوگئے جس نے اس کے اعضا شل کردیئے اورروح نے بڑھاپے کی چادراوڑھ لی۔شام کی مختلف جیلوں یعنی کفرالسوسہ جیل،سجن قطنامدنی جیل، عسکری تفتیشی مرکزجیل اورسجن دوماجیل میں تعذیب کیلئے منتقل کی جاتی رہی۔ میں جب وہ رات گئے اپنے کمرے میں مطالعہ میں مصروف تھی،خفیہ پولیس کی آوازآئی اگرتم نے دروازہ نہ کھولا توہم تالے کوگولی سے اڑادیں گے۔دروازہ کھلنے پرانہوں نے کہاکہ ہبہ الدباغ تم ہی ہو؟ پھرمیرے کمرے کی تلاشی لی اورکہاہمارے ساتھ صرف پانچ منٹ کیلئے چلو۔وہ مجھے صدرمملکت کے بھانجے معین ناصیف کے پاس تفتیش کیلئے لے گئے۔اس نے فورا کہا اخوان سے تمہارا کیاتعلق ہے ؟تم اخوان کی آرگنائزرہو؟کیاتم مجلہ النذیرتقسیم کرتی رہی ہو؟ تمہارے پاس اسلحہ تھا؟ تمہارا والد اخوان کے زعما میں شامل ہے؟میں اس کے جسم کوچھلنی کر دوں گا۔اس کے یہ جملے میرے ذہن میں چپک گئے اورپھرکئی برس بعداس ظالم نے حمات میں اخوان پرتشددکے دوران واقعی میرے والد کوچھلنی کردیاتھا۔اس نے بڑے درشت لہجے میں مجھے دیوار کی طرف منہ کرکے کھڑاکرنے کاحکم دیا،مجھے یقین ہوگیاکہ مجھے اب گولی سے اڑا دیا جائے گا،اس لئے میں نے اپنے تئیں اپنے رب کو آخری مرتبہ یادکرلیامگراس کے بعد مجھے کمرہ آلات میں داخل کردیاگیا ۔ میرے ہاتھ پاؤں باندھ کرجوتشددکیاگیاوہ قابل تحریر نہیں ۔اس کے بعدایک دوسرے کمرہ تعذیب میں لے گئے،وہاں پرانے سوالات کی بوچھاڑہوئی ۔پھرکہاکہ تم وطن دشمن ہو،جب انتہائی ظلم وتشدداورمجھے وحشیوں کی طرح بھنبھوڑ کربھی مجھ سے کوئی اقرارنہ کراسکے تومجھے سجن امن الدولہ کفرالسوسہ جیل میں منتقل کر دیا گیا۔وہاں مجھے ایک کمرے میں لے گئے جس میں چارپانچ مظلوموں کوزنجیروں،ڈنڈوں اور لاٹھیوں سے ماررہے تھے اورجسم کے نازک اعضاء پربجلی کاکرنٹ لگارہے تھے اوران کی چیخوں نے عمارت کے درودیوار کوہلاکررکھ دیا۔میں نے تفتیشی اہلکارسے پوچھاتم مجھے یہاں کیوں لائے ہو؟وہ تمسخرانہ اندازمیں بولاجن کومارپڑرہی ہے ان سے معلوم کرلو۔ اس کے فورابعدمیرے منہ پر اس زورسے طمانچہ رسیدکیاگیاجس سے میراسرزورسے سامنے دیوارکے ساتھ ٹکرایا،مجھے دنیاگھومتی ہوئی نظرآئی۔مجھے محسوس ہواکہ میرا سر درمیان سے دولخت ہوگیاہے۔
جونہی مجھے ہوش آئی تومجھے الٹالٹکادیاگیا۔ایک شخص بولا،تمہیں سب کچھ سچ سچ بتاناہوگا،تمہارابھائی کہاں ہے؟میں نے کہامجھے معلوم نہیں، اس کے بعدمجھے لکڑی کے تختے پر لٹا کر میری گردن ، کلائیاں، پیٹ، گھٹنے اورپاؤں اس سے باندھ دیئے اورمجھے اس حالت میں الٹالٹکادیاگیا۔ظالم اہلکاراپنے آفیسر سے کہنے لگا، سر!یہ پکی اخوانی ہے ،دیکھیں اس کا ستر ٹکٹکی پربھی قائم ہے۔انہوں نے ٹکٹکی کوچھت سے باندھ دیا اورمجھے بھی اسی طرح بجلی کے کرنٹ لگائے گئے جومیرے سامنے دوسرے مظلوموں کو لگائے جارہے تھے۔میرے پاؤں پر ڈنڈوں سے ضربیں لگائی گئیں اورکہاکہ تمہیں بکواس کرنی پڑے گی۔میں چلائی ،میں کہہ چکی ہوں ،میرے پاس اعتراف کرنے کوکچھ بھی نہیں ، پھردوبارہ مجھے کرنٹ لگائے گئے ، ایک اہلکارمیرے پاؤں پربدستورڈنڈے کی ضربیں لگارہاتھا،میرے منہ سے مسلسل یااللہ مددکاوردجاری تھا۔
میں بے ہوش ہوگئی تھی۔مجھے ہوش میں لانے کیلئے ٹھنڈایخ پانی ڈالاگیا۔مجھے ٹکٹکی سے اتاردیاگیااورمیرے سامنے قلم کاغذرکھ کرحکم دیاگیاکہ اس پرسچ سچ لکھ دو، ورنہ مزیدٹارچرکیلئے تیار ہو جاؤ۔اس کے بعدمجھے سیل میں بندکردیاگیاجومرغی کے ڈربے جیساتھا۔اس کے قریب سیل نمبر۲۴سے مجھے اپنی ماں کی آوازسنائی دی۔میری والدہ سے بھی میرے بھائی کے متعلق پوچھ گچھ ہورہی تھی۔ اس کے بعدمیرے ایک بھائی وارف کوایک دوست کے ساتھ اسی جیل کفرالسوسہ جیل میں لے آئے اورتعذیب کے بعداسے شہیدکردیاگیا۔اس کے بعدوہ مجھے دوسری قیدی عورتوں کے ساتھ سجن قطنامدنی جیل لے گئے،وہاں مجھے بتایاگیاکہ محکمہ امن الدولہ کی طرف سے تمہیں دس سال قیدبامشقت سزاسنائی گئی ہے۔ یہاں آکرمجھے معلوم ہواکہ ماہ فروری ۱۹۸۲ء میں حمات شہرمیں میرے والدکوشہیدکردیاگیااورچاردن ان کی میت سڑک پرپڑی رہی۔
میرابھائی ماہرگھرسے باہراپنے والد کی میت کولینے کیلئے آیاتواسے بھی موقع پرگولی مار کر شہید کر دیا گیا او روہ بھی اپنے والد کے پہلومیں گواہی کیلئے پہنچ گیا۔اس طرح مجھے آٹھ بہن بھائیوں کی شہادت کی خبر ایک ساتھ ملی جس کے بعدمیں شدید بیمارہو گئی ۔ مجھے صحیح دوائی دینے کی بجائے ایک درندہ صفت ڈاکٹرسمیرنے بانجھ پن کاانجکشن لگا دیا۔یہ بات مجھے بعدمیں مجھے ایک قیدی کے رشتہ دارڈاکٹرنے بتائی۔ اس کے بعدمجھے عسکری تفتیشی مرکزمیں لے گئے ،اندرآتے ہی دونوں ہاتھوں کوہتھکڑیاں لگادی گئیں،آنکھوں پرپٹی باندھ دی گئی،پھردیوارکی طرف میرامنہ کر دیا گیا ۔ کچھ دیرکے بعدمجھے جیلرکے پاس لے گئے،اس نے کہا،سچ بتاؤ گی توتمہاری رہائی ممکن ہوسکتی ہے،اگرکچھ نہ بتایاتویہاں سے زندہ بچ کرنکلناناممکن ہوگا۔اس کے بعدمجھے ایک طویل مدت تک تاریک کوٹھڑی میں بندکردیاگیا۔
جب وہ مجھ سے ناامیدہوگئے تومجھے واپس قطنہ جیل میں کچھ ہفتے گزارنے کے بعدمجھے سجن دومامدنی جیل میں منتقل کردیا گیا ، یہاں بھی وہی وحشیانہ ظلم جاری رکھاگیا مگرظلم اللہ کی مدد سے بالآخر ہار گیا ۔اس جیل میں مجھے چاربرس گزرگئے۔جیل حکام نے مجھے کاغذدیاکہ اس پراپنے حالات لکھوں۔اس کے پندرہ دن بعدرہائی کاپروانہ ملا۔میری ایک ساتھی قیدی کوجیل حکام سے معلوم ہواکہ صدر حافظ الاسدکوقیدیوں کی خبرہی نہ تھی، ورنہ وہ بہت پہلے ہمیں رہاکردیتالیکن مجھے پورایقین تھاکہ وہ کبھی بھی ہمیں رہانہ کرتا۔یہ کیسانظام ہے کہ میرے نوبرس شدید ظلم وستم میں گزرگئے اور صدر کو پتہ ہی نہ چلا!!!پھریہ۲۵ دسمبر۱۹۸۹ء تھاکہ مجھے دوسری عورت قیدیوں کے ساتھ رہائی ملی۔رہائی کے وقت مجھے ۱۹۸۰ء کی دمشق کی وہ آخری رات یادآگئی جب نوبرس پہلے میں ہاسٹل میں امتحان کی تیاری میں مصروف تھی کہ شامی خفیہ ایجنسیوں کے لوگ مجھ بے گناہ کوصرف پانچ منٹ کی تفتیش کاکہہ کرلے گئے اورمیری زندگی کے پورے نوبرس بہیمانہ ظلم کی طویل رات کے سپردکردیئے گئے اورمیں آج تک نہ جان پائی کہ میرے ساتھ ایساکیوں کیاگیا؟ 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا