English   /   Kannada   /   Nawayathi

 دینا ہے تو دے حسن ِ ابدی آفاق کے زینت خانہ کو

share with us

حفیظ نعمانی

اس بات کے دہرانے کی ضرورت نہیں کہ ہم نے ہر معرکہ میں مودی جی کی مخالفت کی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جن کے لئے مخالفت کی وہ بھی اپنے نہیں ہوئے۔ گذشتہ پانچ برسوں میں اور 2019 ء کے الیکشن میں ایک بات بار بار محسوس ہوئی کہ مودی غلط کریں یا صحیح قوم ان کے ساتھ ہے۔ اور یہ بھی تسلیم کرنا پڑا کہ ان کا انداز جو بھی ہو وہ ہاری ہوئی بازی بھی جیت لیتے ہیں۔
یہ ان کا معمولی کارنامہ نہیں ہے کہ انہوں نے مسلمان کو کانگریس سے اتنا دور کردیا کہ ان کی پرچھائیں سے بھی راہل گاندھی بچتے ہیں اور جب 2019 ء کے الیکشن میں ہر طرف سے ٹھوک بجاکر مودی جی نے دیکھ لیا کہ اب مسلمان بھی کانگریس کو ہندوؤں کی پارٹی سمجھنے لگے تو گرم لوہے پر ایسی چوٹ ماری کہ لوہا ہر طرف سے مڑگیا۔ انہوں نے پہلے رمضان المبارک کی مسلمانوں کو مبارکباد دی اس کے بعد عید کی مبارکباد کے لئے اردو کااستعمال کیا جو اسلامی زبان نہ ہوتے ہوئے مسلمانوں کی مادری اور محبوب زبان ہے۔ اور مسلمان بچوں اور بچیوں کو عیدی کے نام پر تو قارون کا خزانہ کھولتے ہوئے پانچ کروڑ مسلمان لڑکوں اور لڑکیوں کو اسکالرشپ دینے کا اعلان کردیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر اقلیتی امور کے وزیر پانچ لاکھ مسلمان بچوں کے لئے بھی اسکالرشپ کا اعلان کرتے تو ہم جیسے مخالفوں کے قلم کانپ جاتے اس کے بجائے پانچ کروڑ اور اس کا ذکر اندر بھی اور باہر بھی رجت شرما کے انڈیا ٹی وی کے پروگرام آپ کی عدالت میں بھی اور پھر اس کے آگے کی بات کہ مسلمان ہونہار لڑکیوں کے لئے آئی اے ایس اور پی سی ایس کے مقابلہ کے امتحانات کی تیاری کے لئے سرکار کی طرف سے مفت کوچنگ کے انتظام کے اعلان نے تو زبان اور قلم پر تالا لگادیا۔ یہ اعلانات اور فیصلے ہرگز ایسے نہیں تھے کہ اگر الیکشن سے پہلے کئے جاتے تو انہیں ووٹ کی سیاست نہ مانا جاتا۔ مگر نتیجہ آنے کے بعد اور بے مثال کامیابی کے بعد اس اعلان سے ثابت ہوگیا کہ مودی جی سیاست کے ماہر کھلاڑی ہیں انہوں نے دیکھ لیا کہ کانگریس نے مسلمانوں سے پردہ کرنا شروع کردیا تھا تو 2019 ء کے الیکشن میں مسلمانوں نے بھی کانگریس کو وعلیکم السلام کہہ دیا۔ اور یہ بہترین موقع ہے کہ بی جے پی کے دروازے مسلمانوں کے لئے کھول دیئے جائیں۔ اب کون ہے جس کے بچوں کو اسکالر شپ ملے جس کی لڑکی کلکٹر بننے کے لئے مفت کوچنگ کا فائدہ اٹھائے اور ان بچوں کے ماں باپ کانگریس کا نام لیں؟
ان دو بہت بڑے اور مفید اعلانات کے بعد ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اب مختار عباس نقوی کو اس پر متوجہ کیا جائے کہ صرف اترپردیش میں سلاٹر ہاؤس نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ ان کے وزیر داخلہ نے 2017 ء میں یوپی کا الیکشن جیتنے کے بعد وزیراعلیٰ کے ساتھ ہر قسم کے سلاٹر ہاؤس کو وہ قانونی ہو یا غیرقانونی بلڈوزر سے برباد کردیا تھا۔ اگر پورے ملک میں سلاٹر ہاؤس نہ ہوتے تو ہم یوپی کے لئے بھی نہ کہتے لیکن ہر صوبہ میں وہ کام کررہے ہیں اور اترپردیش میں بھی جو سرکاری ذریعہ سے دوسرے ملکوں کو گوشت بھیجنے کے لئے سلاٹر ہاؤس ہیں وہ چل رہے ہیں تو پھر حکومت یوپی کے شہریوں کو اجازت کیوں نہیں دیتی؟ لکھنؤ اور اترپردیش کے رہنے والوں کو معلوم ہے کہ ہر موسم میں شہروں اور قصبوں میں پلاؤ نہیں بکتا تھا اب لکھنؤ میں گوشت کا کام کرنے والے سرکاری سلاٹر ہاؤس سے گوشت خریدکر پلاؤ یا بریانی بناتے ہیں اور دن بھر بیچنے کے بعد جو بچتا ہے وہ اپنے بچوں کے لئے لے جاتے ہیں لیکن یہ ان کا کاروبار نہیں ہے۔ نقوی صاحب خود غور کریں جو صدیوں سے جانوروں کی خرید فروخت گوشت کھال سینگ اور ہڈیوں کا کاروبار کرتے آئے ہیں وہ بریانی اور حلیم پکاکر بیچیں تو وقتی طور پر تو کرلیں گے یہ کام مستقل نہیں ہے۔ اور جو یہ کام نہیں کررہے وہ یا تو رکشہ چلا رہے ہیں یا دوسرے انداز کی محنت۔
سلاٹر ہاؤس حکومت کی پوری پابندیوں کے ساتھ بنانے کیلئے قریشی برادری کے سیکڑوں آدمی تیار ہیں آبادی سے جتنی دور کہیں وہ زمین خرید لیں گے سرکاری ڈاکٹر کی فیس بھی وہ دیں گے صفائی کا انتظام بھی وہ خود کریں گے غرض کہ حکومت اترپردیش کو صرف منظوری کی مہر لگانا ہے اور بس۔ یہ تو نقوی صاحب بھی سوچ سکتے ہیں کہ جس گھر کے دو بچے اسکالرشپ کے پیسے پارہے ہوں اسی گھر کے مکھیا خوانچہ لگاکر پلاؤ بیچیں اور کبھی بکے کبھی خالی ہاتھ آجائیں تو مودی جی جو چاہتے ہیں کہ مسلمان بی جے پی کو کانگریس کی جگہ اپنا سمجھ کر پارٹی میں آئے وہ کیسے ہمت کرے گا؟
اسکالرشپ پانے والے بچے اور کوچنگ سے فائدہ اٹھانے والی لڑکیاں سب سید فاروقی، صدیقی، عثمانی اور پٹھان تو ہوں گی نہیں ان میں انصاری، منصوری، راعینی، قریشی سبھی ہوں گی تو جب مودی جی سب کو گود لے رہے ہیں تو تھوڑاسا ہاتھوں کو اور پھیلا دیں۔ مسلمانوں کا کانگریس سے اس وقت تعلق تھا جب مسلمان اور ہند ومل کر کانگریس میں تھے۔ اس کانگریس کا مسلمان کیا کریں اور اس سے کیا واسطہ جو یہ چاہے کہ مسلمان کانگریس کو ووٹ بھی دے تو آڑ میں کھڑا ہوکر تاکہ ہندوؤں پر ظاہر نہ ہو کہ کانگریس مسلمانوں کے ووٹ سے جیتی ہے۔ اور کانگریس کے اسی برتاؤ کا نتیجہ ہے کہ مراد آباد جو ہمارا ضلع تھا وہاں جب یہ سنا کہ عمران پرتاب گڑھی کو کانگریس نے ٹکٹ دیا ہے تو پہلے تو راج ببر سیٹ چھوڑکر گئے بعد میں نہ جانے کتنے لوگوں نے کہا کہ اس کا روڈشو دیکھنے والا تھا لیکن صرف کانگریس کے ٹکٹ کی وجہ سے ایک لاکھ ووٹ بھی نہیں ملے۔ اور سب کا یہی حال ہوا

(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے )

 16جون2019(فکروخبر)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا