English   /   Kannada   /   Nawayathi

کھانا انسانی زندگی کے لئے لازم ہے مگر؟

share with us

فرید سعیدی۔ بھوپال 


کچھ لوگ کھانے کے لئے جیتے ہیں، کچھ جینے کے لئے کھاتے ہیں۔ کھانا انسانی زندگی کے لئے لازم ہے مگر جس طرح کسی بھی چیز کی انتہا نقصان دہ ہوتی ہے،اُسی طرح زبان کے چٹخارے کے لئے کھانے کی دیوانگی نہ صرف یہ کہ صحت کو خراب کرتی ہے بلکہ کبھی کبھی موت کا بھی باعث بن جاتی ہے۔
افریقہ کے کئی ممالک ایسے ہیں جہاں کھانے کے لئے کچھ میسر ہی نہیں ہے۔ وہاں کے لوگوں کو دیکھوتو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہڈیوں پر گوشت چڑھا دیا گیا ہو۔ میں نے وہاں کا ایک فوٹو دیکھا میں لرز گیا۔ ایک بیس، بائیس سال کا نوجوان جسے نوجوان بھی نہیں کہا جا سکتا، کھانے کی تلاش میں جا رہا تھا، لیکن بھوک کے مارے وہ اس حال کو پہنچ گیا تھا کہ اپنے پاؤں پر کھڑا بھی نہیں ہوسکتا تھا۔وہ زمین پر رینگ رہا تھا اور تھوڑی دور پر گِد اُس کے مرنے کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے۔ جس فوٹو گرافر نے یہ فوٹو دیا تھا اُس کا ذہن اس حد تک ارتعاش کا شکار ہوا تھا اور خود اُسے اُس منظر کو دیکھ کر اس حد تک تکلیف پہنچی تھی کہ آخر میں اُس نے خود کُشی کر لی۔
ہم کو اللہ نے جو اپنی بے حساب کھانے کی نعمتوں سے نوازا ہے، اُس کے لئے ہم اُس کا جس قدر بھی شکر ادا کریں کم ہے۔ہمارے یہاں دولت کی جو انتہائی نا مناسب تقسیم ہوئی ہے اُس کا یہ بدترین نتیجہ نکلا ہے کہ کچھ لوگ بچا ہوا کھانا کچرے کے ڈبے میں ڈال کر آتے ہیں اور کچھ لوگ کچرے کے ڈبوں میں سے اُٹھا کر پڑا ہوا کھانا کھاتے ہیں۔
کھانے کا صحیح طریقہ اور کھلانے کا صحیح طریقہ ہمیں ماں کے دودھ پلانے سے شروع کرنا چاہئے۔اگر صحیح طریقے سے ماں اپنے سینے سے دودھ پلاتی ہے، سوکھے دودھ کے ڈبوں کو دودھ بخش وانے کے لئے نہیں چھوڑ دیتی ہے تو اُس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اُس بچے کی باقی زندگی میں انتہائی مفید اثرات مرتب ہوتے ہیں۔اُس میں غیر ضروری وزن پیدا نہیں ہوتا دوسرے جو ایسی بیماریاں ہوتی ہیں جن کے جراثیم جسم میں داخل ہوکر بیماری کا پاس بنتے ہیں اُس سے بھی وہ بچہ محفوط رہتا ہے۔
کھانا آدمی کو اُس لحاظ سے کھانا چاہئے جس قدر اُس کی زندگی میں وہ جسمانی مشقت کرتا ہے۔ اگر وہ اپنی روز مرہ کی جسمانی مشقت سے زیادہ کھانا کھائے گا تو اُس کا بیمار پڑنا لازم ہے۔کیوں کہ کھانا انسانی جسم کو تقویت پہنچاتا ہے جو روز مرّہ کے کاموں میں صرف ہوتی ہے۔ اِس میں ایک میزان ہونا چاہئے۔ مثال کے طور پر اگر ہم کسی ٹنکی میں پانی بھرتے جائیں اور اُس میں سے پانی کی نکاسی نہ ہو تو وہ ٹنکی over flow ہو جائے گی۔یہی انسانی جسم کا معا ملہ ہے۔
اِس وقت سائنس اور ٹکنولاجی نے ترقی کر کے طعام کے سلسلے میں کئی اُصول ایجاد کئے۔ مثلاً غذائیت کے ذریعے جو تقویت جسے عرفِ عام میں کِلوری کہا جاتا ہے۔ اُس کے حصول کے لئے آپ کے جسم میں دس فیصد سے زیادہ چربی نہیں ہونی چاہئے۔اِسی طرح کُل تقویت کے لئے کھانے میں دس فیصد سے زیادہ شکر نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی روزانہ کھانے میں پانچ گرام سے زیادہ نمک استعمال کرنا چاہئے۔ اِن چیزوں کے احتیاط سے ذہنی کھچاؤ اور دل کی بیماریوں سے بچا جاسکتا ہے۔
یہ تو ہوا کہ کھانے میں کیا کھایا جائے۔ اِس کا دوسرا پہلو کھانا کس طرح کھایا جائے۔ اِس سلسلے میں میں اُس شخصیت کی کچھ احادیث پیش کرنا چاہتا ہوں جو عرب کے بے تاج بادشاہ تھے اور جن کے نوک ِقلم پر پوری ریاست کا خزانہ تھا لیکن اُنہوں نے اور اُن کے گھر والوں نے کبھی دو وقت کا کھانا پیٹ بھر کر نہیں کھایا۔محمد ﷺ نے کبھی تشتری رکھ کر یعنی ایک وقت مختلف قسم کا کھانا نہیں کھایا اور نہ ہی کبھی آپ نے میز پر کھانا کھایااور نہ کبھی ٹیک لگا کر کھانا کھایا۔حضرت ابو ہریرہ سے یہ حدیث منقول ہے کہ محمد ﷺ نے کبھی کسی کھانے میں کوئی عیب نہیں نکالا۔ عمربن سلمان ؓ نے بیان کیا کہ میں پرورش میں تھا، میرا ہاتھ کھانا کھاتے وقت برتن میں چاروں طرف گھوما کرتا تھا اِس لئے آپ نے مجھ سے فرمایا بیٹے بسم اللہ پڑھ لیا کرو، داہنے ہاتھ سے کھایا کر اور برتن میں وہاں سے کھایا کر جو جگہ تجھ سے نزدیک ہو۔محمد ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کسی شخص کا خادم اُس کا کھانا لائے تو اگر وہ اِسے اپنے ساتھ نہیں بیٹھا سکتا تو کم ازکم ایک یا دو لقمے اِس کھانے میں سے اُسے کھلا دے، اُس نے اِس کی گرمی یعنی کھانا پکاتے وقت کی گرمی اور تیاری کی مشقت برداشت کی۔
اب ایک دوسری جانب میں آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ انسان جو کچھ بھی کھائے اور اپنے گھر والوں کو جو کچھ بھی کھلائے وہ جائز کمائی کا ہونا چاہئے، اگر لوگوں کے حقوق غصب کر کے حرا م کمائی سے پیٹ بھرا جائے گا چاہے وہ مرغاً غذائیں ہی کیوں نہ ہوتو اُس سے جو خون بنے گا وہ دوسروں کے خو ن کے آنسوؤں کا نتیجہ ہوگا۔ اِسی لئے اس شعر پر میں اپنی بات ختم کرتا ہوں   ؎
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اُس کھیت کے ہر خوشہئ گندم کو جلا دو

(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے )

15جون2019(فکروخبر

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا