English   /   Kannada   /   Nawayathi

مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا

share with us

وصیل خان

اب یہ اچھی عادت ہو یا بری لیکن ہم اس لت یا عادت کا بری طرح شکارضرور ہیں اور وہ لت ہے خود کو سمجھالینےاور تسلی دے لینے کی۔ گویا مشکل سے مشکل مواقع پر بھی ہم خود کو سمجھا بجھاکر راضی کرہی لیتے ہیں۔ بسا اوقات یہ لت یا عادت کسی بھی انسان کے حق میں بے حد مفیداور ثمرآور ثابت ہوتی ہے،مثال کے طور پر اگر آپ کو شوگر جیسی مہلک بیماری ہو یا آپ امراض قلب کا شکار ہوں یا پھر آپ کے کسی بےحد عزیزکے ساتھ کوئی جانکاہ حادثہ پیش آجائے جسے سہن کرنے کی قدرت آپ کے اندر نہ ہو ایسے میں خود کو سمجھالینےکی یہ عادت آپ کی صحت کی ضامن بن سکتی ہےاور آپ ڈیپریشن کا شکار ہوئے بغیر بڑی حد تک اس مہلک مرض کے اثرات سے خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔

لیکن ہر جگہ یہی فارمولادرست نہیں ہوسکتا مثلا ً گذشتہ پانچ سالوں سے وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی فاشسٹ سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے خلاف ہم دھواں دھارتقریریں کرتے رہےاور اس کی شکست فاش کے شادیانے بجاتے رہے۔ ۲۰۱۹ء کے الیکشن سے قبل بی جے پی کے ساتھ کسی طرح کےبھی خیرسگالانہ تعلق کا اظہار نہ کرنے والےافراد اگر۲۰۱۹ کے الیکشن میں نریندر مودی کے زبردست اکثریت میں آنے کے بعد ان سے اور ان کی پارٹی سے والہانہ محبت کااظہار کرنے لگیں تو کیا یہ باتیں حیرت کے سمندر میں ڈوب جانے والی نہیں ہوں گی۔ پھر بھی یہ باتیں پریشان کن نہیں ، اس طرح کی باتوں کےہم اب عادی ہوچکے ہیں کیونکہ آئے دن اس طرح کے کرتب ہماری نگاہوں کے سامنے ہوتے رہتے ہیں۔ اگرآپ ذرابھی ذہن پر زور ڈالیں گے تو یہ بات یقینا ً یاد آئے گی اور کیوں نہیں آئے گی ابھی جمعہ جمعہ آٹھ ہی دن توہوئے پارلیمانی الیکشن میں عزت مآب نریندر مودی کی زبردست کامیابی کیلئے ممبئی کی مشہور درگاہ آستانہ محذوم ماہمی پر دعاؤں کا ایک پررونق اہتمام کیا گیا تھا،ان یادوں کو بھی سنبھالتے چلیں جب ایک مسلم خاتون نے نریندر مودی کی انتخابی کامیابی سے متاثر ہوکر اپنے نوزائیدہ بچے کا نام نریندر دامودر مودی رکھ لیا تھا اور بھی اس طرح کی بیشمار مثالیں دی جاسکتی ہیں ،جب کسی طاقت سے مرعوب ہوکر لوگ اپنی کمزوری اور کم مائیگی کا اظہارکیا کرتے ہیں ،آپ اگر ہندومت کے اعتقادات کا بغورمطالعہ کریں تو یہ پائیں گے کہ اس مت میں طاقت کو بہت بڑ ا درجہ دیا گیا ہےیہاں تک کہ ہر طاقت ور شئے کو بھگوان کا ایک روپ تسلیم کرلیاجاتا ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ بچپن میں جب ہم نے پہلی مرتبہ ٹرین کو اپنے سامنے سے گزرتے دیکھا تو کچھ عجیب سے استعجاب اور حیرت کے عالم میں یہ سوچ رہے تھے کہ اتنی بڑی دیو ہیکل گاڑی آگ اور پانی سے بننے والی بھاپ سے کس طرح چل سکتی ہے ضرور اس میں کوئی بھوت ،شیطان یا پریت آتما سمائی ہوئی ہے جو اسے دوڑاتی بھگاتی لے جارہی ہےاور جب ہمیں اس میں بیٹھنے کا موقع ملا توجیسے ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہیں رہا لیکن اس وقت تو جیسے حیرت کا پہاڑ ہی ٹوٹ پڑا جب دوران سفر یہ مشاہدہ ہوا کہ ٹرین کے گزرنے کے اوقات اکثر گاؤں کےبرہمن کانوں میں جنیوڈالے اور ماتھے پر خوب گہرا تلک لگائے دونوں ہاتھوں سے نمن کرتے ہوئے کھڑے رہتے تھےابتدا میں ہم نےان باتو ں پر کوئی دھیان نہیں دیا لیکن بعد میں غور کرنے اور اس ضمن میں دیگر افراد سےتبادلہ خیال کے بعد یہ انکشاف ہوا کہ ہر طاقت ور شئے کی پوجا ہندو مت کی اصل بنیاد ہےاور ٹرین چونکہ بے حد طاقت ور سواری ہےجواپنے اوپر لاکھوں ٹن سامان اور ہزاروں انسانوں کو اٹھائے ہوئے بڑی تیزی سے دوڑتی چلی جاتی ہےجو اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ وہ ایک انتہائی طاقت ورشئے ہے۔خیر یہ تو کچھ باتیں جملہ معترضہ کے طور پر درمیان میں آگئیں ورنہ اپنا مقصد گفتگو کچھ اور تھا یعنی ہم یہ کہہ رہے تھے کہ بی جے پی کی زبردست فتح اور اپوزیشن کی شکست فاش کے بعد اپنی ان نا اہلیوں اور کمزوریوں کا محاسبہ کرنے کے بجائے مودی اور امت شاہ کو مرد آہن اور اس دور کا چانکیہ ثابت کرنے میں ہم نے اپنا زور صرف کرنا شروع کردیا ہے اور الیکشن کے بعددیئے گئے نریندرمودی کے فوری بیان پر کہ اقلیتوں ( مسلمانوں ) کو کانگریس اور دیگر پارٹیوں نے ہمیشہ دھوکے میں رکھا ہے اور اب ہمیں ان کا خیال رکھنا ہےاور انہیں ’ سب کا ساتھ ،سب کا وکاس اور سب کا وشواس کے زمرے میں لاکر ان کے ساتھ انصاف کرنا ہے۔ جیسی باتو ں کو سمجھنا ہوگا اور یہ دیکھنا ہوگا کہ اس وقت ملک میں جو کچھ ہورہا ہے یعنی انتخابات کے ختم ہوتے ہی جس طرح سے موب لنچنگ کے واقعات یکے بعد دیگرے سامنے آرہے ہیں کیا اس سے یہ باتیں سامنے نہیں آرہی ہیں کہ دومہینے تک لوک سبھا کے چناؤ میں جس طرح کے فرقہ وارانہ ماحول بنائے گئے اور انتہائی غلیظ ڈھنگ سے اشتعال انگیز بیانات جاری کئے گئے موجودہ حالات اسی کا شاخسانہ ہیں۔ خود وزیراعظم مودی اور ان کی پارٹی کے زیادہ تر لیڈران پاکستان ،مسلمان اور کشمیر کو لے کر جس طرح کا جارحانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں اسی کا نتیجہ ہے کہ لوگوں کے دماغوں میں یہ بات راسخ ہوتی جارہی ہے کہ ملک میں اب اپنی سرکار آگئی ہے اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ مسلمانوں اور دلتوں کے تعلق سے وہ خواہ کچھ بھی کریں اور کوئی بھی بیان دیں ان کا کچھ بھی بگڑنے والانہیں ہے ایک طرف فرقہ پرستوں کے یہ بلند حوصلے دیکھیں اور دوسری طرف وزیراعظم نریندر مودی کے ان بیانات کو دیکھیں کہ وہ کہتے ہیں کہ اس ملک میں مسلمانوں کا بھی خوف دور کیا جائے گا اور انہیں قریب لاکر اپنا بنانے کی کوشش کی جائے گی۔

ایک طرف وزیراعظم پارلیمنٹ ہاؤس میں اقلیتوں کی دلداریوں کی بات کرتے ہیں اور ٹھیک اسی وقت بہار کے بیگو سرائے میں ایک مسلم پھیری والےکو اس کا نام پوچھ کر اس لئے گولی ماردی جاتی ہے کہ وہ مسلمان ہے اور ہریانہ میں نماز پڑھ کر گھر آتے ہوئے ایک مسلم نوجوان کو جبرا ً ’ جے شری رام ‘ کے نعرے لگانےپر مجبور کیا جاتا ہے۔کچھ سادہ لوح اور ہندومسلم یکجہتی کے خواہش مند لوگوں کو جو ابھی ان کی ٹریننگ اور فسطائی فلسفے سے متاثر نہیں ہوئے ہیں ان کی سرزنش کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ابھی حال ہی میں لوک سبھا کیلئے منتخب ہوئے مشہور کرکٹر گوتم گمبھیر جب ہریانہ کے اس مسلم نوجوان کے ساتھ ہوئے غیر آئینی اور حیوانی سلوک پر ٹوئٹ کرتے ہوئے اس کی مذمت کرتے ہیں تو اسے ٹرول کیا جاتا ہے اور انوپم کھیر جیسے لوگ گوتم کو تنبیہ کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے معاملے میں کوئی بھی بیان دینے سے پہلے احتیاط برتیں تب بھی مودی اور ان کی پارٹی کے اراکین خاموش رہتے ہیں جس کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ لگاتار دوسری باربھی بھاری اکثریت کے ساتھ انتخاب جیتنے والے مودی اور ان کی پارٹی کا نظریہ مسلمانوں سے نفرت کے درمیان ہی تبلیغ کرتا نظر آرہا ہے۔ ایسے میں کچھ سادہ لوح مسلمان جو پہلے سے ہی دھوکے کی زد میں رہتےہیں ،ان کے مزید دھوکے کھانےکے امکانا ت بڑھ سکتے ہیں ،ایسے میں جذبات سےمغلوبیت کے بجائے عقل و دانش کی روشنی میں ایک مضبوط لائحہ ٔ عمل ترتیب دینے کی ضرورت ہے  اور ایسے لوگوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہےجومحض اپنے تھوڑے سے مفاد کے پیش نظر پوری قوم و ملت کی عزت داؤ پر لگادیتے ہیں۔ مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاسکتا کہیں یہ بات ہمارے ذہن سےنکلتی تو نہیں جارہی ہے

(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے )

23جون2019(فکروخبر)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا